مسلم دنیا میں دراڑ ۰۰۰ یہودی لابی کامیاب

جب 13؍ کو اگسٹ کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ طے ہونے کی بات منظر عام پر آئی تو دنیا حیرت زدہ ہوگئی ، اس خبر کے عام ہوتے ہی کہیں رنج و غم کا اظہار کیا گیا تو کہیں خوشیاں منائی گئیں۔ بعض حکمرانوں نے اسے خوش آئند کہا تو بعضوں نے اسے غداری، منافقانہ عمل سے تعبیر کیاگیا۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تاریخی سمجھوتہ طے پاگیا ہے جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نارمل ہوجائیں گے ، اس معاہدے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جمعرات13؍ اگسٹ کو طے پائے اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس کے مغربی کنارے پر ان علاقوں سے دستبردار ہوجائے گا جن پر وہ قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ متحدہ عرب امارات اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والا پہلا خلیجی اور تیسرامسلم ملک بن گیا ہے۔اس سے قبل مصرنے 1979میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا جس کے بعد اردن نے ایسا ہی معاہدہ 1994ء میں اسرائیل کے ساتھ کیا۔ توقع ہے کہ مستقبل میں مزید خلیجی ممالک بشمول بحرین، عمان ، کویت اور ہوسکتا ہیکہ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرلیں ۔ وائٹ ہاؤس حکام کے مطابق یہ معاہدہ متحدہ عرب امارات، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان طویل عرصے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے نتیجے میں ہوا ہے۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تاریخی سفارتی تعلقات کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن ممکن ہوسکتاہے، یہ تین ممالک کے قائدین کے ویژن اور اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی اس حوصلہ مندی کا نتیجہ ہے جس کے نیتجے میں خطے میں نئی راہیں کھلیں گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ڈیل کو پہلا قدم قرار دیا ہے، انہوں نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب برف بگھل چکی ہے، اب امید ہے کہ مزید عرب اور مسلم ممالک بھی متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنائیں گے۔اس سمجھوتہ کے چند روز بعد ہی اسرائیلی صدر روفلین ریفلین نے ابوظہبی کے ولیعہد شیخ محمد بن زاید آلنہیان کو یروشم کے دورے کی دعوت دی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی صدر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ میں نے ولیعہد شیخ محمد بن زاید کو خط بھیجا ہے جس میں یروشلم کے دورے کی دعوت دی ہے ، انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ خطے کے عوام کے درمیان اعتماد بنانے اور بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ صدر اسرائیل کا کہنا تھا کہ معاہدہ سے خطہ ترقی کرے گا اور استحکام اور خوشحالی آئے گی۔ معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ٹیلی فون لائنز کھول دی گئی ہیں جس کے بعد عرب امارات سے اسرائیل کو بآسانی کسی بھی نمبر پر فون کیا جاسکتا ہے۔فون لائن کا افتتاح متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداﷲ بن زاید اور اسرائیلی وزیر خارنہ غابی اشکنزئی کے درمیان ٹیلی فونک رابطے سے ہوا۔ اس سے قبل دونوں ممالک کے شہریوں کے لئے ٹیلی فونک رابطہ ممکن نہیں تھا۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پائے معاہدہ کے بعدصدر ترکی رجب طیب اردغان نے کہا کہ ترکی امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کرنے اور اپنے سفیر کو واپس بلانے پر غور کررہا ہے۔ جبکہ ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس طرح کا معاہدہ کرنے پر تاریخ امارات کے ’’منافقانہ رویے‘ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں لیکن کئی برسوں سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ ہے ، کیونکہ 2010میں اسرائیلی کمانڈوز نے غزہ کی پٹی کے محاصرے کو توڑنے کی کوشش کرنے والے دس ترک شہریوں کو ہلاک کردیا تھا۔ فلسطینی رہنماؤں نے بھی اس معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے اسے فلسطینی تحریک کی پشت میں چُھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

