کسی بھی قائد کی سب سے بڑی خوبی اور سب سے بڑا وصف
بلکہ اس کی قیادت کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ مردہ سے مردہ قوم میں روح پھونک
کر انہیں نئے عزم اور ولولے سے ہمکنار کرکے انہیں قوموں کی برادری میں
نمایاں مقام پر لاکھڑا کرتا ہے ۔اس خوبی ،اس کے وصف اور اس کمال کا تاریخ
یوں اعتراف کرتی ہے کہ اسے اپنے اوراق میں ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید
بنادیتی ہے ۔ایسا شخص ہمیشہ قوم کے حافظے میں زندہ و تابندہ رہتا ہے ۔جنرل
محمد ضیاء الحق کا شمار بھی ایسے ہی اسلام کے عظیم سپہ سالاروں میں ہوتا ہے
جن کا ذکر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں بڑے احترام سے لیاجاتا ہے ۔
مخالفین انہیں ایک آمر اور جمہوریت کے قاتل کی حیثیت سے جانتے ہیں لیکن صرف
میرے ہی نہیں کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں آج بھی ضیاء الحق پہلے کی طرح
کی زندہ و تابندہ ہیں۔جب ضیاء الحق برسراقتدار آئے تو اس وقت سوائے پیپلز
پارٹی کے باقی تمام جماعتیں ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخ ساز دھاندلی کے
خلاف سراپا احتجاج تھیں ۔نہ صر ف بھٹو کی بنائی ہوئی نیم فوجی تنظیم ایف
ایس ایف عوامی جلسے ، جلسوں پر براہ راست فائرنگ کرکے سینکڑوں پاکستانیوں
کو خون میں نہلا رہی تھیں بلکہ جیالے اور بازار حسن کی نتھ فورس نے قتل و
غارت کا الگ بازار گرم کررکھا تھا ۔یہ وہ حالات تھے، جب پیپلز پارٹی کے
سرکردہ اور بانی افراد بھی بھٹو کے ظلم و ستم کا شکار تھے ۔
ممتاز محقق اور سابق بیورو کریٹ ڈاکٹر صفدر محمود کا ایک کالم جو 2دسمبر
2012ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں - :یہ اسلام
آباد میں 1976ء کے دسمبر کی ایک سرد شام تھی ۔ ان دنوں اسلام آباد میں اس
قدر سردی پڑتی تھی کہ صبح سویرے ہی گھروں کے لان ،چھت اور گلیوں کے درخت
سفید کہر میں ملبوس نظر آتے تھے۔میں ان دنوں ایک خفیہ محکمے میں تعینات تھا
۔میرے شعبے کا کام تحقیق کرنا، تجزیات تیارکرنا،اور خاص طور پر چند ہمسایہ
ممالک کے ان رجحانات کا مطالعہ کرنا تھا۔جن کے اثرات پاکستان پر پڑ سکتے
تھے۔چنانچہ ہمارا روزمرہ کی سیاست سے تعلق تھا اور نہ ہی داخلی صورت حال سے
۔البتہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہمیں ہر شے کا علم ہے ۔اسی ظاہری تاثر کے تحت ایک
روز اس وقت کے ایک اہم وفاقی وزیرمولانا کوثر نیازی نے مجھے فون کیا اور
شام کی چائے کی دعوت دی ۔ مولاناان دنوں وزارت مذہبی امور کے انچارج وزیر
تھے۔انہیں ایک سازش کے ذریعے وزارت اطلاعات سے رخصت کیا جا چکا تھا ۔میں جب
شام کو مولانا کے گھر پہنچا تو دسمبر کی ٹھنڈی ٹھار شام کے باوجود لان کے
ایک کونے میں ٹرالی پر گرم چائے رکھے، میرے منتظر تھے ،اس روداد کو آپ
1977ء کے انتخابات کے پس منظر میں دیکھیں ۔جن کا فی الحال اعلان نہیں ہوا
