راکھ میں دبی چنگاریاں

image
 
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ دائرے کا سفر کب اختتام کو پہنچے گا؟ اُلٹے پیروں چلنے والا یہ معاشرہ حادثوں در حادثوں کا شکار ہو رہا ہے۔ مستقبل کے اس سفر میں ہم ماضی میں گم ہیں اور مجال ہے کہ آگے کے سفر پر یقین رکھیں۔
 
اس سال محرم الحرام کے موقع پر فرقہ واریت کی آگ کو جس طرح بھڑکایا گیا ہے اُس کی چنگاریاں ابھی بھی راکھ میں دبی ہیں جو کسی بھی وقت سلگ کر شعلوں میں بدل سکتی ہیں۔
 
یہ کیونکر ہوا؟ اس کی وجوہات مقامی ہیں یا بین الاقوامی؟ کونسا ملک اس وقت وطن عزیز سے ناراض ہے؟ کس کو کس کے مفادات عزیز ہیں؟
 
یہ سب سوال اپنی جگہ مگر اہم ترین سوال یہ ہے کہ ففتھ جنریشن وار فیئر کے اس دور میں کسی سابق جنرل کے اثاثوں کے معاملے پر پل پل کی خبر رکھنے والی ریاست اس بات سے کیسے بے خبر ہو گئی کہ سوشل میڈیا پر محرم الحرام کے دوران کس قسم کے ٹرینڈز چلتے رہے؟
 
image
 
سوال یہ بھی ہے کہ اس دوران توہین مذہب کے لاتعداد مقدمے درج ہوئے اور کئی ایک افراد کو دھر بھی لیا گیا۔
 
پنجاب حکومت کے مطابق کئی افراد کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور سوشل میڈیا مہم پر فوری ایکشن لیا گیا۔ یہ خوش آئند ہے لیکن گذشتہ چند دنوں سے جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ تشویش ناک ہے۔
 
پاکستان نے اسی اور نوے کی دہائی میں بدترین فرقہ واریت دیکھی۔ کئی افراد کا محض عقیدے کی بنیا پر قتل کیا گیا تو فرقہ واریت کی آگ نے معاشرے میں تقسیم کی فالٹ لائنز کو اور گہرا کیا۔
 
ایک طرف ایرانی انقلاب کے بعد کے حالات اور سعودی امداد نے آپس کے عناد کو ہماری سرزمین کے سینے میں خنجر کی طرح اتارا تو دوسری جانب ملک میں رائج آمریت نے اقتدار کو طول دینے کے لیے پراکسییز کو کھلم کھلا چھوٹ دی۔
 
نتیجہ مسجدوں، امام بارگاہوں کو خون میں نہلایا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔
 
صرف فرقہ واریت ہی نہیں صوبائیت اور علاقائیت نے بھی اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر وفاق کے صوبوں کو طعنے اور عوام میں گہرے بیج بوتے تعصبات ایک خوفناک منظر پیش کر رہے ہیں۔
 
image
 
حال ہی میں کراچی پیکج اور چند حکومتی عہدیداروں کے بیانات نے عصبیت کی فضا پیدا کر دی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس جو اب بدقسمتی سے عوامی جذبات ناپنے کا واحد پیمانہ بن گئی ہیں۔۔۔ پر سندھ کے عوامی ردعمل نے تشویش پیدا کر دی ہے۔
 
کہیں پختون، کہیں بلوچ احساس محرومی اور کہیں سندھ سے مستقل آتی غیر معمولی احتجاجی آوازیں، منافرت کا عجیب ماحول پیدا کر چکی ہیں۔
 
ملک میں جاری انصاف اور احتساب کے دوہرے نظام، آئے دن بند ہوتی اختلافی آوازیں اور لاپتہ ہوتے افراد ایک ایسا نظام ترتیب دے رہے ہیں جہاں محض ایک معمولی واقعہ کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔
 
ایسے میں ریاست کو کیا کرنا ہے؟
آوازوں کو بند کرنے کی بجائے شہریوں کو پوری طاقت سے بولنے کا موقع دینا ہو گا۔ جعلی نظام کی بجائے عوام کی نمائندہ جمہوریت اور مقتدر پارلیمان کو آزمانا ہو گا۔
 
فعال سیاسی نظام اور اصل نمائندگی کا حق ہی مملکت پاکستان کو اس نازک وقت میں تقسیم سے بچا سکتا ہے اور ایسا تبھی ہو گا جب افراد ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھیں، کیا ایسا ممکن ہے؟
 
Partner Content: BBC Urdu
عاصمہ شیرازی
About the Author: عاصمہ شیرازی Read More Articles by عاصمہ شیرازی: 20 Articles with 38206 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.