معمولی چور اور نامی گرامی ڈاکو میں بنیادی فرق یہ ہوتا
ہے کہ ایک ڈر کر چوری کرتا ہے اور دوسرا ڈرا کر لوٹ لیتا ہے۔انگریزوں کے
خلاف جو لوگ آزادی کی جنگ میں شریک تھے ان کے اندر ملک و قوم کی تئیں
قربانی کا جذبہ تھا ۔ اس لیے ان لوگوں سے بدعنوانی کا امکان بہت کم تھا۔
سیاسی غلامی سے آزادی حاصل کرلینے کے بعد سیاست کی دنیا میں یہ بیماری
داخل ہوگئی کیونکہ اس وقفہ میں اہل سیاست کے اندر جذبۂ خدمت کم ہورہا تھا
اور انتخاب میں کامیابی کی خاطر دولت پر انحصار بڑھتا گیا ۔ اس کے سبب
بدعنوانی بھی میں بتدریج اضافہ ہوتا چلاگیا نتیجتاً عوامی رہنما اول تو
چوری چھپے رشوت لینے لگے اور آگے چل کر اپنی جان بچانے کے لیے در پردہ قتل
و غارتگری بھی ملوث ہوتے چلے گئے ۔ اس کے باوجود ملک میں جمہوری اقدار
مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہیں اور ساری دنیا نے اس حقیقت کا اعتراف کرلیا کہ
اگر چہ امریکہ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت ہے لیکن ہندوستان کو وسیع ترین
جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا ۔
یہ جمہوریت کا ابتدائی زمانہ تھا جب وہ گھٹنوں کے بل رینگ رہی تھی ۔ عنفوانِ
شباب پر پہنچ کر جمہوری نظامِ سیاست خوب طاقتور اور بے خوف ہوگیا ۔ سوئے
اتفاق سے وطن عزیز میں ہوش سنبھالنے کے بعد اس نے دھرم پریورتن کرلیا ۔ اب
وہ الحاد کی گاندھی ٹوپی کے بجائے کے بجائے ہندوتوا کا تلک لگا کر وارد
ہوتا ہے ۔ گھوڑے پر سوار ہوکر بستی میں داخل ہونے کے بعد ڈاکووں کی مانند
پہلے ہوائی فائر کرکے بستی والوں کو خوفزدہ کرتا ہے ۔ اس کے بعد ڈنکے کی
چوٹ پر مال و اسباب اور عزت و آبرو لوٹ کر لے جاتا ہے۔فی زمانہ ملک میں
علی الاعلان رائے دہندگان کی لوٹ مار کا کاروبار زور و شور سے جاری و ساری
ہے ۔ اپنے مخالفین کو قابو میں کرنے کے لیے خوف دہشت پھیلانا عصر حاضر کا
سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ بدقسمتی سے اس وبا کے جراثیم سیاست سے نکل کراب عدالت
کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں ۔ ہماری عدالتیں جو ایک زمانے تک بہت حد تک آزاد
ہوا کرتی تھیں اب حلقہ بگوش سرکار ہوگئی ہیں ۔ حکومت کا آلۂ کار بن کر اس
نے بھی ڈرانا دھمکا نہ شروع کردیا ہے لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ڈرکا
کاروبار ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس میں ڈرانے والا جب ناکام ہوتا ہے تو خود
ڈر جاتا ہے۔ اس کا ایک نمونہ پرشانت بھوش کے معاملے میں سامنے آیا۔
اس بابت سپریم کورٹ کے سرکردہ وکیل اور معروف سماجی کارکن سنجے ہیگڑے نے
عدلیہ پر حکومتی دباؤ کے بارے میں کہا کہ ، ''میں کئی برس پہلے ہی یہ بات
لکھ چکا ہوں، کہ جس دن ملک میں اکثریت والی حکومت آجائے گی تو عدالتیں بھی
اسکی تقلید میں ان کے موافق ہوجائیں گی۔ تو جیسے جیسے اکثریت بڑھتی گئی
ماحول بھی اکثریت کی طرف بدلتا گیا اور آج عدالت اسی کی عکاس ہے۔’’انہوں نے
یہ بھی مانا کہ آئین تو تحریر شدہ ہے، ''تاہم آئین کی تشریح ماحول کے حساب