تھا۔چائے کا دور چلاتو سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا کوثر نیازی
نے اچانک مجھ پر سوالات کی بارش کردی ۔کہنے لگے ڈاکٹر صاحب آپ کے علم میں
ہے کہ میں کچھ عرصہ سے بھٹو کے زیر عتاب ہوں ؟ ایف آئی اے میرے خلاف خفیہ
مواد اکٹھا کررہی ہے ۔خفیہ محکموں نے میرے خلاف فائلیں کھول رکھی ہیں ،
مجھے پتہ چلا ہے ان فائلوں میں کچھ قابل اعتراض تصویریں بھی بنا کر رکھ لی
گئی ہیں ۔؟سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے چائے کا گھونٹ پیتے ہوئے جواب دیا
میں نے فائلیں تو نہیں دیکھیں لیکن میرا یہ تاثر ضرور ہے کہ آپ کا پیچھا
کیا جارہا ہے ۔مولانا کوثر نیاز ی مسکرائے اور یہ مسکراہٹ میرے محتاط انداز
پر طنز تھی ۔مطلب یہ تھا کہ مجھ سے چھپاتے ہو حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مجھے
خفیہ کہانیوں کا سرے سے علم نہیں تھا۔خفیہ محکموں میں عام طور پر دائیں
ہاتھ کو علم نہیں ہوتا کہ بایاں ہاتھ کیا کررہا ہے۔مولانا نے انداز بدلا
اورکہا ڈاکٹر صاحب آپ کو پتہ ہے ،حفیظ پیرزادہ(وزیر) اور ممتاز بھٹو (وزیر)
چند ہفتوں سے اپنے اپنے دفتر نہیں جارہے اور گھروں تک محدود ہیں ۔میں نے
جواب دیا جی ہاں مجھے علم ہے ۔مولانا کے چہرے پر نظر پڑی تو مجھے یوں لگا
جیسے وہ گہری سوچ ،اداسی،کرب، اور اندیشہ ہائے دور دراز میں ڈوبے ہوئے ہیں
۔مولانا پھر بولے ۔ ڈاکٹر صاحب ایسا کیوں ہے ؟ ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں
ہورہا ہے؟میں نے جواب دیا مجھے وزیراعظم کی سوچ کا ہرگز علم نہیں۔مولانا
کوثر نیازی اﷲ کو پیارے ہوچکے ہیں ،بھٹو کا معاملہ خالق حقیقی کے سپرد ہو
چکا ہے ؟کبھی بھٹو صاحب کا ڈنکا بجتا تھا لوگ ان سے خوفزدہ اور سہمے سہمے
رہتے تھے۔خود مولانا کوثر نیاز ی نے مجھے شدید سردی کے باوجود چائے اس لیے
لان میں پلائی کہ انہیں خطرہ تھا کہ شاید ان کے گھر کے اندر ریکارڈنگ کے
خفیہ آلات نصب ہوں گے۔حالانکہ میرے خیال میں ایسی کوئی بات نہ تھی، یہ محض
ان کا خوف تھا اور خوف زندگی میں بڑا رول سرانجام دیتا ہے ،رویے ،ترتیب
دیتا اور خوفناک فیصلے کرواتا ہے ۔جس رات جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء
لگایا ،اسی صبح راولپنڈی کے ایک اخبار میں گرفتاری سے تھوڑی دیر قبل دیاگیا
مولانا کوثر نیازی کا ایک بیان چھپا "بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے "۔
ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں، مارشل لاء کے سائے میں، میں نے صبح سویرے یہ
بیان پڑھا تو فوجی مداخلت کے دکھ کے باوجود یادوں کے کئی چراغ جلنے لگے ،میں
نام گنوا کر زخم تازہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اتنا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ
جس رات بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی ،اسی رات پی پی پی کے وہ تمام لیڈر ان
