وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کی 70 ویں سالگرہ کے مبارک
موقع پر بہترین تحفہ این ڈی اے کی سب سے قدیم حلیف شرومنی اکالی دل کی جانب
سے ملا۔ اتفاق سے اس جماعت کا مخفف (SAD) بنتا ہے اور اس کی رکن پارلیمان
اور مرکزی وزیر ہرسمرت کور بادل نے کسان بل کی مخالفت میں حکومت سے استعفی
دے دیا ۔ اس کو صدر مملکت نے شرف قبولیت سے نواز کر یہ ثابت کردیا کہ
اقتدار کے نشے میں بد مست مودی سرکار اپنے حریفوں کے ساتھ ساتھ اپنے حلیفوں
سے بھی بے نیاز ہوچکی ہے۔ اس سے قبل شیرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر
سنگھ بادل نے لوک سبھا میں ہرسمرت کور کے استعفی کا اشارہ دیا تھا لیکن وہ
بھی’مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر‘ کے زمرے میں چلا گیا ۔ سکھ بیر
نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی کسانوں کے مفادات کیلئے کچھ بھی قربان کرسکتی ہے
۔ وہ حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے زراعت سے وابستہ تین بلوں کی
مخالفت کررہے تھے اور مرکز سے کسانوں کی تشویش کو دور کرنے کی اپیل کررہے
تھے لیکن اس موٹی چمڑی والی سرکار کی کان پر جوں کہاں رینگتی ہے؟
بادل نے مرکزی حکومت سے اپیل کی تھی کہ زراعت سے متعلق پیش کردہ تینوں بلوں
پر جب تک کسان تنظیموں ، کسانوں اور مزدوروں کے سبھی اعتراضات کو ختم نہیں
کیا جاتا ہے ، اس وقت تک انہیں پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش نہیں کیا
جائے مگر اکثریت کے نشے میں چوریہ حکومت من مانی کرنے پر تلی ہوئی ہے اور
بہت جلد اسے اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی ۔اکالی دل کو یہ انتہائی قدم
اس لیے اٹھانا پڑا کہ مرکزی حکومت کے تینوں زرعی آرڈیننس کے خلاف کسان
گزشتہ ایک ہفتے سے سڑکوں پر اترا ہوا ہے۔ یہ احتجاج اگر صرف پنجاب کی حد تک
ہوتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ پنجاب کی کانگریسی حکومت اس کو شئے دے رہی ہے
لیکن ہریانہ میں تو بی جے پی کی سرکار ہے اس کے باوجود کروکشیتر میں ۱۱
ستمبر ۲۰۲۰ کے روز ہزاروں کسان سڑکوں پر نکل آئے۔ کسانوں کا یہ عظیم
احتجاج بھارتیہ کسان یونین اور دیگر کسان تنظیموں نے منظم کیا اور
کوروکشیتر کے پپلی میں قومی شاہراہ پر جام لگادیا۔بھارتیہ کسان ایسوسی ایشن
کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ کوروکشیتر
کے پولیس سپرنٹنڈنٹ آستھا مودی نے مظاہرین پر قومی شاہراہ کو جام کر نے کے
بعد پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کرنے کا الزام بھی لگایا۔ آگے چل کر کھٹر
سرکار نے کسان رہنماوں سے گفت و شنید کی جو ناکام ہوگئی۔
ہریانہ میں اگر کسان سڑکوں پر اترتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ پنجاب کا کسان
اپنے گھروں میں سویا رہے اس لیے کہ دونوں مقامات پر نہ صرف مسائل یکساں ہیں
بلکہ بیداری کی سطح بھی برابرہے۔ ۱۲ ستمبر کو پنجاب کی کسان مزدور جدوجہد
کمیٹی نے کوویڈ 19 قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ضلع ترن تارن میں دھرنا
