عدالت کی ذمہ داری انصاف کی فراہمی ہے لیکن اگر اسے سیاسی
مقاصد کے حصول کا آلۂ کار بنالیا جائےتو وہی ہوتا ہے جو پچھلے کئی سالوں
سےوطن عزیز میں ہورہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بابری مسجد کا قضیہ
ہے۔گزشتہ سال اپنا متنازعہ فیصلہ سنانے سے قبل عدالتِ عظمیٰ میں دو باتیں
تسلیم کی گئی تھیں۔ پہلی تو یہ کہ 1949 میں بابری مسجد کے اندر چوری چھپے
مورتیوں کا رکھا جانا عبادت گاہ کی بے حرمتی تھا ۔ اس جرم کے ہندو گواہ
یعنی چوکیدار وغیرہ اس وقت موجود تھے ۔ عدلیہ اگر ان کی شہادت پر مورتیاں
ہٹوادیتی تو اگلے 70 سالوں تک وہاں مورتیوں کے ظاہر ہونے کا جھوٹ نہیں
پھیلایا جاسکتا تھااور وہ نفرت و عناد کا ماحول بنانا بھی ممکن نہیں تھا جس
نے ہزاروں معصوموں کی جان تلف کی اور کروڈوں ذہنوں کو مسموم کیا ۔ اس کے
علاوہ عدلیہ کو اپنے وقار کی مٹی پلید کرنے والے فیصلے بھی نہیں کرنے پڑتے۔
عدالت عظمیٰ نے یہ بات بھی تسلیم کی تھی کہ بابری مسجد کو شہید کیا جانا
ایک مجرمانہ فعل تھا۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دینے
کا مقدمہلکھنؤ سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں 28سال سے چل رہا تھا۔ 30
ستمبر2020 کوثبوتوں کی کمی کے بہانےایک اور متنازع فیصلہ میں سارے ملزمین
کو بری کردیا گیا ۔ یعنی وہی روایت قائم رہی کہ جرم تو سرزد ہوا لیکن چونکہ
سارے ثبوت مٹا دیئےگئے تھے اس لیے کسی سزا نہیں سنائی جاسکی۔ سوال یہ ہے کہ
اگر یہی کرنا تھا تو اس لمبے چوڑے ناٹک کی ضرورت ہی کیا تھیَ؟ اس عدالتی
ڈرامہ بازی پر ایک اچٹتی نگاہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ بابری مسجد کی شہادت
کے بعد بنیادی طور پر دو ایف آئی آر کی بنیاد پر مقدمات قائم کیے گئے ۔
ان میں سے ایک میں نامعلوم لوگوں پر بابری مسجد شہید کرنے کا الزام تھا ۔
مجرم کے نامعلوم ہونے کا اعلان اگر پہلے سے کردیا جائے توسزا دینے کا سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے بات ختم ہوگئی۔
دوسری ایف آئی آر ابتداء میں صرف ۸ لوگوں کے خلاف تھی ۔ اس میں بڑے حساب
کتاب سے بی جے پی کے چار اور وی ایچ پی کے چار افراد کو نامزد کیا گیا تھا
۔ بی جے پی کے لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کے علاوہ
بجرنگ دل کے صدر اور بی جے پی رکن پارلیمان ونئے کٹیار اس میں شامل تھے ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ یہ چاروں لوگ زندہ تو ہیں لیکن سب کے سب اقتدار سے
محروم بلکہ رکن پارلیمان تک نہیں ہیں، اوما بھارتی بھی ایوان بالہ میں ہیں
مگر انہیں وزارت سے محروم کیا جاچکا ہے۔ فی الحال وہ کورونا سے متاثر چل
رہی ہیں۔ وی ایچ پی کے جن چار لوگوں کو نامزد کیا گیا تھا ان میں سے صرف
سادھوی رتھمبرا حیات ہیں باقی تین پرلوک سدھار چکے ہیں ۔ جنوری 1993 میں
مزید 47مقدمات درج ہوئے جن میں مارپیٹ اور صحافیوں کی لوٹ پاٹ کے الزامات
تھے۔
فی الحال جس لکھنو کی خصوصی عدالت نے فیصلہ سنایا اس کے قیام کا حکم الہ
باد ہائی کورٹ نے دیا تھا ۔ اکتوبر 1993 میں سی بی آئی نے ایک مشترکہ چارج
شیٹ داخل کی ۔ دوڈھائی صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں ملزمین کی تعداد بڑھ کر
48 ہوگئی ۔ان 48 لوگوں کے خلاف مجرمانہ سازش کا مقدمہ درج ہوا ان میں سے
ایک تہائی تعداد یعنی 16جہان فانی سے کوچ کرکےاپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں ۔
ایل کے اڈوانی نے الہ باد ہائی کورٹ کے دونوں معاملات کو یکجا کرنے کے
فیصلے کو تکنیکی بنیاد پر چیلنج کیا تو ایک مقدمہ کو الگ کرکے رائے بریلی