جنہیں خوف کے تجربات ہوچکے تھے ،بے غم لمبی تان کر سوتے رہے کیونکہ خوف ،سرد
مہری اور بغاوت پیداکرتا ہے جبکہ محبت، وفاداری اور قلبی تعلق کو جنم دیتا
ہے ۔
اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہو گا کہ بھٹو اقتدار کے نشے میں اس قدر بہک گئے
تھے کہ اپنوں اور بیگانوں کو مشق ستم بنانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں
چھوڑی ۔جے اے رحیم ،احمد رضا قصوری ،افتخار تاری،محمد حنیف رامے ،مولانا
کوثر نیازی کا تعلق پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا تھا لیکن ان کے
ساتھ بھٹو نے جو توہین آمیز سلوک روا رکھا اس کے لیے ممتاز صحافی جناب
الطاف حسن قریشی کی کتاب "بھٹو کا عہد ستم"دیکھی جا سکتی ہے ۔جس میں درد و
الم کی تمام کہانیاں موجود ہیں جنہوں نے بھٹو کے ظلم سہے اور سہتے ہی چلے
گئے ۔پھر اپوزیشن رہنماؤں میں مولانا مودودی ،میاں طفیل محمد، مفتی محمود ،مولانا
احمد شاہ نورانی ،ملک قاسم کے ساتھ بھٹو نے جو کچھ کیااس کا ذکر الفاظ میں
نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل جہاں زیب ارباب (کورکمانڈرکراچی) کا ایک انٹرویو ہفت روزہ زندگی لاہور
کی اشاعت میں 9 تا 15نومبر 1991ء میں شائع ہوا ۔ اس انٹرویو میں جنرل صاحب،
مسٹر بھٹو سے تمام جرنیلوں اور کورکمانڈر وں کی ملاقات کا احوال کچھ اس طرح
بیان کرتے ہیں -:یہ جون 1977ء کا ذکر ہے کہ فوج کے چیف ، تمام کورکمانڈر،
چیف آف جنرل سٹاف وغیرہ کو ایوان وزیراعظم میں طلب کیا گیا جہاں کابینہ کے
تمام ارکان ، سندھ اور سرحد کے وزیراعلی بھی موجود تھے ۔دوران گفتگو بھٹو
مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا کراچی کی صورت حال بہتر نہیں ہے ۔میں نے جواب
دیا ہم کوشش کررہے ہیں لیکن حالات بہت خراب ہیں ۔ابھی گفتگو ہو رہی تھی کہ
جنرل (ر) ٹکا خان درمیان میں بولے، اگر ملک کی خاطر تیس چالیس ہزار آدمی
مار دیئے جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔اس پر میں نے کہا ٹکا خان تم خاموش
رہو ، تمہارا اب فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔تم ہمیں مشورہ دینے والے کون
ہوتے ہو۔ تم بھٹو کے مشیر ہو ، فوج کے نہیں ۔پھرشیخ رشید (جو اس وقت وزیر
صحت تھے ) کہنے لگے کہ چین میں ثقافتی انقلاب کے دوران دس لاکھ افرادکو
ماردیا گیا تھا ،پھر سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔آج آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ
یہ آپ کا تاریخی کارنامہ ہوگا ،ملک ترقی کرے گا،ان کا اتنا کہنا تھا کہ
جنرل اقبال خان نے گرج کر کہا You Bloody go and kill. We will not kill
people.یہ بھٹو اور ان کے مشیروں ، وزیروں کی عوام الناس کے بارے میں رائے
تھی اگر بروقت مارشل لاء نافذ نہ کیا جاتا تونہ جانے کتنے لاکھ محب وطن
پاکستانیوں کو اپنی ہی فوج اور سیکورٹی فورس کے ہاتھ شہید کردیا جاتا۔سانحہ