دیا ۔ یہ احتجاج مرکز ی اور ریاستی دونوں حکومتوں کے خلاف تھا ۔ اس میں یہ
سنگین الزام لگایا گیا کہ حکومت مظاہرین کی صدائے احتجاج کو دبانے کے لیے
وبائی مرض کابہانہ بنا رہی ہے۔ پنجاب کی کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ سرکار
کی کسان مخالف حکمت سے ہونے والا نقصان کوویڈ 19 کے مقابلے میں زیادہ
خطرناک ہے۔ وہ لوگ مرکز کے فارم آرڈیننس کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھنے کے
لیے سماجی دوری کے اصولوں کو پامال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے لیے پنجاب
کے نو اضلاع میں عظیم الشان دھرنوں کا اہتمام کیا جاچکاہے ۔ان میں شامل اور
قیادت کرنے والے بچے اور خواتینماسک لگانے کی زحمت بھی نہیں کرتے ۔ یہ
دراصل انتہائی غم و غصے کی علامت ہے جس میں انسان اپنی جان کی پروا بھی
نہیں کرتا۔
انڈین ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ ستنم سنگھ پنّو نے کہا
’’جب سے حکومت نے مارچ میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے، ہم اپنی خواتین اور
بچوں کے ساتھ نو اضلاع میں مسلسل مظاہرے کررہے ہیں اور تب سے ہی ہم نے کوئی
ماسک نہیں پہنا ہے… حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہمارے دھرنے کسی بھی کوویڈ
اصولوں پر عمل کیے بغیر معمول کے مطابق جاری رہیں گے۔‘‘ ویسے تو احتجاج
ابھی منظر عام پر آئے مگر یہ سلسلہ کئی ماہ سے جاری ہے ۔ مظاہرین کا الزام
ہے کہ ہماری حکومتیں انھیں زراعت کے میدان سرمایہ داروں کے داخلہ کی حمایت
کر رہی ہیں تاکہ کاشت کاروں کا استحصال ہوسکے۔ وہ پہلے تین زراعت کے
آرڈیننس کے ذریعے تجارت میں داخل ہوں گے اور پھر وہ کسانوں کو اپنی زمین
بیچنے پر مجبور کریں گے۔کیرتی کسان یونین کے صدر نربھیر سنگھ دوڈائیک نے
کہا کہ کورونا وائرس کے خوف سے مرکز کے آرڈیننس کے خلاف احتجاج ختم کرنے کا
مطلب یہ ہوگا کہ گندم اور دھان آدھے ایم ایس پی ریٹ پر بیچے جائیں اور ان
فصلوں کی ذخیرہ اندوزی کرنے کی اجازت دی جائے جو پہلے ممنوع تھی۔‘‘وزیراعظم
بڑے فخر سے آپدا کو اوسر(مشکل کو موقع) میں بدلنے کی بات کرتے ہیں ۔ اس کا
حوالہ دیتے ہوئے بی کے یو اگرہن کے جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ کہتے ہیں
وبائی بیماری ایک خطرہ ہے، لیکن حکومت اسکا فائدہ اٹھاکر نجکاری کو فروغ دے
رہی ہے ۔
ہریانہ اور پنجاب کے کسان فی الحال منڈیوں اور کسانوں سے متعلق مرکزی حکومت
کے تین حکمناموں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت اپنے جن فیصلوں کو
کسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے انقلابی قرار دے رہی ہے کسان اس کو سرمایہ
داروں کی حمایت سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کے اندر شدید غم و غصہ پایا جاتا
ہے۔ اس سے پہلے کسانوں کی فصل صرف منڈی سے خریدی جاسکتی تھی لیکن اب نئی
ترمیم کے مطابق تاجر کسانوں کی فصل کو مارکیٹ کے باہر بھی خرید سکیں گے۔
ظاہر ہے اس سے کسانوں کا استحصال بڑھے گا ۔ اسی کے ساتھ مرکز نے دال، آلو،
