سعودی خواتین ہر شعبہ میں نمایاں۔کہیں ویژن 2030کے تحت اقتدار کا مطالبہ نہ کردیں؟

سعودی خواتین مملکت سعودی عربیہ میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور اقتدار میں جس تیزی کے ساتھ ترقیاتی منازل طے کررہی ہیں شاید اس سے قبل انہیں ملک میں ایسے مواقع کبھی نہیں دیئے گئے تھے۔فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان جس طرح ویژن 2030کے تحت خواتین کو ہر شعبہ حیات میں نمایاں کارکردگی کے مواقع فراہم کررہے ہیں اس سے کئی شکوک و شبہات بھی جنم لے رہے ہیں۔ اب سعودی خواتین مردوں کے ساتھ کارریسنگ میں بھی حصہ لینے لگیں ہیں گذشتہ دنوں ایک سعودی خاتون مردوں پر سبقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ سعودی خاتون اسریٰ الدخیل نے سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہونے والے کار ریسنگ میں حصہ لے کر مردوں پر برتری حاصل کرلی ۔ اسریٰ پہلی سعودی خاتون بتائی جاتی ہیں جس نے ٹویوٹا چمپئن شپ میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اسریٰ الدخیل نے آٹوکراس چمپئن شپ میں فرنٹ وہیل ڈرائیو گروپ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسریٰ نے بتایاکہ وہ سعودی ٹویوٹا ٹورنمنٹ میں حصہ لینے کیلئے سعودی دارالحکومت ریاض سے جدہ تنہا گاڑی چلاکر آئیں ۔اسریٰ الدخیل کا کہنا ہیکہ انہیں کاروں کی ریس میں حصہ لینا بہت اچھا لگتاہے ، بچپن سے ہی انہیں اس کا شوق رہا ہے وہ اپنے بھائیوں سے کمسنی میں ہی گاڑی چلانا سیکھی۔ جب وہ تعلیم کے سلسلہ میں امریکہ میں مقیم رہی اس وقت انہوں نے کاروں کی ریس کے تین مقابلوں میں حصہ لیا ۔وہ ٹیکساس میں ہونے والی ریس میں اول رہیں۔ جدہ آٹو کراس چمپئن میں چوتھی پوزیشن حاصل کی جس میں 17پیشہ ور کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ الشرقیہ چمپئن شپ میں تیسری پوزیشن حاصل کی جس میں پانچ پیشہ ور افراد شریک تھے۔ واضح رہے کہ اسریٰ ا الدخیل نے جس محنت اور جستجو سے کار ریس ٹورنمنٹ میں حصہ لے کر مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور ان پر سبقت حاصل کرلی ۔ مملکت میں ان کی اس کامیابی کا سہراسعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سر جاتا ہے جنہوں نے مملکت میں خواتین کو کارڈرائیونگ کی اجازت دینے میں اہم رول اداکیا ہے۔ ویسے مملکت سعودی عرب میں گذشتہ چند برسوں سے ویژن 2030کے تحت جس طرح ہر شعبہ حیات میں خواتین کی خدمات حاصل کی جارہی ہے اور انکی خدمات کو سراہا جارہا ہے اس پر ہیومین رائٹس تنظیمیں مملکت میں خواتین کو مواقع فراہم کرنے پر شاہی حکومت کی تعریفیں کررہی ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس سے سعودی شہریوں کو کتنا سکون و اطمینان حاصل ہورہا ہے، انکی خواتین باہر مختلف شعبہ حیات میں خدمات انجام دینے کی وجہ سے گھریلو مسائل کتنے پیچیدہ ہوئے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاہی حکومت جس طرح خواتین کو مختلف شعبوں میں مواقع فراہم کررہی ہیں اگر انہیں حکومت کے معاملات میں بھی اہم رول ادا کرنے کا موقع دیا جائے تو شاید ہوسکتا ہیکہ وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوکر بہترین فیصلہ کرسکیں گے اور پھر نہیں معلوم اس کے کیا نتائج نکلیں گے، کیونکہ شہزادہ محمد بن سلمان کا پروگرام ویژن 2030سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خواتین کی خدمات ہر شعبہ میں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب خواتین ہر شعبہ میں سخت محنت اور لگن سے کام کرنے لگیں گے تو انکا ایک مطالبہ یہ بھی ہوسکتا ہیکہ اب انہیں بھی بادشاہت کے برابر یا نہیں تو کم ازکم ولیعہد کا رتبہ دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس منصب پر فائز ہوکر مردوں کے مقابل بہترین خدمات انجام دے کر عالمی سطح پر سعودی عرب کا نام اونچا کرسکتے ہیں۰۰۰ کیونکہ جس طرح مردوں کے ساتھ ریسنگ میں حصہ لے کر ایک سعودی خاتون مردوں پر سبقت لے گئی تو حکومت میں بھی ایسا نا ممکن نہیں ۰۰۰

