تحریک آزادی اور دارالعلوم دیوبند

جنگ آزادی 1857ء معاشرے کے مختلف طبقات کو ہندوستان کی بیرونی قوت سے آزادی کے لئے قر یب لے آئی۔ بہت سے مذہبی رہنما جو کہ شاہ ولی اللہ کے پیروکار تھے انہوں نے اس آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا قاسم نانوتوی نے شاملی میں آزادی کی جنگ لڑی۔ ان کے ایک ساتھی حافظ ضامن نے انگر یزوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کی۔ جنگ آزادی کا خاتمہ بظاہر برطانو یوں کی کامیابی کی شکل میں سامنے آیا جنہوں نے ظالمانہ طر یقے سے مجاہدین آزادی کو اپنے برتر ہتھیاروں اور تربیت یافتہ فوج سے قتل کیا۔ مجاہدین کا جذبہ آزادی بہت مضبوط تھا مگر مرکزی کمان، تربیت اور جدید ہتھیاروں میں کمی تھی۔

اٹھارہ سو ستاون کے بعد کا دور آزادی پسند قوتوں کے لئے بڑا کٹھن تھا۔ ہندوستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کر دیا گیا جبکہ سینکڑوں گرفتار ہوئے اور سر عام پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا۔ بہت بڑی تعداد میں مجاہدین آزادی کو قید میں ڈال دیا گیا یا جزائر انڈیمان بھیج دیا گیا۔ آزادی کی آرزو رکھنے والوں کے لئے یہ بہت تاریک اور حوصلہ شکن تھا۔ مزاحمتی آوازوں کو مکمل طور پر دبا دیا گیا اور تب کوئی ایسی گنجائش موجود نہ تھی کہ سیاسی جماعت بنا لی جائے یا کھل عام برطانوی راج کو للکارا جا سکے۔

اس مایوسی اور دلگیری میں، مذہبی رہنماؤں کی جماعت جو 1857 میں اکٹھی ہوئی وہ اس اتفاق پر پہنچی کے راج کے خلاف مزاحمت کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔ انہوں نے طے کیا کہ ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے اور طلباء کی نظر یاتی تربیت کی جائے کہ وہ برطانو یوں کا مقابلہ کر سکیں۔

چنانچہ جنگ آزادی کے نوں سال بعد دارالعلوم دیوبند چٹا مسجد ، دیو بند میں 1866 میں قائم کیا گیا۔ دیوبند کا قصبہ سہارنپور کے جنوب میں دہلی سے تقر یبا 90 میل دور ہے۔ حاجی عابد حسین نے لوگوں سے چندہ وصول کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا محمود الحسن دارالعلوم میں پہلے مدرس کے طور پر 15 رو پے ماہوار پر تعینات ہوئے۔ دارالعلوم کے پہلے طالب علم محمود الحسن تھے جن کو بعد میں شیخ الہند کا خطاب دیا گیا۔

پہلے سال کے اختتام تک طلباء کی تعداد 78 تک پہنچ گئی۔ پہلے صدر مدرس محمد یعقوب تھے جن کو پچیس رو پے ماہوار پر ملازمت پر رکھا گیا۔ پہلے منتظم سید عابد حسین تھے۔ دارالعلوم کے معاملات باقاعدہ چلانے کے لئے مجلس شوری قائم کی گئی۔ مولانا قاسم نانوتوی کا کردار دارالعلوم میں مرکزی ہے اور انکی دور اندیشی نے دارالعلوم دیوبند کے لئے ایک شاندار مستقبل دیکھا۔

انہی کی تجو یز پر ایک ز یادہ وسیع علاقے پر عمارت کی تعمیر کی گئی تاکہ ز یادہ طلباء کو رہائش مہیاء کی جا سکے۔ نئی عمارت کی تعمیر کا آغاز 1875 میں ہوا، چٹا مسجد سے سادہ آغاز کے نو سال کے بعد۔

دارالعلوم دیو بند کا امتیاز یہ تھا کہ یہ حکومت سے ایک ٹکہ نہ لیتے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے امیر لوگوں سے چندہ لینے سے انکار کیا۔ تاہم عام لوگوں سے چندہ لینے کی اجازت تھی۔ یہ ایک شعوری فیصلہ تھا تاکہ دارالعلوم دیوبند کی آزاد پالیسی ہو جیسا کہ یہ ایک عام مدرسہ نہ تھا اور اس نے انقلابی قوتوں کا مرکز بننا تھا۔

