اترپردیش کی سیاست میں کانگریس اور کانگریس میں سیاست

غلام نبی آزادایوان بالہ میں کانگریس کے لیڈر اور سرکردہ رہنما ہیں ۔ پچھلے دنوں اچانک ان کے اندر کی آزاد آتما بیدا ر ہوئی اور انہوں کانگریس ورکنگ کمیٹی سمیت تنظیم کے اہم عہدوں کے لئے انتخابات کا مطالبہ فرما دیا۔ انہوں نے یہ انقلابی انکشاف فرمایا کہ کانگریس کے مقرر صدر کو ایک فیصد بھی حمایت حاصل نہیں ہوسکتی ۔ ان کے خیال میں یہ کام 10-15 سال پہلے ہونا چاہئے تھا۔ اسی وجہ پارٹی ایک کے بعد دوسرے انتخابات ہار رہی ہے اور اگر اگلے 50 سال اپوزیشن میں بیٹھنا چاہتی ہے تو پارٹی کے اندر انتخابات کی ضرورت نہیں ہے۔آزاد کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کانگریس پارٹینے انتخاب تو نہیں کرائے لیکن سونیا گاندھی نے تنظیم میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے غلام نبی آزاد ، امبیکا سونی ، موتی لال ووہرا اور ملکا ارجن کھڑگے کو جنرل سکریٹری کے عہدہ سے ہٹا دیا ہے ۔ کانگریس کے بڑے رد و بدل میں ان 23 رہنما وں کےجو بہت اونچی اڑان بھرنے کی کوشش کررہے تھے پر کتر کر انہیں لیڈروں کو حاشیے پر کردیا گیا ہے۔ یہ بی جے پی ، کانگریس اور ہرجمہوریت نواز سیاسی جماعت کا معمول ہے ۔ کانگریس کی یہ ساری اٹھا پٹخ اتر پردیش کے پیش نظر ہے کیونکہ دہلی کے اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گزرتا ہے۔
ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ اتر پردیش ہے ۔ آج جو قومی منظر نامہ نظر آرہا ہے اس کی بنیادی وجہ اترپردیش میں کانگریس کا حاشیے پر پہنچ جانا اور بی جے پی کا صوبائی سیاست پر غالب آجانا ہے۔ اس کے لیے کوئی خاص چانکیہ نیتی نہیں بلکہ اتفاق سے پیدا ہونے والے سیاسی حالات ذمہ دار ہیں جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوتا چلا گیا اور کانگریس خسارے میں جاتی چلی گئی۔ ۱۹۸۹ میں این ڈی تیواری اترپردیش میں کانگریس کے آخری وزیر اعلیٰ تھے اور اس کے بعدصوبے میں اقتدار کانگریس کے لیے ایک خواب بن گیا۔یہ اور بات ہے آگے کے پندرہ سالوں میں کانگریس نے مرکز میں حکومتکی اوراتر پردیش کی علاقائی جماعتیں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی اس کی حلیف بنی رہیں ۔ ان کی ناراضی سے بچنے کے لیے کانگریس اپنی جڑ مضبوط کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۰۱۷ کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کو سماجوادی پارٹی کے ساتھ الحاق کے باوجود صرف ۷ نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا اور ۲۰۱۹ میں راہل گاندھی امیٹھی کی سیٹ بھی ہار گئے ۔ نرسمہا راو نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر شمالی ہندوستان میں کانگریس کو کمزور کرنے کی جو ابتدا کی تھی یہ اس کی انتہا تھی۔

آگے چل کر سونیا گاندھی نے بڑے احتیاط کے ساتھ سیکولر طاقتوں کو ناراض کیے بغیر بھانمتی کا کنبہ جوڑا لیکن چونکہ اس وقت متحدہ آندھرا پردیش ، مہاراشٹر ،کرناٹک اور آسام وغیرہ سے اس کے اچھی خاصے ارکان منتخب ہوجایا کرتے تھے اس لیے اترپردیش کے حلیفوں کی مدد سے بات بن جاتی تھی۔ اب چونکہ جنوب اور مشرق کے صوبوں میں علاقائی جماعتیں اور بی جے پی طاقتور ہوگئی ہے اس لیے کانگریس کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے اور اس نے دوسروں کی پروا کیے بغیر اتر پردیش کو اپنی توجہات کا مرکز بنانا شروع کردیا ہے۔ اترپردیش میں کانگریس کے زوال کی اولین وجہ مسلمانوں کی اس سے کنارہ کشی تھی جس نے آگے چل کر برہمنوں کو بھی اس سے دور کردیا ۔ اب ہوا کا رخ بدلنے لگا ہے۔

