یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
(وطن عزیز کے ایک گمنام سپاہی حوالدار( ر)اکبر دین جنجوعہ کی زندگی کے احوال) |
|
راجہ محمد عتیق افسر اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ،قرطبہ یونیورسٹی پشاور 03005930098، [email protected]
جنگ ایک وحشت کا نام ہے ، تباہی اور بربادی کا نام ہے ۔جنگ کا نام لیتے ہی پہلا تصور ذہن میں جو آتا ہے وہ بہت ڈراؤنا ہوتا ہے ۔ موت کا رقص اور بہتا لہو جنگ کے ثمرات ہوتے ہیں ۔بستیاں اجڑ جاتی ہیں نسلیں برباد ہو جاتی ہیں ۔اس وحشت ناک تصور کے باوجود جنگ مقدس بھی ہو جاتی ہے جب وہ کسی مقدس مقصد سے لڑی جائے ۔اپنے دفاع میں لڑی جانے والی جنگوں کو ہر قوم اچھا سمجھتی ہے ۔اسی طرح ظالم اور جابر استبداد سے آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں بھی معتبر سمجھی جاتی ہیں ۔ان جنگوں میں لڑنے والے اور مارے جانے والے سپاہیوں کو قومیں قدر کی نگاہ سےدیکھتی ہیں ، انہیں سر آنکھوں پہ رکھتی ہیں اورانہیں یاد کرتی ہیں ۔اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان بہادروں نے جان پہ کھیل کر قوم کو بقا کی ضمانت دلائی ہوتی ہے ۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی قوم 6 ستمبر کو یوم دفاع کے طور پہ مناتی ہے تاکہ وطن عزیز کی خاطر لڑنے والے سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے ، دفاع وطن کے لیے عزم صمیم کو مزید پختہ کیا جائے اور نئی نسل کو اپنے ابطال کے کارناموں سے روشناس کرایاجائے۔اس حوالے سے شہداء اور غازیوں کے کارناموں سے عوام الناس کو روشناس کرایا جاتا ہے ،ملی نغموں کے ذریعے جوش گرمایاجاتا ہے اور شہداء اور غازیوں کے مزارات پہ حاضری دے کر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ان غازیوں اور شہداء میں چند کے نام سے دنیا آگاہ ہے جبکہ ایک اکثریت کوچہ ٔ گمنامی میں ہے۔وطن عزیز کے ان گمنام جواہر میں ایک ہیرا ریٹائرڈ حوالدار حاجی اکبر دین جنجوعہ بھی ہیں جو پاکستان کی عسکری تاریخ کے ایک گمنام سپاہی ہیں ۔ حوالدار( ر) اکبردین کا تعلق آزاد کشمیر کے مردم خیز ضلع باغ سے ہے ۔ آپ یکم جنوری 1928 کو باغ کے نواحی گاؤں جگلڑی میں پیدا ہوئے ۔یہ وہ دور تھا جب اس علاقے میں ڈوگرہ حکومت تھی ۔ جبر و استبداد کے اس دور کو انہوں نے اپنے بچپن میں دیکھا۔ہندو اقلیت کے ہاتھوں مسلم اکثریت کا استحصال دیکھتے ہوئے انہوں نے پرورش پائی۔آپ مسلم دشمنی پہ مبنی ہندو عصبیت کے عینی شاہد اور راوی ہیں ۔تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی اور مسلم آبادی کےتعلیم کی جانب رجحان نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے محض ابتدائی تعلیم ہی حاصل کی ۔اردو میں خط کتابت اور اخبار و رسائل کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے جس کی بنیاد پہ وہ ان 14 فی صد افراد میں شامل تھے جو قیام پاکستان کے وقت خواندہ تھے ۔انہوں نے لڑکپن میں امیر شریعت مولانا عبداللہ کفل گڑھوی کی ڈوگرہ سامراج کے خلاف اٹھتی تحریک کو دیکھا تھا ۔ اس تحریک نے عوام الناس میں ڈوگرہ سامراج کے خلاف کمر بستہ ہونے کے لیے بیج بو دیے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب قیام پاکستان کاوقت آیا تو مسلم آبادی کے اندر پنپتی چنگاری بھی شعلہ جوالا بن گئی ۔