افغانستان نے گزشتہ 23سے 40سال کے دوران بہت مشکل وقت
گذرا عالمی طاقتوں کا مرکز رہا امریکہ سمیت کئی ممالک کی افواج یہاں پر
موجود رہی اسکا شمالی علاقہ انتہائی خوبصورت ہے افغانستان میں چار دریا
بہتے ہیں لیکن اسکے باوجود پانی کی شدید قلت ہے شدید ترین مالی مشکلات کے
باوجود یہاں کے لوگ بڑی بڑی طاقتوں کے سامنے کھڑے تو ہوتے رہے مگر انکا
کوئی واحد لیڈر نہ ہونے کے باعث ایرانیوں ،یونانیوں،عربوں،ترکوں ،منگولوں ،برطانیویوں
اور روسیوں کے اس ملک پر قبضے ہوتے رہے اور آج انکی اپنی حکومت ہوتے ہوئے
بھی امریکیوں کے قبضے میں مانا جاتا ہے مگر اب امریکہ بھی یہاں سے پر امن
انخلا ء چاہتا ہے ان دنوں چیئرمین افغان مفاہمتی کونسل ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ
تین روزہ دورہ پر پاکستان میں موجود ہیں افغانستان کے پہلے چیف ایگزیکٹیو،
سابق افغان وزیر خارجہ اور صدارتی امیدوار الیکشن 2009ء اور 2014ء 1960ء کو
کابل میں پیدا ہوئے۔ نسلاً تاجک ہیں زندگی کا ایک بڑا حصہ شمالی افغانستان
کی وادی پجنشیر میں گزارا ابتدائی اور اعلٰی تعلیم کابل سے ہی حاصل کی پیشے
کے لحاظ سے ماہر چشم ہیں آپ انیس سو پچاسی میں پاکستان آئے اور پشاور کے
سید جمال الدین افغان ہسپتال میں ایک سال تک خدمات سر انجام دیں۔ اگلے سال
وہ واپس افغانستان چلے گئے اور وادی پنجشیر میں احمد شاہ مسعود نے انہیں
ایک عہدہ دیا۔ 1996ء میں کابل میں برہان الدین ربانی کی حکومت میں وزارت
دفاع کے ترجمان جبکہ طالبان کے ہاتھوں ان کی حکومت کی معزولی کے بعد وزیر
خارجہ کے طور پر کام کرتے رہے۔ دو ہزار ایک کے بعد افغانستان میں قائم ہونے
والی عبوری حکومت میں حامد کرزئی کی کابینہ کے وزیر خارجہ رہے۔ انہیں فارسی،
پشتو اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور حاصل ہے۔ 2009ء میں ہونے والے
انتخابات میں وہ صدر حامد کرزئی کے سب مضبوط حریف کے طور پر سامنے آئے اور
انتخابات میں دوسری پوزیشن پر رہے ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ آجکل پاکستان کے دورے
پر ہیں اورعلاقہ میں انکی امن کے حوالہ سے کاوشیں قابل تعریف ہیں افغانستان
میں امن علاقائی ترقی کیلئے ضروری ہے اس لیے ہمیں ایسے عناصر سے خبردار
رہنا چاہیے جن سے امن عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو جبکہ پاکستان افغان
مہاجرین کی عزت و وقار سے واپسی کا بھی خواہاں ہیں دونوں ممالک کے لیے
بہترین مستقبل کیلئے ماضی کی غلطیوں کو بھول کر آگے بڑھنا ہوگا افغان امن
مذاکرات میں پاکستان نے اہم مصالحتی کردار ادا کیا ہے اس لیے عوام کی
امنگوں کے مطابق ہمیں نئے مستقبل کی جانب دیکھنا ہے، پاکستان اور افغانستان
کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں افغانستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات
کیلیے اہم موقع ہے، امن کا قیام دونوں ممالک کیلئے اہم ہے اس کے ساتھ ساتھ
معیشت کی بہتری کیلئے دونوں ممالک میں آزادانہ تجارت کو فروغ دینا ہوگا یہ
تب ہی ممکن ہوسکے گا جب علاقہ میں مکمل امن ہوگا اور خطے میں امن افغانستان
میں امن سے مشروط ہے، افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کیلئے بہت اہم
ہے اور اس سلسلہ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز بہت اہم قدم ہے۔ عالمی