ہندوستانی سیاست کی ایک سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ مسلمانوں کی خوشنودی کے لیے راجیو گاندھی نے شاہ بانو کے معاملے میں آئینی ترمیم کروائی اور اس کے جواب میں رام مندر کی تحریک چل پڑی جس کے نتیجے میں بی جے پی برسرِ اقتدار آگئی ۔ یہ جھوٹ اتنی بار بولا گیا کہ ہر کس و ناکس اس پر اعتبار کرنے لگا۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ 1964 سے وشوہندو پر یشد نےرام مندر کی تحریک کا آغاز کیا اور کافی کچھ ماحول سازی کے بعد 1983میں ایک ملک گیر ایکاتمتا یاترا نکالی جس میں گنگا جل تقسیم کیا گیا اور بھارت ماتا کا نقشہ دکھا کر ہندووں کو منظم کرنے کی سعی کی گئی۔ اس کے بعد رام کی مورتی کو سلاخوں کے پیچھے دکھا کر آزاد کرنے کا مطالبہ شروع ہوگیا۔ بی جے پی نے وی پی سنگھ کے منڈل کا مقابلہ کرنے کے لیے کمڈل تھام کر رام مندر کی خاطر رتھ یاترا نکالی ۔

وزیر اعظم راجیو گاندھی نے یکم فروری 1986 کو ہندووں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پانڈے کے ذریعہ سازش کرکے بابری مسجد کا تالہ کھلوا دیا ۔ اس فیصلے نے اترپردیش کے مسلمانوں کو کانگریس سے بدظن کردیا اور 15فروری کو اس کے خلاف بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ مسلمانوں کی اس ناراضی کو دور کرنے کے لیے راجیو گاندھی نے 31 جولائی 1986 کو شاہ بانو کیس کے فیصلے کو آئینی ترمیم کی مدد سے بدل دیا ۔ حقیقت میں مسلمانوں کی منہ بھرائی کے جواب میں رام مندر تحریک نہیں چلی تھی بلکہ ہندووں کی بیجا خوشنودی کے جواب میں پیدا ہونے والی بے چینی کے ردعمل میں آئینی ترمیم کی گئی تھی۔ خیر اگلے الیکشن کے قبل راجیو گاندھی نے این ڈی تیواری کے ذریعہ شیلانیاس کرواکر مسلمانوں کو اور بھی دور کرکے سماجو ادی کی جانب دھکیل دیا۔ دلت پہلے ہی بہوجن سماج پارٹی کی آغوش میں جاچکے تھے ۔ برہمنوں نے سوچا اب اس ڈوبتے جہاز میں رہنے کا کیا فائدہ اس لیے وہ بی جے پی میں کود گئے۔ اس طرح کا نگریس کی جو درگت ہوئی وہ اب بھی ہے۔
اس کے بعد وی پی سنگھ ، چندرشیکھر، نرسمھاراو ، دیوے گوڑا ، گجرال ، واجپائی ،منموہن سنگھ اور نریندر مودی وزیراعظم بنتے رہے لیکن گاندھی خاندان کے ہاتھ اقتدار سے محروم ہی رہا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس قدر طویل عرصے تک کانگریس اور گاندھی پریوار کے اقتدار سے دور رہنے کے باوجود اس کا نام سنتے ہی بی جے پی کی نانی مرجاتی ہے ۔ مودی اور امیت شاہ ملک کے سارے مسائل کے لیے اٹھتے بیٹھتے نہرو اوران کی اولاد کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ وہ 31سال سے اقتدار سے دور ہے۔کانگریس نے اس سے قبل اترپردیش کے حوالے سے جو حکمت عملی اختیار کررکھی تھی ایسا لگتا ہے کہ اب اس میں بنیادی قسم کی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ سال لوک سبھا انتخابات کے وقت کانگریسسابق صدر راہل گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ ان کی بہن پرینکا گاندھی واڈرا کو اترپردیش میں کانگریس کی سوکھی جڑوں کی آبیاری کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس بیان میں کانگریس کی جڑوں کے سوکھنے کا اعتراف بہت اہم بات تھی ۔
اس کے بعد یہ چیز حقیقت بن گئی کہ یوگی ادیتیہ کی نااہلی اور بدانتظامی کے خلاف اتر پردیش میں سب سے زیادہ طاقتور آواز پرینکا گاندھی ہی کی بن گئی۔ دلتوں پر ہونے والے مظالم ہوں یا سی اے اے خلاف یوگی کی دھاندلی پرینکا نے ہر بار کھل کر مذمت کی ۔ مہاجر مزدوروں کا معاملہ ہو یا کفیل خان پرینکا کا بیان بہت صاف اور واضح حمایت میں سامنے آیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جس طرح دیگر سیاسی جماعتیں ہندو رائے دہندگان کی ناراضی کے خوف سے مظلموم مسلمانوں کی حمایت سے کنی کاٹ رہی ہیں کم ازکم پرینکا اس سے ابھر چکی ہیں ۔ اسی لیے انہوں نے کفیل خان کی اہلیہ شائستہ خان سے بات کرکے اپنے تعاون کا تیقن دلایا ۔ پچھلے سال راہل گاندھی نے اپنے بہن پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ پارٹی سال 2022 کے اسمبلی انتخابات کے بعد حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرے گی۔اتر پردیش کے صوبائی انتخاب کو دوسال سے زیادہ کا وقت باقی ہے لیکن پارٹی نے ابھی زمینی سطح پر اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کردیا ہے۔