سے بدل دی جاتی ہے‘‘۔سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد کے مطابق پرشانت
بھوشن کے ٹویٹ پر توہین عدالت کا کیس ہی نہیں بنتا کجا کہ انہیں قصوروار
ٹھہرایا جائے۔ انہوں نے یہ بات برملا تسلیم کی کہ چند برس قبل تک ’’جس طرح
انسانی حقوق، حکومتی نظام اور لنچنگ جیسے معاملات پر عدالتیں موثر رد عمل
ظاہر کیا کرتی تھیں اب ویسا نہیں ہے۔''عدالت عظمی کے ایک اور معروف وکیل
محمود پراچہ کابھی خیال ہے کہ اس وقت ملک کی عدالتیں حکومت کے دباؤ میں کام
کر رہی ہیں۔
ملک کے اندر یہ خیال عام تھا کہ کسی جج پر تنقیدکرنا نظامِ عدالت کی توہین
نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ عدالتی نظام کی خامیوںپر انگشت نمائی بھی کوئی نئی
بات نہیں ہے ۔۴۰ سالوں تک سپریم کورٹ کے جج سمیت مختلف اہم عہدوں پر خدمات
انجام دینے والے معروف جسٹس دیپک گپتا نے اس سال ۶ مئی کو اپنی 'ورچوول‘
الوداعی تقریبمیں ملک کے عدالتی نظام کی خامیوںکا برملا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھابھارت کا قانون اور عدالتی نظام دولت مند اور طاقتور لوگوں
کی مٹھی میں قید ہے۔ کوئی امیر او رطاقتور شخص اگر سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے
تو کسی نہ کسی طرح سے اپنے کیس کی تیزی سے سماعت کا حکم حاصل کرواہی لیتا
ہے اور اگر وہ ضمانت پر ہوتا ہے تو سماعت کو ٹالتا رہتا ہے۔ جسٹس گپتا کا
کہنا تھا کہ اس کا خمیازہ غریب مدعاعلیہ کو اٹھانا پڑتا ہےجس کے پاسعدالت
پر دباو ڈالنے کے لیے وسائل نہیں ہوتے۔ اس کے مقدمے کی سماعت ٹلتی چلی جاتی
ہے۔ امیر اورغریب کی اس لڑائی میں عدالت کے میزان کا جھکاؤ اگرمحروموں کی
جانب ہو تبھی انصاف کے پلڑے برابر ہوسکیں گے۔جسٹس گپتا نے تو آئین اور
شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے اپنے عہد کو خوب نبھایا اور کسی جانبداری
اور کسی خوف کے بغیر انصاف کیا نیز جاتے جاتے اس کو لاحق خطرات سے آگاہ
کرکے چلے گئے ۔ ایسے لوگ اب داستانِ پارینہ بنتے جارہے ہیں اور ان بدلے
ہوئے حالات پر بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
جسٹس گپتا نے کہا تھا کہ عدالت سے انصاف طلب کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
ان کی تائید میں نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر فیضان مصطفی کا کہنا
ہے کہ یہ سوال بہر حال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ جسٹس گپتا جیسے ججوں کی
باتوں کے بعد بھارت کے عدالتی نظام میں کوئی تبدیلی آتی ہے یا نہیں؟ انہوں
نے مشورہ دیا کہ اس طرح کی باتیںاگر جج اپنے فیصلوں میں درج کریںتو وہ
باضابطہ ریکارڈ پر آسکیں گی ۔ پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے اس کی مثال دیتے
ہوئے کہا کہ مہاجر مزدوروں کے لیے راحت کا مطالبہ کرنے والی عرضی 15 اپریل
کو دائر کی گئیمگر پہلی سماعت 27 اپریل سے پہلے نہیں ہوسکی (جبکہ لاکھوں