عوام نے مہاراجہ ہری سنگ کی بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کی بو کو محسوس کر لیا تھا لہذا مقامی آبادی نے مہاراجہ کے خلاف بغاوت کر دی ۔ باغ سمیت پونچھ کے ہر علاقے سے مقامی افراد کے جتھے منظم ہو کر ڈوگرہ سامراج سے ٹکرانے لگے ۔حوالدار اکبر دین اس وقت عہد شباب میں تھے ۔آپ کے خون نے بھی جوش مارا اور مقامی جتھوں کے ہمراہ ڈوگرہ فوج کے ساتھ معرکوں میں شریک ہوئے ۔معرکہ ٔ باغ میں لڑتے ہوئے ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ۔دوران حراست قیدیوں کے ساتھ سرکاری اراضی میں گھاس کاٹتے ہوئے موقع پا کر فرار ہو ئے ۔ جذبہ جہاد اور شوق شہادت کی بدولت تحریک آزادی کے ساتھ وابستگی اس وقت مزید پختہ ہو گئی جب یکم جنوری 1948 کو آزاد کشمیر کی فوج (آزاد کشمیر ریگولر فورسAKRF)میں بھرتی ہو گئے اورکیپٹن غلام رسول آف سنگولہ کی قیادت میں اوڑی سیکٹر میں تعینات ہوئے ۔یہی فوج بعد ازاں آزاد کشمیر ریجمنٹ کے طور پہ پاک فوج کا حصہ بنی ۔ آپ نے اس دوران مختلف معرکوں میں دشمن کا مقابلہ کیا ۔اوراپنی سرزمین کو ڈوگرہ اور بھارتی عزائم سے محفوظ رکھنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔جنگ بندی کے بعد آپ 18 اے کے یونٹ کے تحت مختلف علاقوں میں فرائض انجام دیتے رہے ۔ جب 1965 میں بھارت نے پاکستانی سرحدوں کو روندنے کی کو شش کی تو یہ نوجوان اس وقت نائک کی حیثیت سے فوج میں ذمہ داریاں نبھا رہا تھا ۔ جنگ کا بگل بجتے ہی دشمن کے سامنے صف آرا ہو گیا ۔ اور دشمن کو بتا دیا کہ اے دشمن دیں تو نے کس قوم کو للکارا لے ہم بھی ہیں صف آرا ، ہم بھی ہیں صف آرا آدیکھ کہ یہ بازو ، بازو ہیں کہ تلواریں سینے ہیں جوانوں کے یا آہنی دیواریں آپ نے میجر سردار محمد ایوب خان کی قیادت میں خدمات انجام دیں اور دشمن کے زیر تسلط علاقے میں گھس کر کاروائیاں کیں ۔آپ نے بہادری کے جوہر دکھائے اور دوران جنگ ایک بھارتی کیپٹن کو زخمی حالت میں گرفتار کر کے جنگی قیدی بنایا۔دوران جنگ دشمن کے زیر تسلط علاقوں میں کاروائیاں کرتے ہوئے کئی بار بھارتی فوج کے نرغے میں آئے لیکن ہر بار اللہ کے فضل سے دشمن کے دانت کھٹے کر کے اپنے جوانوں کے ہمراہ دشمن کا اسلحہ مال غنیمت کے طور پرلے کر واپس لوٹے ۔ 1971 کے اوائل میں مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو گئے لیکن ایک دفعہ پھر مادر وطن نے پکارا تو لبیک کہتے ہوئے دوبارہ حاضر ہوئے ۔ اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں فوج میں دوبارہ شامل ہوئے اور دشمن کے ساتھ مختلف محاذوں پہ لڑتے رہے ۔1971 میں کچھ اپنوں کی غفلت اور کچھ دشمنوں کی سازش نے ایسا کام کردیا کہ بے شمار قربانیوں کے باوجود مشرقی بازو ہم سے کٹ گیا ۔ آپ کی یونٹ کو مشرقی پاکستان بھیجا جا رہا تھا آپ نے گھر پہ اطلاع بھی بھجوا دی تھی لیکن بعد میں آپ کی یونٹ کو مغربی پاکستان کے محاذوں پرہی فرائض سونپ دیے گئے ۔ جب مشرقی پاکستان کٹ گیا اور ہمارے ہزاروں فوجی جنگی قیدی بنے تو اہل خانہ اور رشتہ داروں کو ان کے حوالے سے کافی تشویس اور پریشانی لاحق ہوئی ۔جنگ کے اختتام پہ آپ گھر واپس لوٹے تو ان کی پریشانی رفع ہوئی لیکن وطن عزیز کے دو لخت ہونے کا غم قوم کبھی بھلا نہ پائے گی ۔ اس جنگ میں اگرچہ ہم نے مشرقی بازو گنوا دیا لیکن مغربی محاذ پہ ہمارے جوانوں نے اہم معرکے سرانجام دیے ۔ آپ بھی اپنی یونٹ کے ہمراہ مختلف محاذوں پہ دشمن کے وار روکتے رہے اور اس پہ کاری ضرب لگاتے رہے ۔ آپ نے ایک پیشہ ور فوجی جوان کی حیثیت سے تین جنگوں میں فرائض سرانجام دیے اور غازی بن کر لوٹے ۔آپ قوم اور علاقے کے لیے سرمایہ افتخار ہیں اور ارض پاکستان میں بسنے والے ہر شخص کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔ آپ کو ان خدمات کے صلے میں تمغات سے بھی نوازا گیا جن میں 1. تمغہ ٔ دفاع کشمیر 1948 2. آزاد کشمیر ڈے کومینڈیشن 3. ستارہ ٔ حرب 4. تمغہ ٔ جنگ 1965 5. تمغہ دفاع 1964/ 1965 آپ ایک غازی کی حیثیت سے جولائی 1974 تک خدمات انجام دیتے رہے اور حوالدار کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔ آپ نے فوج میں شاندار زندگی گزاری اور تین جنگوں میں غازی بن کر لوٹے ۔ وطن کے لیے لڑنے کا آپ کا جذبہ کبھی کم نہیں ہوا ۔ آپ نے اپنے کاغذات ہمیشہ اپنے ساتھ رکھے ہوتے تھے ۔کارگل کی جنگ کے دوران ہر روز اخبار دیکھتے اور پوچھتے رہتے تھے کہ کہیں دوبارہ بھرتی کا اعلان تو نہیں ہوا ۔ وہ بڑھاپے میں بھی اس انتظار میں رہتے تھے کہ موقع ملے تو پھر دشمن کوزور بازو دکھائیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے خیبر پختون خوا کے علاقے ہنگو میں بیکری کے کاروبار کا آغاز کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے ایک کامیاب تاجر بن گئےآپ کے کاروبار میں وسعت پیدا ہوئی اور آپ کئی گھرانوں کے روزگار کا سبب بنے۔ کاروبار کے علاوہ آپ نے علاقے میں سماجی خدمات بھی جاری رکھیں۔ علاقے میں لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہے ۔آپ نے فریضہ حج بھی ادا کیا اور دینیسرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔آپ کا خاندان آج کل ضلع باغ کے گاؤں بنگراں میں مستقل سکونت رکھتا ہے ۔ پیرانہ سالی میں ذیابیطس اور فشار ِخون کے امراض نے آلیا ہے ۔ ذیابیطس کی شدت کی وجہ سے آپ کی یاداشت ، بینائی اور گردوں پہ بہت برا اثر پڑا ہے ۔ آپ آج کل صاحب فراش ہیں اور ملاکنڈ کے علاقے بٹ خیلہ میں اپنے فرزندوں کے ہمراہ قیام پذیر ہیں ۔ آج ہم وطن عزیز پاکستان میں با عزت زندگی گزار رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی گمنام سپاہی ہیں جنہوں نے جوانی قوم کی آزادی اور حفاظت کے لیے صرف کردی ۔ انہی گمنام سپاہیوں کی بدولت آج ہمیں سکھ چین نصیب ہے ۔ہمیں اپنے محسنوں کی قدر کرنا چایئے کیونکہ یہی ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں ۔ حوالدار (ر)حاجی اکبر دین جنجوعہ مادر وطن کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ آپ نے آزادیٔ کشمیر کے لیے جہاد کا راستہ چنا تھا ۔اسی جدوجہد کے نتیجے میں کشمیر کے ایک حصے کو تو آزاد کرالیا گیا تھا لیکن ایک بڑا حصہ اب بھی نعمت آزادی سے محروم ہے اللہ تعالی ٰ سے دعا ہے کہ اس مرد مجاہد کی زندگی میں کشمیر کو آزادی کی نعمت سے نوازے اور اس غازی کو آزادی ٔ کشمیر کی خوشیاں منانے کے لیے صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین ۔
|