اعلیٰ تعلیم کے باوجود۰۰۰
بیشک تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے انسان ادب و اخلاق ، عجز و انکساری، ملنساری، دکھ درد اور ہنسی و خوشی کے موقع پر پہچانا جاتا ہے۔ تعلیم کے ذریعہ کسی بھی ہنر کے سیکھنے ، سمجھنے اور مختلف پیشوں کو اپنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ علومِ اسلامیہ ہو کہ عصری علوم ۔ انسانیت کی معراج تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ یہ الگ بات ہیکہ آج کے دور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انسانی قدروں کی اہمیت باقی نہیں رہی۔ تقریباً دنیا بیشتر حصوں میں نوجوان نسل انجینئرز ،ڈاکٹرس اور مختلف اعلیٰ پروفیشنل کورسس کی تکمیل کرنے کے باوجود ادب و اخلاق جیسی انمول دولت سے محروم رہ رہے ہیں۔سعودی عرب میں ایک طرف عصری اور اعلیٰ تعلیم کے مکمل کرنے کے بعد بعض سعودی مرد وخواتین جس طرح نچلی سطح کے مختلف پیشوں کو اپناکر فخر محسوس کرتے ہیں اور مملکت کی ترقی میں کسی بھی پیشہ کو اپناکر اہم رول ادا کرنا چاہتے ہیں یہ انکی اعلیٰ ظرفی کہا جائے گا۔ گذشتہ دنوں چند مرد و خواتین کی ایسی رپورٹس منظر عام پر آئیں جس کے پڑھنے کے بعد حیرانگی کا اظہار ضروری ہوجاتا ہے۔

ریاض میں میڈیکل کی طالبہ فارغ اوقات کی قدر کرتے ہوئے سڑک کے کنارے چائے کا دھابہ لگا لیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق میڈیکل سال سوم کی طالبہ کا کہنا ہے کہ عملی زندگی کو قریب سے دیکھ کر مستقبل کا تعین کرنے کیلئے اس نے یہ کام شروع کیا ہے۔ طالبہ کا کہنا ہیکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس کی یہ خواہش ہے کہ اپنے فارغ اوقات کو کارآمد بناتے ہوئے تجارت کے اصولوں کو سمجھیں۔ وہ بتاتی ہے کہ اسٹال پر آنے والوں کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ میڈیکل تھرڈ ایئر کی طالبہ ہے تو وہ حیرت زدہ ہوجاتے ہیں اور اکثر لوگوں کا سوال ہوتا ہیکہ کیا معاشی مسئلہ ہے؟ اس لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ خوشی سے چائے فروخت کررہی ہے گھر والوں کی جانب سے اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں اور نہ ہی ان کی جانب سے کبھی اسے کسی مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، بس یہ اس طالبہ کا شوق ہے جس کے لئے اس نے اس پیشے کو اختیار کیا ہے۔ سعودی طالبہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ سعودی خواتین کسی ملک کی خواتین سے کم تر نہیں، وہ اگر کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو کرکے ہی دم لیتی ہیں، اس کاکہنا ہے کہ ہم میں صلاحیت ہے اور قابلیت کی کمی بھی نہیں ہم اپنی راہیں خود متعین کرنا جانتی ہیں۔