اس دوران کانگریس کے اندر ایک بہت بڑا تنازع ابھر کر سامنے آگیا ۔ ہوا یہ کہ کانگریس کے ۲۳ پرانے رہنماوں نے پارٹی کے صدر کو ایک خط لکھا جس میں تنظیم نو اور داخلی انتخاب جیسی باتیں تھیں اور بین السطورجمہوری طور انتخاب کروا کر گاندھی خاندان سے باہر کسی فرد کو پارٹی کی کمان سونپنے کا مشورہ دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد سونیا گاندھی نے استعفیٰ دیا اور انہیں واپس لینے کے لیے مجبور کیا گیا وغیرہ۔ اس بیچ راہل گاندگی کا یہ تبصرہ سامنے آیا کہ یہ بی جے پی کے اشاررے پر ہوا ہے۔ اس نے غلام نبی آزاد اور کپل سبل کو بے چین کردیا لیکن بعد میں کپل سبل نے یہ لکھ کر اپنا ٹویٹ واپس لے لیا کہ انہیں خود راہل نے کہا کہ ایسی بات نہیں کہی گئی ۔ اس کے بعد کانگریس کے اندر جمہوریت اور وراثت کی پرانی بحث چھڑ گئی ۔ حزب اختلاف نے یہ قیاس آرائی شروع کردی کہ پارٹی ٹوٹ جائے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

اس بحث کے دوران جو سوالات اٹھے وہ اہم ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کانگریس میں انتخاب ہو اور غیر گاندھیائی صدر کو کمان سونپی جائے ۔ یہ دونوں باتیں فی الحال بیک وقت ناممکن ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ قومی سطح پر فی الحال نریندر مودی کے بعد سب سے مقبول رہنما راہل گاندھی ہے ۔ اس لیے کانگریس میں اگر انتخاب ہوگا تو وہی صدر بنیں گے۔ ہندوستان کی سیاسی جماعتوں میں فی الحال جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ہر سیاسی جماعت کا ایک مالک ہے اور سارا کچھ اسی کی مرضی سے ہوتا ہے ۔ امیت شاہ کو پارٹی کا صدر ان کی صلاحیت کی بناء پر نہیں بلکہ مودی جی کی وفاداری اور مہربانی کے سبب بنایا گیا۔ فی الحال وہ صدر نہیں ہیں لیکن جس طرح ایک ویڈیو میں انہوں نے جے پی نڈا کو بازو پکڑ کر پیچھے کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جے پی نڈا اپنی مرضی سے ایک مکھی بھی نہیں مارسکتے۔ بہار کا انتخاب ہو یا بنگال کی تیاری سب کچھ امیت شاہ کے ذریعہ ہی ہوتی ہے ۔ اس لیے بی جے پی سمیت ہر جماعت میں آمریت ہے اور جمہوریت کی بات خام خیالی ہے۔

