پرشانت بھوشن پرجس وقت توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہوا تو
بظاہر ایسا لگا کہ حکومتجسٹس ارون مشرا کے ذریعہان کو سزا دے کر اپنے اوپر
تنقید کرنے والوں کا گلا گھونٹنا چاہتی ہے لیکن حکومت کی نمائندگی کرنے
والےاٹارنی جنرل کے موقف سے یہ واضح ہوگیا کہ فی الحال کم ازکم اس معاملے
میں حکومت ایسا نہیں چاہتی ورنہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ سرکاری وکیل یعنی
اٹارنی جنرل وینو گوپال ایک نہیں دودو سماعتوں میں پرشانت بھوشن کو معاف
کرنے کی سفارش کرتے۔اول تو کوئی غلام ایسی گستاخی کرنے کی جرأت نہیں کرتا
اور اگر کربھی جائے تو اس کی جان بخشی نہیں ہوتی ۔ پہلی سماعت کے دوران
اٹارنی جنرل نے وقت دینے کی سفارش کی مگر دوسری مرتبہ تو صاف کہہ دیا کہ
عدلیہ میں بدعنوانی پر کئی سابق جج بول چکے ہیں ۔ لہذا بھوشن کو خبردار
کرکے چھوڑ دیا جانا چاہئے ۔ ایسے بیانات صرف عدالت کو بتانے کیلئے دئیے
جاتے ہیں۔
اٹارنی جنرل کی نصیحت کے جواب میں جسٹس مشرا نے یہ کہہ کر اپنی رسوائی میں
اضافہ ہی کیا ہےکہ ”ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ کہ ہر کوئی ہماری نکتہ چینی کرتا
پھرے اور پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ اہانت آمیز جواب دے تب بھی اگر ہم اس
پر غور نہیں کریں تو ہم پر یہ الزام عائد ہوگا کہ ہم نے جان بوجھ کر ایسا
کیا تھا۔"جسٹس مشرا کا یہ کہنا بھی تھا کہ ” پرشانت بھوشن یہ تسلیم ہی نہیں
کررہے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا۔ انہوں نے کوئی معذرت نہیں
پیش کی۔ لوگ غلطی کرتے ہیں، بعض اوقات خوش گمانی میں بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں
لیکن وہ تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی غلطی کیہی نہیں۔ ایسے لوگوں
کے ساتھ کیا کیا جاناچاہیے جو یہ سوچتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی ہوئی ہی
نہیں۔" مشرا جی کو اس بات کا تو بڑا قلق ہے کہ پرشانت بھوشن اپنی غلطی
تسلیم کیوں نہیں کرلیتے لیکن اگر وہ ان کے جواب پر غور کرلیتے تو یہ معمہ
ازخود سلجھ جاتا۔ پرشانت بھوشن نے کہا تھا کہ دکھاوے کی معافی مانگنا میرے
ضمیر کی اور ایک ادارے یعنی عدالت عظمیٰ کی توہین کے مترادف ہے۔
موجودہ مرکزی حکومت کے تئیں اس خوش فہمی کا شکار تو کوئی بھی نہیں ہے کہ یہ
اظہار رائے کی آزادی کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔اس نے بلاتفریق
مذہب و ملت ملک بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو پابند و سلال کررکھا
ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اس دورِ پر فتن کو اب غیر اعلانیہ ایمرجنسی
کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے ۔ پرشانت بھوشن کے حوالے سے شک کی سوئی حکومت
کی جانب اسی سبب سے گھوم گئی تھی ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ درمیان میں سرکار
کا من پریورتن (دل بدل گیا) ہو گیا ہو ۔ صفورہ زرگر کے معاملے میں ایسا
ہوچکا ہے۔ وزیر داخلہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولس ہائی کورٹ میں یہ کہہ
رہی تھی کہ اس کے پاس صفورہ کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں اس لیے اسے ہر گز ضمانت
نہ دی جائے ۔ اس بیچ مرکزی حکومت کو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کی
شائع ہونے والی رپورٹ کی بھنک لگ گئی ۔ بس پھر کیا تھا حکومت نے خود کو
سبکی سے بچانے کے لیے اچانک سالی سیٹر جنرل تشار مہتا کی مذکورہ مقدمہ کی
پیروی کے لیے بھیج دیا۔ انہوں نے نہایت دبنگ انداز میں عدالت سے کہا کہ
انہیں کو ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اب کس کی مجال تھی کہ رکاوٹ بنتا ؟
عدالت نے اشارہ سمجھ کر صفورہ زرگر کو ضمانت پر رہاکردیا ۔
پرشانت بھوشن کے معاملے میں بعید نہیں کہ حکومت کو اندازہ ہوگیا ہو کہ
انہیں سزا دینے میں سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ اس کے سبب ایک تو
حکومت کا سخت ناقد بیٹھے بٹھائے ہیرو بن جائے گا اور دوسرے حکومت پر نکتہ
چینی کرنے والوں کے دل سے رہا سہا خوف بھی نکل جائے گا ۔ یہ بات اس لیے کہی
جارہی کہ گزشتہ سال یہی حکومت تھی اور یہی اٹارنی جنرل بھی تھے ۔ اسی
