پرشانت بھوشن :منصف کے دل میں رہ گئی حسرت خرید کی

پرشانت بھوشن پرعدالت عظمی کے ذریعہ ازخود درج کیا جانے والا ہتک عزت کا مقدمہ ملک میں آزادی ، عدل اور مساوات جیسے خوبصورت نعروں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی و شافی تھا اوپر سے یوم آزادی سے ایک دن قبل ان کو توہین عدالت کے معاملے میں قصور وار بھی ٹھہرادیا۔ اس طرح عدالت کی آڑ میں کھیلی جانے والی سیاست کا پردہ فاش ہوگیا ۔ عدالتی بنچ نے فیصلہ کرنے کے بعد فوراً سزا سنانے کے بجائے 20 اگست تک اس کو ٹال دیا واپسی کادر بند نہ ہو۔ اس اعصاب کی جنگ میں عدالت عظمیٰ نے اپنے آپ کو بلاوجہ مبتلا کر رکھا ہے ۔ عدالت کے رویہ سے یہ بار بار ظاہر ہورہا ہے کہ وہ سزا نہیں دینا چاہتی بلکہ پرشانت بھوش سے معافی منگوانے کی خاطربار بار موقع دے رہی ہے۔ اس کے برعکس پرشانت نے بھی یہ طے کررکھا ہے کہ جیل تو جائیں گےمگر معافی نہیں مانگیں گے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ٹوئٹ چونکہ ججوں کے ذاتی اخلاق کے خلاف تھے اس لیے عدالتی امور میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ عدالت اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتی ۔ اس کا موقف تو یہ ہے کہ؎
تم نے سچ بولنے کی جرأت کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی

20؍ اگست کو جب سزا سنانے کے لیے سماعت کا آغاز ہوا تو پرشانت بھوشن نے اپنے کے خلاف توہین عدالت میں سزا کی مقدار پر طے کرنے کا اختیار مختلف بنچ کے سپرد کرنے کی درخواست پیش کی۔ اس کو مسترد کر تے ہوئے عدالت نے کہا کہ سزا سنانے سے متعلق دلائل کسی اور بنچ کے ذریعہ سنے جانے کا مطالبہ جائز نہیں ہےاور غالباً اس کا یہ مطلب نکالا کہ وہ کچھ خوفزدہ ہوگئےہیں ۔بھوشن چونکہ توہین عدالت کی اپنی سزا کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا ارادہرکھتے ہیں اس لیے عدالت سے استدعا کی کہ اس قضیہ کا فیصلہ آنے تک سماعت کو ملتوی کیا جائے ۔ بنچ نے اس سے بھی انکار کردیا اور یہ سمجھ لیا کہ شاید یا ان کے اندر لچک پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے شنوائی کو جاری رکھتے ہوئے جسٹس ارون مشرا، بی آر گوی اور کرشن مراری کے بنچ نے بھی نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھوشن کو یقین دلایا کہ ان کے جائزے کی درخواست کا فیصلہ ہونے تک کسی سزا پر کارروائی نہیں ہوگی۔ دراصل کورٹ کے دونوں اندازے غلط تھے۔ آگے چل کر ان خوش فہمیوں کو بھوشن نے بڑے موثر انداز میں دور کردیا ۔
اس مقدمہ کی دلچسپ بات یہ تھی کہ عام طور پر استغاثہ فریاد کرتا ہے کہ میرے اوپر مجوزہ کارروائی پر نثر ثانی کی جائے لیکن یہاں عدالتبھوشن سے اپنے موقف پر نظر ثانی کی درخواست کررہی تھی اورانہیں سوچنے کا وقت دے رہی تھی ۔ اس کے جواب پرشانت بھوشن کا جواب تھا کہ وقت کاضیا ہے۔ ان کا سوچا سمجھا موقف تبدیلی نہیں ہوگا۔ اس موقع پر پرشانت بھوشن نے اپنی دلیل میں گاندھی جی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ صدائے حق بلند کرنے میں ناکام رہے تو یہ فرائض کی توہین کے متراد ف ہوگا۔اسی کے ساتھ پرشانت بھوشن نےاس بات پر قلق کا اظہار کیا کہ ان کو اس عدالت کی توہین کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے کہ 30 برسوں تک جس کاوقارقائم رکھنے کی انہوں نے ایک درباری یا خوشامدی کی حیثیت سے نہیں کی بلکہ بطور محافظ کوشش کی ہے۔پرشانت بھوشن نے اپنے خلاف سنائے جانے والے فیصلے کوہدفِ تنقید بناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ان کو صدمہ اور مایوسی اس بات پر ہے کہ اس معاملہ میں میرے ارادوں کا کوئی ثبوت پیش کیے بغیر نتیجہ اخذ کرلیا گیا۔ عدالت نے انہیں شکایت کی کاپی تک فراہم نہیں کی۔ ان کے ٹوئیٹس کو عدلیہ کے بنیاد کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش قرار دینا نا قابلِ یقین ہے۔

