تحریر :عائشہ یاسین، کراچی
یہ جدید دور ایک ترقی یافتہ دور ہے جہاں نوع انسانی نے ترقی کے منازل طے
کرتے کرتے وقت اور فاصلہ کو اپنے گرفت میں لے رکھا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی
کونا، ملک، شہر یا خطے تک پہنچ اب لمحوں کا فاصلہ رکھتی ہے۔ اس تیز ترین
سائنسی فنی مہارت سے ساری دنیا نے ایک گاؤں کی شکل اختیار کرلی ہے جس کو
عام فہم و زبان میں گلوبلائزیشن کے اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔
امریکا کے سابق صدر جارج بش (اول) کے پہلے دور صدارت میں ایک نیا نظام بنام
نیو ورلڈ آرڈر متعارف کرایا گیا۔ اس نظام کے مطابق کئی ایک اصطلاحات بھی
مروج ہوئیں جس میں سب سے زیادہ گلو بلائزیشن کی اصطلاح سیاسی و سماجی حلقوں
میں زیرِ بحث لائی گئی۔ پورے کراہ ارض کو ایک گلوبل ویلج کے طور پر جانا
گیاجس کے تحت دنیا ایک گاؤں کی مانند کسی ایک کی دسترس میں تھی جہاں جب
چاہیں اور جس جگہ چاہیں کم وقت میں اپنا عمل دخل جاری رکھ سکتے ہیں۔
گلوبلائزیشن ہمیشہ ریاستوں کی ’’معیشت، ثقافت، سیاست، ماحول اور فوج پر اثر
انداز ہوتی آ رہی ہے۔
دراصل گلوبلائزیشن کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ صرف ارتقا کا ایک عمل
ہے جو اپنی انتہا کی طرف فطری رفتار سے بڑھ رہا ہے، البتہ گلوبلائزیشن کے
حوالے سے دنیا میں مختلف ایجنڈوں پر کام ہو رہا ہے اور ان ایجنڈوں کا
مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ مستقبل کے گلوبل ویلج میں جو کم وبیش پوری نسل انسانی
پر محیط ہوگا، فکری اور تہذیبی قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی اور اس کا نظام
کن اصولوں پر استوار ہوگا؟ اس پر مختلف ایجنڈوں میں کش مکش جاری ہے اور اس
میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ کش مکش دنیا کے وسائل پر کنٹرول کے حوالے
سے بھی ہے، تہذیب وثقافت کی بالادستی کے نام سے بھی ہے، فکر وعقیدہ کی
برتری کے عنوان سے بھی ہے، عسکری کنٹرول اور اجارہ داری کے میدان میں بھی
ہے اور مذہب کے شعبے میں بھی ہے۔
گلوبلائزیشن کا سب سے اہم ذریعہ میڈیا ہے۔ میڈیا سے مراد اخبارات، ریڈیو،
ٹیلی ویژن اور سب سے بڑھ کر انٹرنیٹ ہے۔ یہ سیٹلائٹ کا دور ہے جہاں کوئی
بھی معلومات اور اطلاع ایک سکینڈ سے بھی کم عرصے میں دنیا کے ایک کونے سے
دوسرے کونے میں ترسیل ہوجاتی ہے۔ اس میڈیا کی ہی بدولت گلوبلائزیشن کا عمل
وجود میں آیا جس نے نا صرف ریاستی معیشت میں اپناکردار ادا کیا ہے بلکہ
کلچر پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ انٹرنیٹ نہ صرف مختلف ممالک کے اداروں
اور محکموں میں مشترکہ ترقی کرنے میں معاون ثابت ہوا بلکہ عوام میں بھی
باہمی دوستی اور رواداری کا سبب بنا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معلومات عامہ
میں بھی اضافہ کرنے کا ذریعہ بنا۔ اس ابلاغ کی ترقی نے دنیا کو ہمارے
ہاتھوں کی انگلیوں کے پور میں لا کر رکھ دیا ہے جہاں سے ہم جب چاہیں جس طرح
کا مواد چاہیں حاصل کر سکتے ہیں۔
ابلاغ کا فائدہ یہ ہوا ہمیں معاشرتی سطح پر ایک دوسرے کی تہذیب وثقافت کو
جاننے کا موقع ملا۔ جو معلومات ہمیں ٹی وی اور کتابوں کے ذریے گھنٹوں میں
میسر آتی تھی اب وہ ہماری انگلی کے اشاروں پر آگئی۔ اس سے ہمارا بہت سا وقت
جو ان معلومات کو جانچنے اور تلاش کرنے میں لگتا تھا وہ بچنے لگا۔ نہ صرف
غیر ملکوں کی رسم و رواج ہم تک پہنچنے لگے بلکہ کلچر اور معاشرے کے طور
طریقے بھی ہماری زندگیوں میں شامل ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ ہمارے میڈیا نے
بھی اپنے ملکی اور مذہبی عقائد پر ان غیر ممالک کے طور طریقوں کو ترجیح