ادھر ایران نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پائے معاہدہ پراپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات پر حملہ کی دھمکی دی ہے ۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے اسرائیل امارات معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غداری قرار دیا ہے اور کہا کہ متحدہ عرب امارات نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایران متحدہ عرب امارات کو نشانہ بنائے گا؟ اس سلسلہ میں واشنگٹن میں خلیجی ممالک کی صورتحال پر نظر رکھنے والے سینئر مشیر اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر تھیوڈور کاراسک کا کہنا ہے کہ اس دھمکی کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ ایران پہلے ہی سعودی شہریوں کو عراق اور یمن میں موجود اپنی پراکسی فورسز کے ذریعہ نشانہ بناچکا ہے ، ان ہی کے مطابق ایرانی میزائل متحدہ عرب امارات کو 8منٹ میں نشانہ بناسکتے ہیں یہ کسی حساس عمارت کو بھی ہدف بناسکتے ہیں یا پھر نفسیاتی جنگ کے حربے کے طور پر صحرا میں بھی گرائے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر تھیوڈور نے مزید بتایا کہ حال ہی میں ایرانی بحریہ کی جانب سے کی گئی مشقوں میں ایک ایسے میزائل کو استعمال کیا گیا جو زیر زمین لانچر سے داغا گیا تھا، اسے انہوں نے ایک نئے خطرے کی گھنٹی بتائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دبئی اور دیگر شہر ابھی تک انتہائی محفوظ علاقے تصور کئے جاتے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران جو ان دنوں بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے اہم رہنماؤں میں شمار کئے جانے لگے ہیں نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ہمارا موقف بڑا واضح ہے ، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارا موقف قائداعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں واضح کردیا تھا کہ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے جب تک کہ فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔ انکی انصاف کے مطابق آبادی نہیں ہوتی جو کہ فلسطینیوں کا دو قومی نظریہ تھا کہ ان کو ان کی پوری ریاست ملے۔ عمران خان کا کہنا ہیکہ اگر ہم اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر ایسی ہی صورتحال جو کشمیر کی بھی ہے ہمیں اسے بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ اس طرح انہوں نے واضح کردیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا ۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جن فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل نے ظلم و زیادتی کی ہے انہیں کس طرح تنہا چھوڑا جاسکتا ہے اور یہی بات انکا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے اسرائیل کو قانونی ریاست تسلیم نہ کرنے بیان کے بعد اسلام آباد میں قائم فلسطینی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی ریاست اسرائیل کے حوالے سے واضح پیغام دینے پر وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرتی ہے اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔اسی طرح فلسطین پر اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا گیا ۔

پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کتنے مضبوط
ان دنوں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے سلسلہ میں متضاد خبریں گردیش کررہی ہیں۔ گذشتہ دنوں پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اس موقع پر انہوں نے سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے ملاقات کی اس ملاقات کے بعد نائب وزیر دفاع نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات ، فوجی تعاون اور علاقائی امن کے تحفظ کیلئے سلسلہ میں یہ ملاقات ہوئی ہے۔ اس موقع پرجنرل قمر جاوید باجوہ کی سعودی عرب کے چیف آف جنرل اسٹاف فیاض بن حمد الرویلی اور کمانڈر جوائنٹ فورسز لیفٹینینٹ جنرل فہد بن ترکی السعودی سے بھی ملاقات ہوئی۔ پاکستانی فوجی سربراہ کی دارالحکومت ریاض دورے سے قبل پاکستان میں متعین سعودی سفیر نواف المالکی نے پاکستان میں کئی ایک اہم شخصیات سے ملاقات کی ، جن میں پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ، سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف ، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، گورنر پنجاب چودھریمحمد سرور اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی شامل ہیں۔ یہ ملاقاتیں ایک ایسے وقت ہوئیں جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی خبریں منظرعام پر آئیں، اور اس کشیدگی کی وجہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا 5؍ اگسٹ کا انٹرویو بتایا جارہا ہے جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک ٹی وی انٹرویو میں سعودی عرب پر شدید تنقید کی تھی۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے مطابق کشمیر کے مسئلہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تین مرتبہ اٹھایا گیا ہے ، انکا کہنا ہیکہ پاکستان نے کشمیر کا مسئلہ بہتر طور پر عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کی عالمی حیثیت بہتر ہوئی ہے۔

