تحریک انصاف نے اقتدار کے دو برس مکمل کرلئے۔ وزرا ء نے
ان دو برسوں کو مشکل اور صبر آزما قرار دیا۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے ملکی
ترقی کیلئے حکومتی منصوبہ بندی سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اب وزیراعظم
کریز پر سیٹل ہو چکے ہیں، لمبی اننگز کھیلیں گے‘۔پی ٹی آئی نے اقتدار کے
لئے چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی حکومت بنائی، جس کے بارے
میں گمان تھا کہ اتحادیوں کے مطالبات پورے کرنے کیلئے فیصلہ کرنا ہوگا کہ
اگر حکومت میں رہنا ہے تو وہ سب کچھ کرنا ہوگا ، جو اتحادی چاہتے ہیں ، اگر
ایسا نہیں کیا گیا تو اتحادی جماعتیں’ قومی مفاد ‘کے خاطر اقتدار سے الگ
ہوجائیں گی اور پی ٹی آئی کے لئے پنجاب و وفاق میں حکومت میں رہنا ناممکن
ہوجائے گا ، لیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکومت کو کسی اتحادی سے خطرات نہیں،
گو اتحادی جماعتوں کو کئی تحفظات ہیں ۔
کئی بار سیاسی پنڈتوں نے پیش گوئیاں بھی کیں کہ فلاں اتحادی جماعت کے ناراض
ہونے کے بعد نمبر گیم تبدیل ہوجائے گا ، لیکن ایوانوں میں کسی بل کی منظوری
کا مرحلے پر حیرت انگیز طور پر نمبرز بڑھ جاتے ہیں، یہ بڑا گنجلگ معاملہ ہے
جو سمجھنے کے باوجود سمجھ میں نہیں آرہا ۔ اسد عمر نے تین ناکامیوں کا
اعترافکیاکہ ان کی حکومت سے دو برسوں میں تین بڑی غلطیاں ہوئیں ، پہلی ،
میڈیا کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے، دوئم، احتساب کا بیانیہ درست طریقے سے
عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکا۔سوئم ،اشیا خورد نوش میں گرانی کو کنٹرول
نہ کرسکے۔ تین بڑی غلطیاں کا اعتراف وفاقی وزیر کی جانب سے ہے، حکومت کی
طرف سے نہیں، تاہم حزب اختلاف حکومتی ناکامیوں کی اتنی طویلفہرست دوہراتی
ہے کہ ایک کالم میں اس کا اجمالی تذکرہ کرنا ممکن نہیں۔ بہرحال حزب
اختلافات کا کام ہی تنقید کرنا ہے ، اس لئے ہم اپوزیشن کی جانب سے ناکامیوں
کی تفصیلات کو موضوع بحث بنانے کے بجائے حکومت کی کامیابیوں پر نظر دوڑا
لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے ان دو برسوں میں ایسی کیا کامیابیاں حاصل کیں ہیں
جن کو حزب اختلاف بھی تسلیم کرے۔
بادی ٔالنظر سب سے بڑی کامیابی یہ نظر آتی ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف حزب
اختلاف کی جماعتوں میں آج تک اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا ، انتخابات چرانے
کے الزامات سے لے کر حکومتی پالیسیوں پر حزب اختلاف، اکھٹے ہوکر رریاست کو
ٹف ٹائم نہیں دے سکی ، یہ کسی بھی ایسی حکومت کے لئے سب سے بڑی کامیابی
قرار دی جاسکتی ہے جس کا تخت اقتدار صرف چند سیٹوں پر قائم ہو اور اگر
تھوڑی ’’ محنت ‘‘ کی جاتی تو پی ٹی آئی کا اقتدار میں رہنا توناممکن ہوتا ،
کیونکہ پی ٹی آئی میں خود ایسی گروہ بندیاں ہیں جس کے پیچ و خم کھولناخود
کو اقتدار سے محروم کرنے کی کوشش ہی قرار دی جا سکتی ہے ، اس کی واضح مثال
بھی سامنے آچکی ہے، جس میں عثمان بزدار کو وزرات اعلیٰ پنجاب سے ہٹانے میں
بدترین ناکامی کا سامنا ہے ۔ وزیراعظم ایک انٹرویو میں خود اعتراف کرچکے کہ
بزدار پر شراب لائسنس پر نیب طلبی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ سیاسی پنڈت اور
غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس طرح ایک غیر محسوس پیغام دیا
جارہا ہے کہ اگر تبدیلی کے اس مرحلے پر’ کسی نے بھی‘ پنجاب یا وفاقی حکومت