پیاز، اناج، خوردنی تیل وغیرہ کو ضروری اجناس کے دائرے سے خارج کرکے اپنی
اسٹاک کی حد ختم کردی ہے۔ اس سے حکومت کسانوں کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم
پر چھوڑ دے گی ۔ ان کے علاوہ، مرکزی حکومت نے معاہدہ سازی کو فروغ دینے کی
پالیسی پر بھی کام شروع کیا ہے، جس سے کسانوں میں عدم تحفظ کے احساس نے سخت
ناراضی پیدا کی ہے۔ ان سنجیدہ امور پر کسان مظاہرے کررہے ہیں اور سرکار
اپنی من مانی پر تلی ہوئی ہے۔ ہر سمرت کور کو توقع تھی کہ ان کے استعفیٰ
حکومت کی عقل ٹھکانے آئے گی لیکن افسوس کہ وہ کوشش بھی ناکام رہی ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکار یہ احمقانہ اقدام ایک ایسے وقت میں کر رہی ہے
جبکہ اپریل سے جون کی سہ ماہی میں جی ڈی پی 23.9 فیصد گھٹ گئی ہے جبکہ
پچھلے سال اس دوران وہ 5.2 فیصد بڑھی تھی۔ اس کے معنیٰ جی ڈی پی 35.5لاکھ
کروڈ سے گھٹ کر 26.9لاکھ کروڈ پر آگئی ہے اور 8.45لاکھ کروڈ کا خسارہ
ہوچکا ہے۔ ملک کے جن آٹھ شعبوں کا جائزہ لیا گیا ان میں سے صرف زراعت ایک
ایسا شعبہ ہے جس میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور جو جی وی اے(GVA) کا 3.4
فیصد ہے یعنی ان تین مہینوں میں زراعت نے 14815 کروڈ روپیوں کا منافع کرکے
دکھایا ہے۔ آر بی آئی نے زراعت میں 4فیصد اضافہ کی توقع کی ہے جو مجموعی
بڑھوتری میں 15.2فیصد بن جاتا ہے جبکہ صنعتی اضافہ صرف 4.7فیصد ہے ۔ اس طرح
۷ برس کے بعد پہلی بار زراعت نے صنعت کو مات دی ہے ایسے میں کسانوں کو
انعام دینے کے بجائے حکومت ان کو سزا دینے پر تلی ہوئی ہے ۔ وہ بھول گئی ہے
کہ اگر کسان سزا دینے پر آئیں گے تو اسے دن میں تارے نظر آنے لگیں گے۔
ملک میں دہقانوں کی ایک بڑی تنظیم بھارتی کسان یونین (بی کے یو) کے ہریانہ
میں ریاستی صدر گرنام سنگھ چڑونی نے اپنی احتجاجی تحریک کے خدو خال ظاہر
کردیئے ۔ انہوں نامہ نگاروں کو بتایا کہ زراعت سے متعلق بلوں کی مخالفت میں
20ستمبر کو چکا جام کیا جائے گا ۔ اسی کے ساتھ چڑوانی نے 25 ستمبر کو بند
کرنے کی اپیل بھی کی ہے ۔ بھارتیہ کسان یونین نے 27 ستمبر کو قومی سطح کا
اجلاس طلب کیا گیا ہے تاکہ اس تحریک کو پورے ملک پھیلانے کے لیے حکمت عملی
وضع کی جائے اور ملک گیر سطح پر یکساں مطالبات پیش کیے جائیں ۔ آر ایس ایس
نے برسوں کی محنت کرکے بھارتیہ کسان سنگھ کے نام کی ایک بڑی تنظیم کھڑی
کردی ہے لیکن مودی حکومت اب سرمایہ داروں کو خوش کرنے کے لیے اسی شاخ کو
کاٹ رہی ہے جس پر چڑھ کر اس نے اقتدار کے گلیارے میں چھلانگ لگائی تھی ۔ ان
زرعی بلوں پر بھارتیہ کسان سنگھ نے بھی شدید اعتراضات کیے ہیں مگر وہ
بیچارے اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کی ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں ۔ ان
کا مطالبہ تھا کہ اس بل کو منظور کرنے میں جلدی نہیں مچائی جائے ۔ جون میں
چونکہ آرڈیننس آیا ہے اس لیے سرکار کے پاس دسمبر تک کا وقت ہے اس لیے اسے
ایوان پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کردیا جائے یعنی دوسرے معنیٰ
میں ٹال دیا جائے ۔
