پنجاب میں اچانک ڈکیتیوں ، چوریاں ، قتل اور جنسی تشددکے
ساتھ ساتھ سانحہ لاہورسیالکوٹ موٹروے سے لگتا ہے بزدارحکومت کے فیصلے میں
کہی کوئی غلطی ہوگئی ہے ۔ کیونکہ ہرباشعور شہر ی اپنے آپ کو غیر محفو ظ
سمجھنے لگا ہے اورہرزبان پر بحث جاری ہے کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر آئندہ
آنے والے عرصے میں اپوزیشن نے احتجاجی سیاست شروع کی یا سڑکوں پر نکل آئی
اور حکومت کو وسیع پیمانے میں گرفتاریاں مطلوب ہوں تو ایسے میں شعیب دستگیر
جیسے افسر نہیں چل سکتے۔آئی جی کسی بھی پولیس کا کمانڈر ہوتا ہے اور سوا دو
لاکھ فورس کے کمانڈر کو آپ اس طرح تبدیل کر دیں تو فورس پر انتہائی برا اثر
پڑتا ہے۔کسی بھی صوبے میں آئی جی کو اپنی فورس اور مسائل کو سمجھنے کے لیے
کم از کم چھ سے سات ماہ لگتے ہیں پھر وہ کام کر سکتا ہے۔ اس طرح ہر چھ ماہ
بعد آئی جی تبدیل کرنے سے پولیس انتظامیہ تباہ ہو جائے گی۔
انسپکٹرجنرل پنجاب پولیس کا سربراہ ہوتا ہے۔ یہ پاکستانی پولیس کا تین
ستارہ افسر ہوتا ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب کے ماتحت کام کرتا ہے۔1947ء سے
2020تک کے سربراہان پنجاب پولیس کی فہرست یوں ہے ۔آئی جی پی خان قربان علی
خان ’’اگست 1947ء‘‘ ۔ میاں انور علی’’اگست 1952ء‘‘آئی جی پی ایس این عالم
’’جون 1953ء‘‘۔اے بی اعوان ’’مئی 1956ء‘‘ ۔ ایم شریف خان ’’مئی 1958ء‘‘ ۔
ایس ڈی قریشی ’’جولائی 1963ء‘‘ ۔ میاں بشیر احمد ’’جولائی 1968ء‘‘ ایم انور
آفریدی ’’اپریل 1970ء‘‘ ۔صاحبزادہ رؤف علی آفریدی ’’اکتوبر 1972ء‘‘ راؤ عبد
الرشید ’’اگست 1974ء‘‘ ۔ عطا حسین ’’اپریل 1976ء‘‘ ۔ چودھری فضل حق ’’مارچ
1977ء‘‘ ۔ ایم عارف ’’جولائی 1977ء‘‘۔ مسرور حسین ’’ستمبر 1977ء‘‘ ۔ حبیب
الرحمان خان ’’فروری 1978ء‘‘ ۔ ایم اعظم قاضی ’’جولائی 1979ء‘‘ ۔ عبید
الرحمان خان’’نومبر 1980ء‘‘ ۔لئیق احمد خان’’جون 1981ء‘‘ ۔ حافظ ایس ڈی
جامی ’’ستمبر 1985ء‘‘ ۔ نثار احمد چیمہ ’’اگست 1987ء‘‘ ۔ منظور احمد ’’مارچ
1989ء‘‘ ۔ سردار ایم چوہدری ’’جون 1991ء‘‘جی اصغر ملک ’’جون 1993ء‘‘ ۔ ایم
عباس خان ’’جولائی 1993ء‘‘ ۔ ذو الفقار علی قریشی ’’اگست 1996ء‘‘ ۔ چوہدری
ایم امین ’’نومبر 1996ء‘‘ ۔ جہانزیب برکی ’’مارچ 1997ء‘‘ ۔ ایم رفیق حیدر
’’اکتوبر 1999ء‘‘ ۔ ملک آصف حیات ’’جون 2000ء‘‘ ۔ سید مسعود شاہ ’’دسمبر
2002ء‘‘ ۔ سعادت اﷲ خان’’اپریل 2004ء‘‘ ۔ضیاالحسن خان ’’جون 2005ء‘‘ ۔ احمد
نسیم ’’دسمبر 2006ء‘‘ ۔ شوکت جاوید ’’اپریل 2008ء‘‘ ۔ خالد فاروق ’’فروی
2009ء‘‘ ۔ طارق سلیم ’’اپریل 2009ء‘‘ ۔ جاوید اقبال ’’جنوری 2011ء‘‘ ۔ حاجی
ایم حبیب الرحمان ’’فروری 2012ء‘‘ ۔ آفتاب سلطان ’’اپریل 2013ء‘‘ ۔ خان بیگ
’’مئی 2013ء‘‘ ۔ مشتاق احمد سکھیرا ’’جون 2014ء‘‘ ۔کیپٹن (ر) ایم عثمان
’’اپریل 2017ء‘‘ ۔ کیپٹن (ر) عارف نواز خان ’’جولائی 2017ء‘‘ ۔ ڈاکٹر سید
کلیم امام ’’جون 2018ء‘‘ ۔ ایم طاہر ’’ ستمبر 2018ء‘‘ ۔ امجد جاوید سلیمی
’’اکتوبر 2018ء‘‘ ۔ کیپٹن (ر) عارف نواز خان ’’ نومبر2019‘‘ ۔ ڈاکٹرشعیب