پرشانت بھوشن اگرعام وکلاء کی مانند سیاہ کوٹ پہن کرنوٹ چھاپنے والی مشین ہوتے کب کا معافی مانگ کر اپنی جان چھڑا لیتے لیکن وہ ایک نڈر سماجی جہدکار ہیں۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ جمہوریت میں کھلے عام تنقید ضروری ہے۔انہیں وقت کی نزاکت کا احساس ہے اس لیے کہتے ہیں کہ فی زمانہ آئینی اقدار کی حفاظت کرنا ذاتی سکون سے زیادہ اہم ہے۔ان کے نزدیک اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دینا فرض منصبی کی توہین ہے۔ اسی لیے وہ اپنے مصدقہ تبصرےپر معذرت چاہنے اپنے آپ سے کذب و دغا سمجھتے ہیں۔اپنی حتمی رائے دیتے ہوئے پرشانت بھوشن نے گاندھی جی اس بیان کا اعادہ کیا کہ، ’’میں رحم کی درخواست نہیں کرتا۔ میں کسی دریا دلی کی توقع بھی نہیں کرتا۔ میرے مصدقہ بیان کے لئے کورٹ کی طرف سے جو بھی سزا ملے گی، وہ مجھے منظور ہے۔‘‘ جو انسان اس طرح اپنا من بنا لے ۔ اپنے مقصد حیات کی خاطر ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار اور آزمائش و مشکلات سے سینہ سپر ہوجائے اس کو دنیا کی کوئی طاقت جھکا نہیں سکتی بلکہ الٹا اس کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

مودی اور شاہ کے سرکاری وکیل یعنی اٹارنی جنرل وینو گوپال کا پرشانت بھوشن کو سخت سے سخت سزا سنانے کی درخواست کرنے کے بجائے غوروخوض کے لیے عدالت سے وقت دینے کی گزارش کرنا ایک چمتکار سے کم نہیں ہے لیکن انگریزی کا محاورہ ہے ’قسمت دلیروں کا ساتھ دیتی ہے‘ ۔ اس قضیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کو ڈرانے کی کوشش کی لیکن جب وہ نہیں ڈرے توعدالت خود ڈر گئی ۔ پرشانت بھوشن پر عدالت ِعظمیٰ نے اس امید میں ہاتھ ڈالا کہ وہ ڈر کر معافی مانگ لیں گے اور پھر جب بھی حکومت یا عدالت پر تنقید کریں گے تو ان کا معافی نامہ دکھا کر انہیں رسوا کیا جاسکے گا لیکن یہ داوں الٹا پڑ گیا ۔ پرشانت بھوشن ڈرنے کے بجائے لڑ گئے ۔ انہوں نے دو صفحات کے نوٹس کا جواب 132 صفحات پر مشتمل حلف نامہ داخل کرکےدیا ۔ اس ردعمل کو دیکھ کر خود سپریم کورٹ کے جج گھبرا گئے۔