مشرقی پاکستان کے بعد ایک بار پھر ملک بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو کر اپنی
وجود کھو بیٹھتا ۔
آپریشن فیئر پلے کی کہانی ، جنرل محمدضیا الحق کی زبانی سنیئے۔21اپریل
1977ء کے بعد تین بڑے شہروں میں مارشل لا ء لگا دیا گیا ۔مئی کے پہلے ہفتے
میں انارکلی لاہور میں گولی چلی تو حالات نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ۔تین
بریگیڈئر بہت مضطرب تھے انہوں نے مجھ سے کہا ہمیں یہاں سے تبدیل کردیں ،ان
کی خواہش کا احترام کیا گیا؟میرے لیے سب سے اہم اور نازک مسئلہ فوج کے اند
ر مکمل نظم و ضبط برقرار رکھنا تھا ۔ جون کے آخری دنوں میں بھٹو نے فوجی
جرنیلوں کو بھی کابینہ کے اجلاس میں بلانا شروع کردیا۔ایک رات مسٹر کھر اور
مسٹر پیرزادہ نے کہا کہ اپوزیشن شرارت سے باز نہیں آتی ؟ اس کے لیڈر فتنے
اٹھا رہے ہیں ، ہم ان سب کو قتل کردیں گے ۔ٹکا خان کے لب لہجہ میں اور بھی
تیزی تھی ان کا ارشاد تھا کہ دس بیس ہزار افراد پاکستان کی خاطر اگر قتل
کرنے پڑیں تو کو ئی بات نہیں ۔مسٹر بھٹو بار بار کہتے جنرل صاحب دیکھا آپ
نے میری کابینہ کا موڈ۔میں ان حالات میں اپنے وزیروں کا ساتھ دینے کے سوا
اور کیا کرسکتا ہوں۔ایک رات کابینہ میٹنگ ہوئی ۔ بھٹو صاحب خاصے پریشان تھے
۔دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد بولے آیئے جنرل صاحب آپ بھی اقتدار میں شامل
ہوجائیں ۔زیادہ اختیارات آپ ہی کے پاس ہوں گے ۔ بس ایک بار اپوزیشن کو چھٹی
کا دودھ یاد آجائے۔اس نوعیت کی بات ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھیں ۔یکم
جولائی کو یہی تماشا رات کو ڈیڑھ بجے تک ہوتا رہا۔2جولائی کو بھی اس ڈرامے
کی ریہرسل کی گئی ۔3جولائی کی رات میرے اعصاب نے حقیقی خطرہ بھانپ لیا
۔چنانچہ بڑے اقدام کا میں جائزہ لینے لگا۔بھٹو حکومت کی ذہنی کیفیت میرے
سامنے تھی ۔اب صرف اپوزیشن کے نقطہ نظر کا انتظا رتھا۔4جولائی کی رات
نوابزادہ نصراﷲ خاں نے پریس کانفرنس کی جس کی رپورٹ حاصل کر لی گئی۔ ان کا
ردعمل وہی تھا جس کی مجھے توقع تھی ۔چنانچہ ساڑھے پانچ بجے کے قریب میں نے
رالپنڈی سے باہر احکام جاری کردیئے تھے کہ رات بارہ بجے نقطہ آغاز ہوگا۔
ایک ایک لمحہ جسم کے اندر کانٹے کی طرح پیوست ہورہاتھا ۔لاکھوں وسوسے ،
ہزاروں خدشات جنم لے رہے تھے ، یہ بھی اندیشہ تھا کہ ہمارے منصوبہ کا اگر
کسی کو علم ہو گیا تو کچھ بھی ہوسکتاہے ۔یہ راز صرف چند افراد تک محدود تھا
اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عجب طرح کا خطرہ منڈلانے لگا ۔خیال کی ایک لہر
اٹھی کہ ضیاء تم کہیں غلطی تو نہیں کر رہے ؟ کیا تم ملک کو مارشل لا ء سے
بحفاظت گزار سکوگے ؟میں نے وضوکیا اور خشوع خضوع کے ساتھ نماز ادا کی ۔نماز
میں ایک ایسی لذت نصیب ہوئی جو پہلے کبھی میسر نہ تھی ۔کابینہ کا اجلاس