پرشانت بھوشن پر عدالت عظمیٰ ہی میں یہی الزام بھی لگایا گیا تھااور چونکہ
بعد میں مقدمہ واپس لے لیا گیا اس لیے نہ پچھلے سال کوئی سزا ہوئی تھی اور
نہ اس سال اب تک ایسا ہوا ہے۔ فروری 2019 میں قومی انتخاب سے قبل سی بی
آئی کے سربراہ آلوک ورما کے معاملے کو حکومت نے بلاوجہ اپنے وقار کا
مسئلہ بنالیا تھا۔ سرکاری مداخلت کا یہ معاملہ جب عدالت عظمیٰ میں پہنچا تو
اس پر پرشانت بھوشن نے یکم فروری کو ٹوئٹ کرکے مبینہ طور پر لکھ دیا تھا کہ
ایسامحسوس ہوتا ہے گویا حکومت نے عدالت کو گمراہ کیا ہےاور شاید ، وزیراعظم
کی قیادت میں اعلیٰ اختیاری کمیٹی کے نشست کی فرضی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
پرشانت بھوشن نے اس بابت سماعت کے بعد ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ انہوں نےحزب
اختلاف کے رہنما ملیکارجن کھڑگے سےذاتی طور پر استفسار کرکے تصدیق کی ہے ۔
اعلیٰ اختیاری کمیٹی کی نشست میں ناگیشور راؤ کو عبوری ڈائریکٹر بنانے پر
کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔حزب اختلاف کا رہنما چونکہ بذاتِ خود اعلیٰ
اختیاری کمیٹی میں وزیر اعظم اور چیف جسٹس یا ان کے نامزد کردہ سپریم کورٹ
کے جسٹس کے ساتھ شامل ہوتاہے اس لیے کھڑگے کے بیان کو بہ آسانی جھٹلایا
بھی نہیں جاسکتا تھا ۔پرشانت بھوشن کے اس بیان پر اٹارنی جنرل کے کے وینو
گوپال نے سی بی آئی کے عبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ کی تقرری پر پرشانت
بھوشن کےٹوئٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں عدالت کی ہتک عزت سے متعلق عرضی دائر
کردی تھی ۔وینو گوپال نے اپنی عرضی میں کہا تھاکہ بھوشن نے جان بوجھ کر
اٹارنی جنرل کیصداقت اور ایمانداریکو مشکوک کیا ہے۔
اٹارنی جنرل وینو گوپال نے اپنی دلیل میں کہا تھا کہ منٹس آف میٹنگ محض
پڑھنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ مذکورہ نشست میں اعلیٰ اختیاری کمیٹی نے
مرکزی حکومت کو ایک اہل افسر کی سی بی آئی کے نئے ڈائریکٹر کی حیثیت سے
تقرری تک ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دینے کا فیصلہکیا تھا۔عرضی میں کہا
گیاتھا کہ فیصلہ کرنے والی کمیٹی کے تینوں ارکان وزیر اعظم نریندر مودی ،
سپریم کورٹ کے جسٹس اے کے سیکری (چیف جسٹس کے نامزد نمائندہ) اور کانگریس
رہنما ملیکا رجن کھڑگے کے دستخط موجود ہیں۔ اپنے دلائل سے اٹارنی جنرل نے
یہ تو ثابت کرنےمیں کامیابی حاصل کرلی کہ حکومت کو تقرر کا اختیار ملا تھا
لیکن ناگیشور راو کی تقرری کی توثیق پھر بھی نہیں ہوئی ۔
حیرت کی بات یہ ہے اس بار جب ارون مشرا نے پرشانت بھوشن کو دو ٹوئیٹس کے
علاوہ 2009کا تہلکہ جریدے میں دیئے گئے انٹرویو کا معاملہ تو اٹھایا گر
2019 کے سی بی آئی معاملے کوبھی چھیڑا لیکن وینو گوپال نے یہ کہہ کر انہیں
خاموش کردیا کہ وہ مقدمہ انہوں نے خود واپس لے لیا تھا۔اٹارنی جنرل کی منطق
((پر اگر جسٹس ارون مشرا غور کرتے تو ان کے پاس تائید کے سواکوئی چارہ نہ
ہوتا مگر وہ جذبات میں بہہ گئے تھے ۔ وینو گوپال ویسے تو اٹارنی جنرل ہیں
مگر اس مقدمہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں شریک ہو رہے
ہیں حالانکہ کوئی سرکاری وکیل ذاتی حیثیت میں بھی اپنے سرکار جیسے مؤکل کو
ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتا خیر انہوں نے عدالت سے یہ کہا کہ
’’سبکدوش ججوں کے تعلق سے ان (پرشانت بھوشن ) کے ٹویٹس پر کیا یہ کہا جا
سکتاہے کہ جو کہاگیا ہے وہ سچ ہے یا نہیں؟ متعلقہ ججوں کا جواب جانے بغیر
شاید ہم کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں گے۔ اس کا مطلب تفتیش کرنی ہوگی اور تب
تک پرشانت بھوشن کو سزا نہیں دی جاسکے گی۔ اس لئے میرا مشورہ ہے کہ اس
معاملے کو ختم کیا جائے۔‘‘ اس دلیل کو بھی جب جسٹس ارون مشرا نے ٹھکرا دیا
تو اٹارنی جنرل جسٹس ارون مشراسے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آپ غیر واضح
نظر آرہے ہیں اور آپ میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے اس جملے کو سن کر پرشانت
بھوشن کے چہرے پر پھیلنے والی مسکراہٹ یہ شعر یاد دلاتی ہے کہ ؎
چراغ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا کہ پوچھ اسے
جو سانحہ یہاں کل شب ہوا کے ساتھ ہوا
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|