برادری بھی افغان مسئلے کے سیاسی حل کی حمایت کر رہی ہے انہیں اب جاکراس
بات کا اعتراف ہوا ہے کہ افغان مسئلہ مذاکرات سے حل ہوگا، افغان قیادت کو
قیام امن کے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اسلام آباد اور کابل کو معاملات
کے حل کیلئے آگے بڑھنا ہوگا افغان امن مذاکرات میں پاکستان نے اہم مصالحتی
کردار ادا کیاہے پاکستان اور افغانستان بھائی چارے اور باہمی احترام کے
رشتے میں جڑے ہوئے ہیں اور اقتصادی و سیاسی روابط کے ذریعے اس رشتے کو مزید
مربوط کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان پاکستان کیلئے اہم ملک ہے پارلیمانی سطح
پر دوطرفہ روابط کو بڑھانے کیلئے وسیع مواقع موجود ہیں پاکستان کی سینیٹ
اور افغان مشرانو جرگہ کے درمیان ادارہ جاتی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت
ہے خطے کے حالات کو سمجھتے ہوئے ہمیں امن وسلامتی و ترقی کیلئے مل کر کام
کرنا ہوگا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔
دہشت گردی مشترکہ چیلنج ہے جس کا مل کر مقابلہ کرناپڑے گا عوامی سطح پر
روابط کے استحکام اور پارلیمانی سفارتکاری کے ذریعے مسائل کا حل ضروری ہے
اور پارلیمانی وفود کے تبادلوں میں تیزی کے ذریعے ان مقاصد کو حاصل کیا جا
سکتا ہے افغانستان بھی اب 1990 والا ملک نہیں ہے، افغانستان تمام شہریوں کے
برابر حقوق پر یقین رکھتا ہے، افغان عوام گزشتہ 19 سال سے امن کا خواب دیکھ
رہے ہیں، پر امن بقائے باہمی کیلئے انہیں اپنے رابطوں کو فروغ دینا پڑے گا
افغان سر زمین کو کسی کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں پاکستان اور افغانستان
دونوں ممالک کو دہشتگردی، انتہا پسندی سمیت مشترکہ چیلنجز کا سامنا رہا،
دونوں ممالک میں تعاون کو مزید پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جبکہجنگ میں کسی
کی ہار یا جیت نہیں ہوتی صرف عوام کا نقصان ہوتا ہے اس لیے قیام امن کیلئے
ہمیں دیانتداری سے اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہمستقبل کا راستہ آسان بنا کر
دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات مزید مستحکم ہو سکیں چیئرمین افغان
کونسل برائے قومی مفاہمت عبداﷲ عبداﷲ نے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات
کی اور اس موقعہ پر عمران خان نے افغان امن عمل کے کامیاب نتائج کیلئے نیک
خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ امریکا، طالبان کا امن معاہدہ امن کی
کوششوں کیلئے اہم قدم تھا، امید ہے افغان قیادت اس تاریخی موقع کا بھرپور
فائدہ اٹھائے گی افغانستان میں تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ، سیاسی حل ہی
آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، خوشی ہے عالمی برادری نے ہمارے اس موقف کو
تسلیم کیاہے، عالمی برادری نے افغانستان کا امن عمل آسان بنانے میں پاکستان
کامثبت کردار بھی تسلیم کیا،جنگ بندی سے تشدد میں کمی کیلئے تمام افغان
جماعتوں کو کام کرنا ہوگا، پاکستان افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہوئے
اتفاق کی حمایت کرے گا اور تنازع کے حل کے بعد بحالی، معاشی ترقی میں بھی
حمایت جاری رکھے گا۔
|