اسی طرح ایک اور سعودی نوجوان عبداللطیف جرفان جو امریکہ میں انفارمیشن ٹکنالوجی میں ماسٹرز ڈگری امتیازی کامیابی کے ساتھ حاصل کی ، سعودی شہر ابہا میں چائے کی دکان چلا رہا ہے۔ جب اس نوجوان نے اپنی ویڈویو سوشل میڈیا پر وائرل کی، جس میں وہ چائے فروخت کرتے ہوئے اپنی ماسٹرز ڈگری بھی دکھا رہا ہے تو وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود نے اس ڈگری رکھنے والے سعودی نوجوان کے ویڈیو کلپ کا نوٹس لیا۔وزارت افرادی قوت نے سعودی نوجوان سے کہا ہے کہ وہ پہلی فرصت میں اسناد لے کر وزارت پہنچ جائے۔ اس کے لئے ملازمت کا بندوبست کیا جائے گا۔ دریں اثنا الریاض بینک نے بھی عبداللطیف جرفان سے کہا ہیکہ ہمارے یہاں ملازمت پکی ہے ، بینک نے ٹوئٹر کے اپنے اکاؤنٹ پر بیان میں کہا کہ ہم ایسے سعودی لڑکوں اور لڑکیوں کے متلاشی ہیں جو اچھے اچھے خواب دیکھتے ہیں اور عزم و ارادے کے مالک ہیں۔

ایک اور واقعہ میں امریکہ سے ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والی سعودی خاتون شیخہ البازی نے مملکت میں پہلی مرتبہ اپنی نوعیت کا نیا پیشہ اختیارکیا ہے۔ یہ پہلی سعودی خاتون ہیں جنہوں نے ’’موچی‘‘ کے پیشے کو آمدنی کا ذریعہ بنایا ہے۔ شیخہ البازی اس پیشہ سے منسلک کیوں ہوئی اس سلسلہ میں بتاتی ہیں کہ جب وہ نیویارک میں دیہی و بلدیاتی امور میں ماسٹرز کی طالبہ تھی، ایک روز اس کے جوتے کی ہیل ٹوٹ گئی، یہ جوتا مشہور دکان سے خریدا گیا تھا اور اسے بے حد پسند تھا، اس نے سرچ کرکے دیکھا تو پتہ چلا کہ اس کی مرمت ممکن ہے۔ شیخۃ البازی نے جب دکان سے اپنا جوتا لینے کیلئے گئی تو یہ دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئی کہ وہ بالکل حقیقی شکل میں آگیا ہے۔ اسے پتہ چلا کہ جوتوں اور اعلیٰ درجے کے پرس میں خرابی کی مرمت اچھے سے ہوجاتی ہے، شیخۃ البازی نے سعودی عرب واپس آنے کے بعد اپنی سوچ بدلی اور اس پیشہ کو اختیار کیا ، وہ بتاتی ہے کہ میرے علم کے مطابق مجھ سے پہلے کبھی کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا۔ شیخۃ البازی سعودی عرب میں اعلی کوالٹی کے پرس اور جوتوں کی ریپئرنگ کی دکان ’’لاذرسبا‘‘ کھولے ہوئے ہیں۔ اس کا اسکالر شپ پر بیرون مملکت تعلیم حاصل کرنے والے سعودی طلبا و طالبات کو مشورہ دیا کہ وہ وہاں صرف ڈگری کے حصول میں نہ پڑیں بلکہ ڈگری کے ساتھ نئے تصورات لے کر آئیں۔ کوئی نہ کوئی ایسا ہنر یا کاروبار سیکھ کر آئیں جسے وہ اپنے معاشرے میں شروع کرسکیں اور اس سے وطن عزیز کو فائدہ ہو۔

