دنیا کے مسائل کا حل اتحاد سے ممکن ہے!

کرونا کے بعد دنیا کو درپیش سب سے بڑا چیلنج گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا اور معمولات زندگی کی بحالی ہے ۔ یہ بحالی اختلافات کو پش پست ڈال کر باہمی اتحاد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن موجود حالات میں یہ اتنا آسان نظر نہیں آتا کیوں کہ دنیا میں چند قوتیں اپنے غلبے کی خاطر اکثریتی فہم کو نظرانداز کررہی ہیں۔ دنیا کا کوئی ایک ملک چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو پوری دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح طاقت اور پیسے کے زور پر کسی دوسرے ملک کے اقتدار اعلیٰ کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ ممالک کی یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کی سوچ نے آج کی دنیا میں عالمگیریت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مختلف اقوام کو باہمی تعاون میں مزید اضافہ کرنا ہوگا اور بڑے ممالک کے رہنماؤں کو عالمی سفارتکاری میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا ۔

چین کے تمام اعلیٰ رہنما مسلسل دنیا کی قوموں کے درمیان اتحاد کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نے تیس اگست کو فرانسیسی انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات میں "اتحاد و تعاون ، کھلے پن و اشتراک اور انسانی امن و ترقی کا مشترکہ تحفظ "کے موضوع پر لیکچر دیا۔ اس موقع پر وانگ ای نے کہا کہ بدلتے ہوئے بین الاقوامی ماحول کا سامنا کرتے ہوئے ، چین نےتجویز پیش کی کہ انتہائی بڑی منڈی میں ملنے والے فوائد اور مقامی ضروریات بہترین انداز میں پوری کی جائیں اور ایک نیا ترقیاتی نمونہ تیار کیا جائے جس میں گھریلو اور بین الاقوامی سلسلے ہر لحاظ سے ایک دوسرے کو فروغ دیتے ہوں۔ وانگ ای نے کہا کہ ہم مقامی ضروریات کو مزید وسعت دیں گے ، بیرونی دنیا کے لیے کھلے پن کو وسیع کریں گے ، مشترکہ عالمی بحالی کو اپنی بحالی کے ساتھ چلائیں گے ، اور اپنی ترقی کے ساتھ دنیا کی مشترکہ ترقی کو آگے بڑھائیں گے۔چین پرامن ترقی کی راہ پر قائم رہے گا اور تعاون اور باہمی مفادات پر مبنی جامع ترقی پر قائم و کاربند رہے گا۔

چین - امریکہ تعلقات کے بارے میں وانگ ای نے کہا کہ وہ تین بنیادی نظریات کے بارے میں بات کرنا چاہیں گے۔سب سے پہلے ، چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات یا تضادات ، طاقت ، حیثیت ، یا معاشرتی نظام کا تنازعہ نہیں ، بلکہ یہ کثیرالطرفہ یا یکطرفہ پن کی استقامت اور جیت - جیت کے باہمی تعاون یا "زیرو سم گیم "کی تائید کا معاملہ ہے۔ چین اور امریکہ تعلقات کو درپیش موجودہ مسائل کا خلاصہ یہی ہے۔ یقیناً اس وقت دنیا کے تمام ممالک نے بہت واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ اب تاریخ کے غلط رخ پر ہے۔

دوسرا ، موجودہ امریکی سفارتکاری صرف یکطرفہ پابندیوں اور دوسروں کو بدنام کرنے کی مہم ہی دکھائی دیتی ہے۔ چین کے خلاف امریکہ کی طرف سے بے بنیاد الزامات کا سامنا کرتے ہوئے چین کو حقائق کو واضح کرنا چاہیے اور ضروری ردعمل دینا چاہیے۔ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ہمیں ایسا کرنے کا پوراحق ہے۔ ہم نا صرف چین کے قومی مفادات اور قومی وقار کا تحفظ کررہے ہیں بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کا بھی تحفظ کررہے ہیں۔

تیسرا ، چین اور امریکہ کے لیے بات چیت کا دروازہ کھلا ہے۔ ہم کسی بھی وقت مشترکہ تشویش کے امور پر امریکہ کے ساتھ خوشگوار ماحول میں تفصیلی تبادلہ خیال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکہ میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو دلائل کے ساتھ بات چیت کرنے پر راضی ہیں ، اور دونوں فریق اب بھی بات چیت کے ذریعےاتفاق رائے تک پہنچ سکتے ہیں۔ چین فرانس سمیت یورپی ممالک کا بھی خیرمقدم کرتا ہے کہ وہ چین اور امریکہ تعلقات میں آسانی پیدا کرنے کے لیے تعمیری کردار ادا کریں۔
اس وقت عالمی سیاست تبدیل ہو رہی ہے‘ علاقوں اور ملکوں پر قابض ہونا اب طاقت کی علامت نہیں رہا۔ اختلافات کے حل کیلئے باہمی تعاون اور رابطوں پر انحصار اہم ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اقوام عالم کو پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ہی ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رکھا جا سکتا ہے جس کے لئے ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے اور اس فلسفہ پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا میں طاقت کا توازن قائم و برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ یہی فلسفہ دنیا کی بقاء کا ضامن ہے جس میں ہلکی سی لغزش سے طاقت کا توازن بگڑے گا تو پراکسی وار‘ سرد جنگ یا مختلف تہذیبوں اور ممالک کے مابین باقاعدہ جنگ کی نوبت لائے گا اور بالاخر علاقائی یا عالمی تباہی پر منتج ہوگا۔ اقوام عالم کو پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ پر کاربند رکھنے اور کسی بھی قسم کے باہمی اختلافات و تنازعات کو افہام و تفہیم کے ساتھ طے کرنے کیلئے ہی پہلے لیگ آف نیشنز اور اسکے غیرمؤثر ثابت ہونے پر اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی ۔

اتحاد وتعاون کے اسی فلسفے پر قائم رہتے ہوئے ، کھلے پن کو وسعت دیتے ہوئے، اقوام عالم کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے ترقی اور امن کی راہ پر گامزن رہا جا سکتا ہے۔



 

Zubair Bashir
About the Author: Zubair Bashir Read More Articles by Zubair Bashir: 45 Articles with 35545 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.