ملتوی ہونے کے بعد میں نے کور کمانڈر راولپنڈی کو احکامات جاری کردیے ۔رات
بارہ بجے میں جی ایچ کیو پہنچ گیا تاکہ آپریشن کی نگرانی کرسکوں ۔اس رات
ممتاز بھٹو بہت دیر تک پرائم منسٹر ہاؤس میں رہے ۔ گھر گئے تو فوج کی
پراسرار نقل و حرکت دیکھی ۔ادھر وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری میجر جنرل
امتیاز نے فوجی دستوں کو غیرمعمولی سرگرم پایا تو اس نے مجھ سے رابطہ کیا
۔میں نے بتا دیا کہ یہ سب کچھ میرے حکم سے ہو رہا ہے اور تم ہدایت لینے کے
لیے میرے پاس چلے آؤ۔اتنے میں ممتاز بھٹو گرین لائن پر مسٹر بھٹو سے رابطہ
قائم کرچکے تھے ۔وزیراعظم بھٹو نے مجھ سے بات کی ۔ میں نے کہا سر اس کے سوا
کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں ؟دوسری صورت میں ہمیں
طاقت استعمال کرنی پڑے گی۔نہیں نہیں ۔ یہ نوبت نہیں آئے گی ، بھٹو نے
پرسکون لہجے میں کہا ۔آپ میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں ؟ بس آپ کو
حراست میں لیں گے صبح تک چک لالہ رکھیں گے پھر مری لے جائیں گے ۔ بھٹو نے
کہا میرے بچے آج ہی رات آئے ہیں میں تو اچھی طرح ان سے مل بھی نہیں سکا ؟
میں نے کہا آپ آرام سے یہ رات پرائم منسٹر ہاوس میں گزاریئے ؟ اگلے روز مری
جانے کے لیے تیار ہوجایئے ۔ ہاں ہاں شکریہ ۔ ٹیلی فون بند ہو گیا اور تاریخ
کا ایک باب بھی ۔(اقتباس اردو ڈائجسٹ ستمبر 1977)
بہرکیف جنرل ضیاء الحق نے جب اقتدار سنبھالا توانہیں تین مختلف چیلنجوں کا
سامنا تھا۔ بھٹو کے وفادار جیالے بدلہ لینے کے لیے تخریب کاریوں میں مصروف
عمل تھے ، دوسری جانب سوویت یونین (جسے اس وقت سفید ریچھ کہاجاتاتھا) نے
بحیرہ عرب کے گرم سمند ر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے افغانستان پر فوجی
یلغار کردی تھی۔اس کے دماغ میں یہ فتورخاصا مستحکم تھا کہ پاکستان ، سوویت
یونین کی فوجی طاقت کے سامنے چند گھنٹے بھی کھڑا نہیں ہوسکتا ۔جنرل ضیاء
الحق کے لیے تیسری پریشانی یہ تھی کہ بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں پر حملہ
کرنے کے لیے اشارے کی منتظر تھی ۔ جبکہ چند ضمیرفروش سیاست دان روسی ٹینکوں
کا استقبال کرنے کے لیے بے چین تھے ، یہ وہ لمحات تھے جوجنرل محمد ضیاء
الحق اور پاکستانی فوج کا امتحان ثابت ہورہے تھے ۔بے شک قیادت کا امتحان
ایسے ہی مشکل ترین حالات میں ہوتا ہے ۔مختصر بتاتا چلوں کہ ایوان صدر میں
سوویت یونین کا سفیر ملنے آیا اس نے ضیاء الحق کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا
آپ ہمارے راستے کی دیوار نہ بنیں ،ورنہ ہم آپ کو یہاں بیٹھے بٹھائے راکھ کا
ڈھیر بناسکتے ہیں ۔ضیاء الحق خاموشی سے سنتے رہے جب سفیر کو الوداع کہنے کے
لیے دروازے تک آئے تو انہوں نے کہا مسٹر ایمیسیڈرمیں یہی بیٹھا ہوں تم اپنے
میزائل چلاؤ۔پھر اس عظمت و استقلال کے پیکر اس سپہ سالار نے پاکستان کے بقا