نصاب کو حقیقی دنیا سے جوڑنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ فلسفہ کو نصاب سے نکالنے کا شعوری فیصلہ کیا گیا تاکہ اس کو ز یادہ عملی بنایا جا سکے۔ نصاب کے علاوہ طر یقہ تدر یس نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اساتذہ دینی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ آزادی کا جذبہ بھی طلباء میں پیدا کرتے رہتے۔

گو کہ علی گڑھ اور دارالعلوم دیو بند میں واضح فرق موجود تھے مگر آپس میں احترام کا رشتہ قائم تھا۔ یہ تجو یز دی گئی کہ دارالعلوم کے طلباء علی گڑھ انگر یزی پڑھنے جائیں گے اور علی گڑھ کے طلباء دارالعلوم دیوبند عربی سیکھنے آئیں گے۔ تاہم اس پروگرام کو قائم نہ رکھا جا سکا۔

دیوبند کی تعلیمات کا فائدہ ہوا اور بہت سے فارغ التحصیل طلباء نے تحر یک آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ مولانا محمود الحسن، جو کہ وہاں کے پہلے طالب علم تھے، انہوں نے تحر یک آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ تحریک ر یشمی رومال کے خالق کے طور پر جانے جاتے ہیں جس کا مقصد مختلف ممالک کی آزادی ہند کے لئے حمایت کا اکٹھا کرنا تھا۔

مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عز یر گل کو گرفتار کیا گیا اور مالٹا بھیج دیا گیا۔ مالٹا سے آزادی کے بعد مولانا محمود الحسن نے جمیعت علماء میں شمولیت اختیار کی تاکہ آزادی کی جدو جہد کی جا سکے۔ 1926 میں جمیعت علماء نے ہندوستان کی مکمل آزادی کی بات کی۔

مولانا محمود الحسن نے اپنے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی کو بھی مشورہ دیا کہ وہ کابل چلے جائیں چنانچہ وہ وہاں سات سال مقیم رہے اور اہم لوگوں سے ملاقاتیں کیں تاکہ آزادی کے لئے حمایت اکٹھی کی جا سکے۔ ہندوستان کی ایک پروو یژنل حکومت کا خاکہ تیار کیا گیا۔

دارالعلوم دیوبند کا تجربہ اہم تھا کیونکہ اس نے 1857 کے بعد مایوس مسلمانوں کو امید دی۔ مذہبی رہنماوں نے یہ فیصلہ کیا کہ براہ راست جنگ کے لئے حالات سازگار نہیں۔ مزاحمتی طرز کو تبدیل کر دیا گیا اور دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے ان لوگوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیاء کیا جو اسالم کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔

تاہم دارالعلوم دیوبند ایک روایتی مدرسہ نہ تھا۔ اسالمی تعلیمات کے علاوہ یہ ایک ایسا فعال ادارہ تھا جو کہ اپنے طلباء میں آزادی کی محبت راسخ کرتا تھا۔ اسکے ترمیم شدہ درس نظامی کے علاوہ ، تدر یسی نقطہ نظر سے تعلیم کو سماجی و سیاسی حاالت سے جوڑا جاتا تھا۔

اس کے نتیجے کے طور پر دارالعلوم کے طلباء کو نہ صرف مذہبی موضوعات سے آگہی دی جاتی تھی بلکہ سیاسی شعور کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے اس کے فارغ التحصیل طلباء برطانوی راج سے آزادی کی جدوجہد کے تناظر میں، ہندوستان کے سیاسی منظر نامے پر چھائے رہے۔

یوں دارالعلوم دیو بند نے اجارہ داری ڈھانچوں کے خلاف مزاحمت کی داغ بیل ڈالی۔اسی حکمت عملی کو بعد میں ہندوستان کے قومی رہنماوں نے استعمال کیا اور تعلیمی اداروں کے ذر یعے برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کی۔

Adeel Moavia
About the Author: Adeel Moavia Read More Articles by Adeel Moavia: 18 Articles with 23108 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.