دینا شروع کردی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ویلنٹائن، ہولی جیسے تہوار ہمارے
معاشرے میں پنپنے لگے۔ اس سارے عمل میں ہم بھول گئے کہ یہ گلوبلائزیشن ایک
سوچی سمجھی تحریک ہے ۔ یہ ایک واحد ذریعہ ہے جس کے تحت کسی بھی ملکی یا
ریاستی شعور کو نہ صرف بدلا جاسکتا ہے بلکہ اس کی ذہنی نشو ونما کرکے اس
معاشرے میں رہنے والی عوام پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
یہ اصل میں ففتھ جنریشن وار کا جز ہے جس میں میڈیا کو اس کا ہتھیار بنا کر
استعمال کیا گیا۔ گھر گھر بیٹھے افراد کو وہ مواد دکھایا گیا جو اس کے ذہنی
غلامی کے رجحان کی پرورش کرتاہے۔ اس کی ابتداء گھریلو خواتین سے کی گئی
جہاں بھارتی ڈراموں کو ہر گھر کی زینت بنایا گیا اور ہر گھر سے مندر میں
بجنے والے بھجن اور گانوں کی آوازیں آنے لگی۔ بدلے اور انتقام کے کلچر کو
پاکستان کے کلچر میں شامل کرنے کی ایک اچھی کاوش گئی۔ لباس اور زبان میں
تبدیلی اس ابلاغ عامہ کی بدولت ممکن ہوا کہ بچے جوان اس بات میں فرق کرنا
بھول گئے کہ پاکستان ان بھارتی عقائد و نظریے کے تضاد کی بنا پر حاصل کیا
گیا تھا۔
میڈیا نے اس جنگ میں لڑائی کو بے حد آسان کردیا جہاں لڑائی کے لیے نہ کوئی
ہتھیار کا استعمال کیا جاتا رہا اور نہ ہی کوئی پراکسی جنگ کا عندیہ دینے
کی ضرورت آئی۔ آہستہ آہستہ ہم اپنے مقاصد، نظریے یہاں تک کہ مذہبی امور و
عقائد کو بھی بھول بیٹھے کہ اسلام اور ہندو مذہب میں فرق کرسکیں۔
ہمارے حوالے سے مغرب کی یلغار بھی دنیا میں تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ایک
طرف مغرب کی سیکولر حکومتیں اور سیکولر لابیاں مسلم معاشرہ میں سیکولر ازم
اور لادینیت کو فروغ دے کر اور اس کے لیے اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں پوری
طرح جھونک کر ہماری نئی نسل کی دینی اساس اور فکر وعقیدہ کی بنیادوں کو
کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ عالم اسلام کے بارے میں ان کے تمام تر ایجنڈے
کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی معاشرتی زندگی میں مذہب کے کردار سے
دست بردار ہو جائیں اور مذہب کے فکر وفلسفہ کو من وعن قبول کرتے ہوئے اپنی
معاشرتی اور تہذیبی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھال لیں۔ مغرب کی سیکولر
حکومتوں اور مسیحی مشنری اداروں کو ایک دوسرے کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور
یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں باقاعدہ منصوبے اور انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ عالم
اسلام کو مغلوب کرنے کے درپے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہم سیاسی، معاشی، عسکری، سائنسی اور صنعتی وتجارتی میدانوں
میں مغرب کا مقابلہ کرنے اور اس کا راستہ روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں
لیکن فکر وفلسفہ، تہذیب وثقافت، تعلیم وتربیت اور دعوت وتبلیغ کے میدان
ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ ہمارا میڈیا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا
ہے۔ ہمارے مذہبی اقدار اور تہذیب کو فروغ کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے
کہ ہم اپنے ایمان اور عقیدے کو اپنی طاقت بناکر اپنی ملکی و قومی سالمیت کو
برقرار رکھیں۔ اپنی نئی نسل کو ان محاذ کے لیے تیار رکھیں جو آنے والوں
دنوں میں ہمیں درپیش ہوگی۔ اپنے جوانوں کو ذہنی و شعوری طور پر مضبوط اور
مستحکم بنائیں تاکہ وہ اپنی شناخت اور عقیدے کی پاسداری کرسکیں اور کسی
سازش کا شکار نہ ہوسکیں اور دنیا میں اﷲ کی راہ پر چل کر اسلام کا مربوط
نظام نافذ کرنے کا ذریعہ بن سکیں۔
|