مملکت میں آزادی اور روشن خیال کا اثر
سعودی عرب میں آزادی اور روشن خیالی کا اثر یہ ہونے لگا کہ اب بعض سعودی لڑکیاں اور خواتین علی الاعلان سڑکوں پر بے حیائی پر اُتر آئی ہیں۔ گذشتہ دنوں مسجد الحرام سے تھوڑے فاصلے پر ایک سعودی لڑکی نے بے حیائی کا ایسا شرمناک مظاہرہ کیا ہے جس پر سعودی عوام شدید غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ عربی ویب سائٹ الوطن کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک سعودی لڑکی خانہ کعبہ کے احاطے سے کچھ دور واقع السوقیہ روڈ پر نامناسب لباس پہن کر شراب کے نشے میں دُھت آگئی اس بدبخت لڑکی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ مسلمانوں کے مقدس ترین شہر مکہ اور مقدس ترین مقام خانہ کعبہ سے چند سو میٹر کی دُوری پر کھڑی ہے۔ سعودی لڑکی کافی دیر تک وہیں کھڑی شرمناک انداز میں رقص کرتی رہی۔ جس پر وہاں موجود لوگ شدید مشتعل ہوگئے اور پولیس کواس واقعہ کی اطلاع دی،پولیس نے موقع پر پہنچ کر اس لڑکی کو گرفتار کر کے پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا اور اس پر بے حیائی کے الزام کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا گیا۔سوشل میڈیا صارفین نے لڑکے کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مملکت میں سنیما بینی، اور دیگربے راہ روی کے مواقع فراہم کئے جانے کی وجہ سے مملکت میں مغربی و یوروپی کلچر کے نتائج نکلنا شروع ہوگئے ہیں، جس کا ثبوت یہ لڑکی ہی نہیں اس سے قبل بھی ایسا ایک اور واقعہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔

امریکی صدر کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر اور سعودی ولیعہد کی ملاقات
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر اور انکے ہمراہ آئے وفد کی ملاقات یکم؍ مئی بروز منگل ہوئی۔ـذرائع ابلاغ کے مطابق اس موقع پر علاقائی استحکام اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیااور دونوں دوست ملکوں کے درمیان شراکت اور تمام شعبوں میں استحکام کے طریقہ کار پر بات چیت ہوئی۔خصوصی طور پر خطے میں امن و استحکام اور عالمی امن و سلامتی کے فروغ کے اقدامات زیر بحث رہے۔ اس موقع پر سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بھی موجود تھے ۔ جیرڈ کشنر متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن معاہدہ کے سلسلہ میں خلیجی ممالک کے دورے پر ہیں وہ سعودی دورے سے قبل بحرین کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔

لبنان کے نامزد وزیر اعظم مصطفی ادیب
لبنان کے جرمنی میں سفیر مصطفی ادیب کو لبنان کا نیا وزیر اعظم نامزد کیا گیا ہے ۔ لبنان کو تاریخی بحران سے نکالنے کیلئے مصطفی ادیب کس طرح کے اصلاحات اور سیاسی تبدیلیاں کرتے ہیں اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق مصطفی ادیب کا نام عوام میں غیر معروف ہے ، اب انہیں ناممکن کو ممکن بنانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے ۔ مصطفی ادیب نے نامزدگی کے بعد قوم سے اپنے مختصرترین خطاب میں وعدہ کیا کہ ملک میں اصلاحات لائیں گے اور مختصر وقت میں حکومت تشکیل دیں گے۔مصطفی ادیب نے اپنی مہم کا آغاز الجمیزہ اسٹریٹ کے دورے سے کیا جو بیروت بندرگاہ دھماکے سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے یہاں عوام سے ملاقاتیں کیں اور کہا کہ ایوان صدارت سے نامزدگی کے فوراً بعد وہ یہاں عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں۔نئے وزیر اعظم قانون اور سیاسی علوم میں پی ایچ ڈی ہیں۔ مصطفی ادیب کے تعلق سے بعض صارفین نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ یہ بھی ان ہی سیاسی طاقتوں کے نامزد کردہ ہیں جن کا ماضی سب کے سامنے ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ لبنان کو مصطفی ادیب کہاں لاکھڑا کرتے ہیں اور عوام کا دل کیسے جیتے ہیں۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.