ایک ماہ قبل ۱۹ اگست 2020 کو بی کے ایس کے جنرل سکریٹری بدری نارائن چودھری
نے وزیر اعظم اور وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کوخط لکھ کر اپنے اعتراضات
درج کرائے تھے۔ انہوں نے صاف طور سے لکھا تھا کہ اس بل سے کسانوں کے مقابلے
خریداروں کا فائدہ ہوگا۔ بی کے ایس کے سکریٹری نے کئی مثالیں پیش کیں جن
میں خریداروں نے کسانوں کو بقایہ جات ادا نہیں کیے ۔ اپنی بات منوانے کے
لیے بی کے ایس نے 12ہزار کسانوں سے وزیر اعظم کو خط لکھوائے اور ان لوگوں
نے 350ارکان پارلیمان سے ملاقات کرکے انہیں اس بل کی منظوری کے خلاف تیار
کرنے کی سعی کی لیکن مودی جی کے اڑیل رویہ نے اس تمام کوششوں پر پانی پھیر
دیا۔ جو لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ سرکار ناگپور سے چل رہی ہے ۔ آر ایس
ایس اس کو چلارہی ہے ان کے لیے اس واقعہ میں تازیانۂ عبرت ہے۔ قرین قیاس
یہی ہے کہ اس حکومت کو مٹھی بھر سرمایہ دار مودی اور شاہ کی مدد سے چلارہے
ہیں اور یہ لوگ دیگر جماعتوں کی طرح آر ایس ایس کو بھی بلیک میل کررہے ہیں
۔ مودی سرکار جب اقتدار سے بے دخل ہوجائے گی تو سب سے بڑا نقصان سنگھ
پریوار کا ہوگا کیونکہ وہ اپنے ساتھ آر ایس ایس کی برسوں کی بنائی ہوئی
ساکھ پر بھی پانی پھیر کر چلی جائے گی ۔
ہریانہ سے اٹھنے والا شعلہ پنجاب سے واپس لوٹ ہریانہ لوٹ آیا ہے۔ آئے دن
مہاراشٹر کی حکومت گرانے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کے سامنے ہریانہ
حکومت بچانے کا سنکٹ منڈلانے لگا ہے اس لیے کہ ہریانہ اور پنجاب میں بی جے
پی بنیا اور شہروں کے ملازم پیشہ لوگوں کی پارٹی ضرور ہے لیکن اکالی دل اور
جے جے پی تو پوری طرح کسانوں کی پارٹیاں ہیں ۔ ان کا سیاسی وجود ہی کسان
سیاست کے محور پر گھومتا ہے اس لیے موجودہ بحران نے جن نائک جنتا پارٹی کے
خیمے میں بھی کھلبلی مچا دی ہے۔ اس سربراہ اور ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ
دشینت چوٹالہ پر عہدہ چھوڑنے کا دباؤ بننے لگا ہے۔ جے جے پی کے رکن اسمبلی
دیویندر ببلی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت پارٹی کے 10 ارکان اسمبلی غیر
مطمئن ہیں۔ اس سے قبل رکن اسمبلی رام کمار گوتم بھی اس مسئلہ پر پارٹی کی
قیادت سے عدم اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں ۔ کسانوں کے احتجاج پر بی جے پی
اور جے جے پی دو انتہاوں پر کھڑے ہیں ۔ ایک طرف دشینت چوٹالہ نے لاٹھی چارج
پر جانچ کی تفتیش کرنا چاہتے ہیں تو وزیر داخلہ انیل وج نے لاٹھی چارج سے
انکار فرما دیتے ہیں ۔ اس انکار سے نالاں کسان احتجاج کرنے کے لیے ان کی
رہائش گاہ پہنچ جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر لاٹھی چارج نہیں ہوا تو جے جے
پی نے عوام سے معافی کیوں مانگی؟ دراصل بی جے پی کی مانند جھوٹ بولنا ہر
پارٹی کے بس کی بات نہیں ہے لیکن اسے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد رکھنا
چاہیے کسانوں کی یہ ناراضی شمالی ہندوستان میں کمل کے پھول کو جلا کر خاک
کردے گی ؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
|