کانگریس میں جن لوگوں نے خط لکھا وہ یقیناً کانگریس کے وفادار لوگ ہیں اور ان کی بڑیخدمات رہی ہیں لیکن اب ان کا وقت نکل گیا۔ وہ اپنے آپ کو وقت کے ساتھ نہیں بدل سکتے اس لیے اب ان کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ نریندر مودی نے ہندوستان کی سیاست میں اپنے بزرگوں کو مارگ درشک منڈل کا راستہ دکھا کرسے شرافت کا گلا گھونٹ دیا ۔ اب اس کا جواب دینے کے لیے ’چوکیدار چور‘ ہے کہنے والے رہنما کی ضرورت ہے ۔ یہ لب و لہجہ پرانے کانگریسیوں نے گلے سے نہیں اترتا ۔ اس لیے وہ راہل کو اب بھی بچہ سمجھ کر سمجھاتے رہتے ہیں حالانکہ راہل اب بچے نہیں ہیں ۔ اسی وجہ سے ان بزرگوں کے درمیان راہل گاندھی کا دم گھٹتا ہے۔ کانگریس کے اندر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ سارے لوگ جو اسکی حالیہ خستہ حالی کے لیے نادانستہ طور پر ذمہ دار ہیں اگر ازخود سبکدوش نہ ہو ں تو مشکلا ت ہوں گی۔ وہ اپنے آپ مشوروں تک محدود کرلیں یہی پارٹی کےحق میں بہتر ہے ۔

یوپی کانگریس نے 2022 کے اسمبلی انتخابات کے لئے حال میں نئی کمیٹیوں کو تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ اس میں نیا خون شامل کرنے کی خاطر راج ببر اور جتن پرساد جیسے لوگوں کو باہر رکھا گیا ۔ اتر پردیش میں اجے کمار للو ایک تیز طرار رہنما ہیں وہ ہمیشہ میدانِ عمل میں رہتے ہیں ۔ اقلیتی سیل کے ذمہ دار شہنواز عالم نے کھل کر ڈاکٹر کفیل کے لیے مہم چلائی فی الحال کانگریس کو ایسے ہی رہنماوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے نزدیک آج کل مینوفیسٹو ایک رسمی سی چیز بن کر رہ گئی ہے لیکن کانگریس نے اس کی تیاری کا کام سابق وفاقی وزیر سلمان خورشید کی کمیٹی کے حوالے کیا ہے جو اس کی سنجیدگی کا ثبوت ہے ۔ اس کمیٹی میں پی ایل پنیا،ارادھنا مشرا مونا، وویک بنسل، سوپریا سری نیٹ،اور امیتابھ دوبے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ توسیع کار کے لیے رکن سازی کمیٹی ،کارکنان تربیت کی کمیٹی اور پنچایتی راج الیکشن کی کمیٹی کے ساتھ ذرائع ابلاغ ایڈوائزری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ یہ لوگ اگر حقیقی معنیٰ میں کام کریں گے تو یقیناً زمینی سطح پر اس کا اثر نظر آئے گا۔

اس سے بہت پہلےکانگریس کی مجلس عاملہ نے قانون ساز پارٹی کے لیڈر اجے کمار للو کو اتر پردیش کانگریس کا صدر منتخب کیاتھا جن کا تعلق ویشیہ سماج سے ہے اور وہ دوسری مرتبہ بی جے پی کے جگدیش مشرا کو شکست دے کر کامیاب ہوئے ہیں۔للو مختلف عوامی مسائل کے خلاف ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں اور کورونا کے دوران بھی کئی ہفتہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ کانگریس کو اب سوشیل انجینیرنگ کا مطلب بھی سمجھ میں آنے لگا ہے اس لیے اس نے اپنی کمیٹی میں تقریباً 45 فیصدپسماندہ ذات لوگوں پر توجہ دی ہے۔ دلت آبادی کو تقریباً 20 فیصد نمائندگی ملی ہے اور مسلم قیادت تقریباً 15 فیصد ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ کانگریس کا ارادہ اب صرف گاندھی نہرو کے نام پر سیاست کرنے کا نہیں ہے۔ کانگریس اگر کسی بیساکھی کے بغیر اگر اترپردیش میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں ہے۔ براہمن اور مسلمان پھر ایک بار اس کی جانب متوجہ ہورہے ہیں ۔ شہری علاقہ کی نوجوان یوگی اور مودی کے مقابلے راہل اور پرینکا کی جانب کشش محسوس کرسکتی ہے اس لیے کانگریس اپنے بل بوتے پر اتر پردیش کے راستے دہلی کا سفر شروع کرنا چاہیے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218620 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.