میں گڑ بڑ کی کوشش کی تو اس کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوسکتے ، ویسے بھی
وزراعظم کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی تمام کشتیاں جلا چکے ہیں۔
حکومت کی دوسری سب سے بڑی کامیابی ، ریاست کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا
ہے۔معاشی طور پر مملکت بیرونی و اندرونی قرضوں کے پہاڑ تلے دبی ہوئی تھی ،
گو کہ موجودہ حکومت میں ڈالر نے تاریخی اڑان بھری ، اور قرضوں کی مالیت
ہمالیہ برابر ہوگئی تاہم اس کے باوجود ابتدائی مہینوں میں ڈیفالٹ سے بچانے
کے لئے چین ، سعودیہ ، اور متحدہ عرب امارات نے ریاست کا ساتھ دیا اور
زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لئے مالی مددکی تاکہ حکومت ڈیفالٹ ہونے
سے بچ سکے تاہم اس کے باوجود معاشی صورتحال انتہائی خراب رہی اور عمران خان
کو آئی ایم ایف اور دیگرعالمی مالیاتی اداروں سے بھی قرض حاصل کرنا پڑا۔ دو
برس بعد مملکت اس وقت بھی بدترین معاشی صورتحال کا سامنا کررہی ہے لیکن
یہاں یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قسمت نے وزیراعظم کا ساتھ دیا اور
کرونا وبا کی وجہ سے حکومت پر قرضوں و سود کی شیڈول واپسی کا دباؤ ٹل گیا
اور معاشی صورتحال پر قابو پانے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں و ممالک نے
مہلت فراہم کی۔
وزیراعظم اعتراف کرچکے کہ وفاق و پنجاب میں ان کی پہلی حکومت ہے اس لئے
ناتجربہ کاری حائل رہی ، لیکن اب وہ سمجھ چکے ہیں ، اس سے پہلے عثمان بزدار
بھی کہہ چکے تھے کہ وہ ناتجربہ کار ہیں ، سیکھ رہے ہیں ، لہذا اب ان کا
کہنا ہے کہ وہ فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں ، کیونکہ انہیں وزیراعظم کا اعتماد
حاصل ہے۔بیورو کریسی و وزراتوں میں جتنی تیزی سے تبدیلیاں کیں گئیں ، وہ
خود پی ٹی آئی مقلدین کے لئے حیرانی کا باعث بنی لیکن وزرات اعلیٰ کی
تبدیلی کا رسک بہرحال وزیر اعظم خود بھی نہیں لینا چاہتے۔
کرونا وَبا میں مملکت کو اُس طرح نقصان نہیں پہنچا جو کسی بھی ترقی پذیر
مملکت کی تباہی کا سبب بنتی، یہ پی ٹی آئی کی حکومت کو آکسیجن ملنے والی
تیسری بڑی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے کہ 8مہینوں میں عوام کو کرونا وَبا
میں بھی حکومت مخالف کوئی تحریک نہیں آئی۔ حالاں کہ کاروباری طبقے سے لے کر
غریب عوام تک انتہائی نامساعد حالات کا شکار ہیں ، لیکن حکومت کے لئے باعث
اطمینان قرار دیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس سخت وقت کو بھی کسی نہ کسی طرح
جھیل لیا۔حکومت کی جانب سے اپنی نمایاں کامیابیوں میں کچھ ایسے پروگراموں
کا تذکرہ کرتی ہے ، جیسے اپوزیشن اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیتی ہے۔ تاہم
دو برس بعد بھی حکومت کے قائم رہنے پر سب سے زیادہ خراج تحسین کا مستحق حزب
اختلاف کو قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔
ایسی اپوزیشن قسمت والی حکومتوں کو ملتی ہے ، ماضی میں فرینڈلی اپوزیشن کے
طعنے اب سنائی بھی نہیں دیتے اور شاید کوئی یاد بھی نہیں کرنا چاہتا ۔ تاہم
حزب اختلاف کے درمیان عدم اعتماد کی فضا و باہمی مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامیوں پر اظہاریہ لکھنا بے سود ہے۔
غالباََ یہ بھی حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کو
بھی نہیں سنا جاتا۔حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے لئے بہت وقت پڑا ہے ۔ مثبت
تنقید سے حکومت کو اپنی خامیاں درست کرنے کا موقع ملتا ہے ، اصلاح کسی بھی
فرد کے حق میں بہتر ہے۔
|