لوگ سڑک پر تھے ۔ عدالت آنکھ موند کر یہ مرکزی حکومت کے اس موقف پر ایمان
لے آئی کہ کوئی بھی سڑک پر نہیں ہے) ۔ اس کے برعکس ارنب گوسوامی کی عرضی
رات آٹھ بج کر سات منٹ پر دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے اس پر اگلے ہی روز
صبح ساڑھے دس بجے سماعت کرنے کا وقت دے دیا گیا ۔عدالت کا فیصلہ بھی حسبِ
توقع ارنب کے حق میں آیا ۔ انصاف کا میزان اگر ایک جانب جھک جائے تواس سے
عدل کی توقع بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے۔
عدالت کے رویہ سے سماج میں زعفرانی عناصر کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔ اس طرح
عدم برداشت اور ڈرانے دھمکانے کا یہ کھیل ملک کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے
۔ اس کی ایک مثال حال میں آسام کے دور دراز علاقہ میں سامنے آئی ۔10 اگست
کو وہاں پولیس نے آسام یونیورسٹی، سلچر میں انگریزی کے اسسٹنٹ
پروفیسرآنندیا سین کے خلاف دفعہ 294 (فحش الفاظ یا غلط عوامی الفاظ)، 295
اے (مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کی دانستہ اور بدنیتی پر مبنی کارروائی) اور
501 کے تحت مقدمہ درج کرلیا ۔آرایس ایس کی طلبا تنظیم اکھل بھارتیہ
ودیارتھی پریشد کے رکن روہت چندا نے شکایت کی تھی کہ آنندیا سین کی ایف بی
پوسٹ نے اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ 5اگست کو ایودھیا کے رام
مندر کی سنگ بنیادکی تقریب کے دن سین نے فیس بک پر ایک مختصر خیالی گفتگو
پوسٹ کی تھی جوشکایت کنندہ چندا کے مطابق رام کی توہینہے۔تاہم سینکا کہنا
ہےکہ ’’رامائن کے بہت سے ورژن ہیں۔ان میں رام پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ میں
تنقید کی نشان دہی کرنے والا پہلا شخص نہیں ہوں۔ یہ کام پہلے بھی ہوچکا
ہے‘‘۔
پروفیسر صاحب کی منطق درست ہے لیکن ایسا اس وقت ہوتا تھا کہ جب حکومت میں
قوتِ برداشت کا مادہ تھا اور عدالت انصاف کیا کرتی تھی ۔ اب چونکہ عدالتوں
کی جانب سے بھی اس طرح کی عدم برداشت کی تائید بلکہ مظاہرہ ہورہا ہے اس لیے
یہ منفی رحجان تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ صحت مند نظام ِ حکومت کے اندر عدلیہ
اور مقننہ کے درمیان توازن و اعتدال لازمی ہے۔ عدالت اگر کسی قانون کے نفاذ
میں ناکام ہوتی ہے تو مقننہ قانون میں تبدیلی کرکے اس کی وضاحت کرتا ہے ۔
اسی طرح اگر حکومت کی جانب سے عوام کے حقوق پر شب خون مارا جائے تو عدالت
مداخلت کرکے اس پر قدغن لگاتی ہے ۔ اس لیے ان دونوں اہم ترین اداروں کا
آزاد اور خودمختار ہونا بہت ضروری ہے ۔ یہ ادارے اگر درپردہ یا کھلم کھلا
ایک دوسرے کے ہمنوا بن جائیں تو ایسا ناپاک گٹھ جوڑ عوام کے لیے مشکلات کا
سبب بنتا ہے اور فی الحال وطن عزیز میں یہی آثار دکھائی دے رہے ہیں ۔
حکومت کے عیب و ہنر دیکھنا عدالت کی ذمہ داری ہے لیکن اگر وہ سرکار کی
باجگذار بن جائے تو منظر بھوپالی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں
یہ تو کہیے آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون
|