ء کی جنگ افغانستان میں لڑنے کا نہ ِصرف مشکل ترین فیصلہ کیا بلکہ اپنی
بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں سوویت یونین کی حکومت اور فوج کو چاروں شانے
چت کردیا ۔پھروہ لمحہ بھی آپہنچا جب سوویت فوجیں افغانستان سے بحفاظت نکلنے
کے لیے منتیں کررہی تھیں۔ اس شکست کے نتیجے میں چھ آزاد اسلامی ریاستیں
وجود میں آئیں ۔ انہی ایام میں بھارت، پیپلز پارٹی اور جی ایم سید کی حمایت
سے صوبہ سندھ کو پاکستان سے الگ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا تھا، اس نازک
موقع پر ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے تمام
منصوبوں اور چالوں کو ناکام بنادیا ۔بھٹو دور میں شراب اور زنا کا ہر طرف
دور دورہ تھا ضیا ء الحق نے ان خرافات کو ختم کرکے ہر سطح پر اسلامی روایات
کو فروغ دیا۔میں اسے طارق بن زیاد لکھوں یا سلطان صلاح الدین ایوبی ۔مجھے
تو ان دونوں عظیم مسلم ہیروز کی خوبیاں ضیا ء الحق میں دکھائی دیتی ہیں
۔مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب خانہ کعبہ میں نماز عشا ء کے صفیں بندھ چکی
تھیں،تکبیرپڑھی جا چکی تھی ، اچانک امام کعبہ پیچھے ہٹے اور یہ کہتے ہوئے
ضیاء الحق کو امامت کے مصلے پر کھڑا کردیا ،کہ آپ ہی امت مسلمہ کے حقیقی
امام ہیں ۔جب ضیاء الحق نے امامت کے مصلے پر کھڑے ہوکر قرآن پاک کی تلاوت
شروع کی تو فرط جذبات سے آپ کی آواز رند گئی۔ہچکیاں بندھ گئیں ،آنکھوں سے
مسلسل آنسو بہہ رہے تھے،یہ وہی ضیاء الحق ہے جن کو بطورخاص روضہ رسول ﷺ کے
اندر لیجایا گیاوہاں راز و نیاز کی کیا باتیں ہوئیں اسکا تو علم نہیں لیکن
ضیاء الحق جدہ پہنچنے تک مسلسل آنسو بہارہے تھے۔یہ وہی ضیاء الحق ہے جن کو
قتل کرنے کے لیے کتنی ہی سازشیں تیارہوئیں اور ناکامی سے ہمکنار ہوئیں
۔بیشک جو بھی شخص دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ بھی
چکھنا ہے ، لیکن وہ لوگ عظیم اور جنتی ہوتے ہیں جن کو اﷲ تعالی شہادت کی
موت عطا کرتا ہے ۔17اگست1988ء کو تین بج کرپچاس منٹ پر دریائے ستلج کے
کنارے بستی لال کمال کے قریب جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے ساتھیوں سمیت جام
شہادت نوش کیا۔گیارہ سال تک صدر پاکستان کے منصب پر فائزرہنے والے شخص کے
نام پر نہ تو فرانس میں سینکڑوں ایکڑ کا "سرے محل " نکلا، نہ لندن کے مہنگے
علاقے میں قیمتی فلیٹ نظر آیا اور نہ تین سو کینال کا بنی گالہ کہیں دکھائی
دیا ۔شہید کی جیب سے قرآن پاک ملا جس کی وہ اکثر تلاوت کیا کرتاتھا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل محمد ضیا ء الحق دونوں اپنے رب کے حضور پیش
ہوچکے ہیں کون جنتی ہے اور کون دوزخی اس کا فیصلہ خالق کائنات کرچکے ہوں گے
۔لیکن اس بات سے یقینا آپ بھی اتفاق کریں گے کہ یہ دونوں افراد پاکستان کی
تاریخ کے اہم باب ضرور ہیں ۔جن کے ذکرکے بغیرپاکستان کی سیاسی تاریخ مکمل
نہیں ہوسکتی ۔
**********
|