پاکستان کے سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے سلسلہ میں 19؍ اگسٹ کو وزیر اعظم پاکستان عمران نے واضح کیا کہ ’’ہمارے لئے سعودی عرب اہم ترین اتحادی ہے، ہر مشکل وقت میں مدد کی ہے ، اس مرتبہ بھی مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے‘‘۔ انہو ں نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حالات بگڑنے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب سے بہترین تعلقات ہیں اور ہمارا مسلسل رابطہ ہے۔ عمران خان کا کہنا ہیکہ’’ ہمیں ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم جو چاہتے ہیں سعودی عرب کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے ، سعودی عرب کی اپنی خارجہ پالیسی ہے ‘‘۔ کشمیر کے مسئلہ پر وزیر اعظم خان کا کہنا ہیکہ ’’کشمیر کا جو ایشو ہے اس پر بات ہوئی کہ او آئی سی میں اسے آنا چاہیے تھا ، لیکن سعودی عرب کی اپنی خارجہ پالیسی ہے وہ اپنے فیصلے کریں اور پاکستان کا اپنا موقف ہے۔عالمی سطح پر پاکستان امتِ مسلمہ کو مضبوط کرنا چاہتاہے اس سلسلہ میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا رول مسلم دنیا کو متحد کرنا ہے ، اسے تقسیم ہونے سے روکنا ہے تاہم یہ آسان نہیں ہے۔ سعودی عرب کے ایران اور ترکی کے درمیان مسائل ہیں۔ اب متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے بعد امتِ مسلمہ کی صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی ہے دیکھنا ہیکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان، پاکستانی وزیر اعظم عمران اور دیگر مسلم و عرب حکمراں مستقبل قریب میں کس طرح کے فیصلے کرتے ہیں، عالمی سطح پر مسلمانوں کے مفاد کو مدّ نظر رکھا جاتا ہے یا اپنی حکمرانی یا قیادت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھیرنے کو ترجیح دیں گے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۰۰۰

ترکی اور یونان کے درمیان تنازعہ۰۰۰ فرانس کا ترکی کے خلاف مزید فوج تعینات کا فیصلہ
ویٹو پاور رکھنے والی طاقتیں ہمیشہ سے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ دنیا میں جس طرح امریکہ اپنی ڈھاک بٹھائے رکھنا چاہتے ہے وہیں دیگر ویٹو پاور ممالک فرانس، روس، انگلنڈ اور چین بھی اپنے اپنے تئیں کسی نہ کسی طرح اپنی ڈھاک بنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ عالمِ اسلام کو ان سوپر پاور ممالک نے گذشتہ تین دہوں کے درمیان جس طرح شدید نقصان پہنچایا ہے اسکا کو اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ آج بھی یہی سوپر پاور طاقتیں یا دشمنانِ اسلام مسلم حکمرانوں کو جو مسلمانوں کے لئے اہم حیثیت رکھتے ہیں انہیں دہشت زرہ کرنے یا ان پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ گذشتہ دنوں ترکی کے خلاف فرانس نے مشرقی بحیرہ روم میں مزید فوج تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مشرقی بحیرہ روم میں ترکی اور یونان کے درمیان متنازعہ پانیوں میں قدرتی گیس اور تیل کی تلاش پر تنازعہ جاری ہے۔ ترکی بحریہ کی سیکیوریٹی میں ترکی بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم کے جن علاقوں میں گیس اور تیل دریافت کررہا ہے، ان پر یونان اور قبرس کو اعتراض ہے کہ وہ ان کے علاقے ہیں۔ اس معاملے پر فرانس یونان اور قبرص کا حامی اور ترکی کی مخالفت کررہا ہے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ تیل و گیس کی اس مہم کو فی الفور روک دے ورنہ اس کا نتیجہ فوجی جھڑپ کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے۔ ایمانوئل میکرون نے مشرقی بحریہ روم میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یونان سے تعاون کے لئے اس علاقے میں تعینات اپنی فوج میں مزید اضافہ کررہا ہے۔ جس کے جواب میں ترکی کا کہنا ہیکہ یہ سمندری علاقہ اس کی ملکیت ہے اور وہ پانیوں میں اپنے حقوق ، مفادات اور تعلقات کا دفاع کرنا جانتا ہے۔ مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے وافر ذخائر موجود بتائے جاتے ہیں جن پر ترکی، قبرص اور اسرائیل کے درمیان اکثر تنازعہ رہتا ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردغان ان دنوں عالمی سطح پر مسلمانوں کے لئے اہم تصور کئے جاتے ہیں ان کے خلاف کسی نہ کسی طرح کی کارروائیوں کی کوششیں جاری ہیں۔ صدر رجب طیب اردغان اپنے فیصلوں میں اٹل دکھائی دیتے ہیں ۔ اسی لئے امتِ مسلمہ انہیں دل و جان سے چاہنے لگی ہے۰۰۰
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.