اس کے بعد جج صاحبان نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہونے والی کھلی عدالت میں تومائیکروفون بند کرکے پرشانت بھوشن کے وکیل راجیو دھون سے فون پر انفرادی گفتگو کی۔ قیاس یہ ہے کہ معافی تلافی کے بعد معاملہ رفع دفع کرنے کی پیشکش کی گئی ہوگی ۔ لیکن بات نہیں بنی پرشانت بھوشن نے دورانِ سماعت بھی معافی مانگنے سے صاف انکار کردیا تھا اور مجبوراً ڈرے سہمے جج صاحب کو اپنی عزت بچانے کے لیے مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرنا پڑا تھا ورنہ دیگر لوگوں کی مانند پرشانت بھوشن کی بھی جان بخشی ہوجاتی۔ عدالتِ عظمیٰ بنچ کورٹ اور ججوں کے وقار کا تحفظ کرنے کی خاطر اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی تھی ۔ اس کے برعکس پرشانت بھوشن کا کہنا تھاکہ توہین عدالت کی طاقت کو ’’شہریوں کی جانب سے جائز تنقیدی آوازوں‘ کو دبانے کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔اس طرح عدالت کے میزان پر ایک پلڑے میں جج صاحب کی عزت اور دوسرے پر عدلیہ کا وقار آگیا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون سا پلڑا بھاری ہوتا ہےلیکن یہ طے ہے کہ ہر دو صورت میں آنکھوں پر پٹی باندھنے والی عدالت کی دیوی پشیمان ہوگی۔
جولائی 21کو پرشانت بھوشن اور ٹوئٹر انڈیا کیخلاف سپریم کورٹ نےاز خود نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کی مجرنامہ کارروائی کا ارادہ کرکے جسٹس ارون مشراکی قیادت والی بنچ نے جو احمقانہ جال بنا وہ اب اس میں پوری طرح پھنس چکی ہے۔ اس کی حالت’ کہا بھی نہ جائے نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے‘ جیسی ہو گئی ہے۔ اب وہ فیصلہ نہیں کرپارہی ہے کہ آخر اس پر شانت کے معاملے کو کیسے شانت کیا جائے؟ اس لیے کہ اس نے عدلیہ کی شانتی بھنگ (امن غارت) کردی ہے۔ پرشانت بھوشن نے پھر ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے والوں کو عافیت تو مل جاتی ہے بلکہ انعام و اکرام سے بھی نوازہ جاتا ہے لیکن ایسے لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھے جاتے۔

سپریم کورٹ میں بہت سارے وکلاء نہایت ذہین، قابل اور دولتمند ہیں لیکن ان کے درمیان پرشانت بھوشن کو جرأتمندی اور دلیری کی سبب سرخروئی حاصل ہوئی ہے ۔ پرشانت سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ وہ جذباتی اور ناعاقبت اندیش ہیں ۔ انہوں نے جوش میں آکر اپنے آپ کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ انہیں مصلحت سے کام لیتے ہوئے تعمیری کاموں میں اپنی توانائی صرف کرنی چاہیے بلکہ ہر باضمیر انسان ان کی حوصلہ مندی کو سلام کرتا ہے۔ وہ اگر کل کو جیل چلے گئے تو ہرکو ئی رنجیدہ تو ہوگا لیکن کوئی شکوہ شکایت نہیں کرے گا کیونکہ خود پرشانت کو اس کا افسوس نہیں ہے۔ انہوں نے آگے بڑھ اس آزمائش کو گلے لگایا ہے ۔ ان کی یہ بہادری دوسروں کا حوصلہ بلند کرے گی اور جذبۂ حریت کو جلا بخشے گی ۔ یہ مقدس جذبہ تقریروں اور تحریروں سے نہیں بلکہ کی پامردی کے مظاہرے سے پیدا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے بار بار اصرار کے باوجود پرشانت بھوش کا معافی مانگنے سے انکار کردینا اقبال ساجد کا یہ شعر یاد دلاتا ہے؎
تو نے صداقتوں کا نہ سودا کیا حسینؓ
باطل کے دل میں رہ گئی حسرت خرید کی

یوم عاشورہ کی آمد آمد ہے ۔ ہم ہر سال حضرت حسینؓ ٰ کو یاد تو کرتے ہیں لیکن ا ظلم و جبر کے خلاف انہوں نے جو بے مثال قربانی پیش فرمائی ، جس عظیم ترین صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا اس کو بھول جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں پرشانت بھوشن سے ترغیب لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ تو امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے درمیان ایثار و قربانی پیش کرنے والوں کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے۔ امامِ عالی مقام کے رہنما خطوط کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے۔ امت مسلمہ اگر آج بھی امام حسین ؓ کی سیرت کو اپنے سامنے رکھ کر حق و انصاف کی خاطر بصد شوق میدان عمل میں آجائے تو ساری بزدلی اور مصلحت پسندی کا ازخود خاتمہ ہوجائے گا ۔ وہ نہ صرف خود عزت و احترام کے مقام بلند پر فائز ہوجائے گی بلکہ دوسروں کےلیے بھی عزم و حوصلہ کا منبع و مرجع بن جائے گی لیکن اس کے لیے وہ ایمان و جدان اور جوش و ولولہ درکار ہے جس ذکر مظفر حنفی نے اپنے اس شعر میں کیاہے ؎
چاہتا یہ ہوں کہ دنیا ظلم کو پہچان جائے
خواہ اس کرب و بلا کے معرکے میں جان جائے
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450904 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.