دستگیر ’’ ستمبر2020ء ۔ انعام غنی اب سربراہ پنجاب پولیس ذمہ داریا ں
سرانجام دے رہے ہیں۔
بتایا جاتاہے کہ نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) انعام غنی کا شمار
پولیس کے انتہائی پروفیشنل، منجھے ہوئے اور تجربہ کار بہترین افسران میں
ہوتا ہے۔ انعام غنی گزشتہ دنوں ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ پنجاب کے عہدے پر
فرائض سر انجام دے رہے تھے۔انعام غنی اس سے قبل ایڈیشنل آئی جی آپریشنز
پنجاب، سی پی او کے عہدے پر بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق خیبر
پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ سے ہے۔1989ء میں بطور اے ایس پی پولیس سروس
پاکستان جوائن کی۔ ان کا تعلق پولیس سروس آف پاکستان کے سترہویں کامن سے ہے۔
کیرئیر کے آغاز میں انعام غنی نے CSA اور نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد
میں خدمات سرانجام دیں۔اے ایس پی پیپلز کالونی فیصل آباد، اے ایس پی سٹی
فیصل آباد، اے ایس پی نواں کوٹ اور لاہور کے عہدوں پر فرائض سر انجام دئیے۔
ایس ایس پی آپریشنز پشاور، ایس پی ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد اور ایس ایس پی
سکیورٹی اسلام آباد کے عہدوں پر بھی فرائض سر انجام دئیے۔ ڈی پی او ہری پور،
ڈی پی او کرک، ڈی پی او صوابی، ڈی پی او مانسہرہ اور ڈی پی او چارسدہ کے
عہدوں پر فرائض ادا کئے۔ نئے آئی جی ایف آئی اے اور آئی بی میں بھی انتہائی
اہم عہدوں پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ایو این مشن موزمبیق، آفیسر آن
سپیشل ڈیوٹی امریکہ اور ایمبیسی آف پاکستان کویت میں بھی فرائض سر انجام
دئیے۔
دوسری جانب آئی جی پنجاب انعام غنی اور سی سی پی او لاہور محمد عمرشیخ کی
تعیناتی پر پہلے سیاسی اور اپوزیشن جماعتوں کو اعتراض تھا اب موجودصورت حال
میں پنجاب کے عوام بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں مسلم
لیگ (ن) نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب کا تبادلہ لاہور ہائیکورٹ
میں چیلنج کردیا۔عدالت عالیہ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک محمد احمد خان
کی جانب سے درخواست دائر کی گئی۔مذکورہ درخواست میں وفاقی اور صوبائی حکومت،
موجودہ آئی جی انعام غنی، سابق آئی جی شعیب دستگیر، ایڈیشنل آئی جی پی
آپریشنز ذوالفقار حمید اور کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور محمد
عمر شیخ کو فریق بنایا گیا ہے۔لیگی رہنما کی دائر کردہ درخواست میں مؤقف
اپنایا گیا کہ آئی جی پنجاب کا تبادلہ پولیس رولز کی خلاف ورزی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب پولیس سمیت تمام محکموں کی بہتری کیلئے
اقدامات کرنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہیں شامل ہے ۔ اچانک حادثات میں اضافے
اورسانحہ لاہور سیالکوٹ موٹروے کے بعد ’’ بزدارتیراپنجاب غیر محفوظ ہوگیا
ہے ‘‘ ۔موجودصورت حال سے نمنٹے کیلئے پنجاب حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں
گے ۔
|