کورٹ کے حوالے کیا گیا۔ اڈوانی کی یہ چال اقتدار میں آنے کے بعد ان کے کام
آئی۔ فروری 2001میں الہ باد ہائی کورٹ نے اڈوانی اور ان کے ساتھیوں کے
مجرمانہ سازش کی دفع ہٹانے کا حکم دے کر اس مقدمہ کو کمزور کردیا۔ سی بی
آئی نے اس فیصلے کے خلاف مدت کے بعد نظر ثانی کی درخواست کی جو تکنیکی
بنیاد پر مسترد ہوگئی۔ اب اس نے صوبائی حکومت سے سماعت دوبارہ شروع کرنے کے
لیےاحکامات جاری کرنے کی استدعا کی۔ جولائی 2003 میں مرکزی حکومت کے تحت
کام کرنے والی سی بی آئی نے اڈوانی کے خلاف سازش کا الزام واپس لے کر
ازسرِ نو چارج شیٹ داخل کی۔ اس طرح اڈوانی نے اپنے ۸8ساتھیوں سمیت خود کو
ثبوتوں کی کمی بناء پر بری کروالیا اور باقی کارسیوکوں کو رام بھروسے چھوڑ
دیا۔
یہ کوشش بار آور نہیں ہوسکی کیونکہ 2005 میں الہ باد ہائی کورٹ نے اڈوانی
کے خلاف نفرت پھیلانے کا الزام طے کردیا اور رائے بریلی کی عدالت کا فیصلہ
مسترد کردیا ۔ اس طرح اڈوانی کی نیاّ پھر سے ہچکولے کھانے لگی ۔ ایک طویل
ٹال مٹول کے بعد 2007میں مقدمہ کی سماعت کا باقائدہ آغاز ہوا۔ اس سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے عدلیہ کس طرح کچھوے کی چال سے چلتا ہے۔ 2010 تک یہ
مقدمات متوازی عدالتوں میں چلتے رہے ۔ 2011 میں سی بی آئی نے سپریم کورٹ
سے درخواست کی کہ وہ دونوں مقدمات کو یکجا کردے اور مختلف پیچ و خم کے بعد
اپریل 2017کے مودی یگ میں اڈوانی اور دیگر ملزمین کے خلاف مجرمانہ سازش کا
الزام طے ہوگیا ۔ 2017میں چونکہ بی جے پی پھر سے اقتدار میں آچکی تھی اس
لیے ہائی کورٹ کے خلاف اڈوانی اور ان کے ساتھیوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا
تھا ۔ انہیں امید رہی ہوگی کہ فیصلہ ان کے حق میںآئے گا لیکن یہ تدبیر الٹ
گئی۔
اس وقت لال کرشن اڈوانی صدر مملکت کے سب سے بڑے دعویدار تھے اور پورا سنگھ
پریوار یہ توقع کررہا تھا کہ لال کرشن اڈوانی اپنی عمر کےآخری ایام صدارتی
محل میں گزاریں گے لیکن اڈوانی کا صدر بن جانا وزیر اعظم نریندر مودی کے
لیے یہ بہت بڑا سر درد ہوسکتا تھا ۔ اس لیے جون 2017میں عدالت عظمیٰ نے
اڈوانی اینڈ کمپنی کے خلاف سی بی آئی کے حق میں فیصلہ کردیا۔ یہ بات تو
ہرکوئی جانتا ہے کہ اس وقت سی بی آئی کس کے اشارے پر کام کررہی تھی۔ سپریم
کورٹ نے اس معاملے میں کمال سختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسال کے اندر فیصلہ
سنانے کی حد بندی بھی کردی اور یہ ہدایت کی کہ اس بیچ جج کا تبادلہ نہ کیا
جائے ۔ یہ مدت اپریل 2019میں ختم ہوئی تو اس میں 9 ماہ کی توسیع کی گئی اور
پھر کورونا وبا کے سبب 31اگست تک سماعت ختم کرکے 30؍ستمبر کو فیصلہ سنانے
کی اجازت دی اور اب فیصلہ بھی آیا تو یہ کہ جو نہ آتا تو بہتر تھا لیکن
یہ فیصلہ آخری نہیں ہے بقول عبدالحمید عدم ؎
ہجوم حشر میں کھولوں گا عدل کا دفتر
ابھی تو فیصلے تحریر کر رہا ہوں میں
سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اڈوانی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32
ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا کہ بابری مسجد کی گنبد پر
غیر سماجی لوگ چڑھے ہوئے تھے اور ملزمان نے اس کے لئے کوئی سازش نہیں کی
تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ملزمان نے تو الٹے بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی
تھی۔ اس فیصلے کو سنانے والی عدالت کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ ان غیر
سماجی عناصر کا سرغنہ کون تھا؟ یہ انہدامی کارروائی اگرمنصوبہ بند نہیں تھی
تو ان عناصر کو ایودھیا میں جمع کرنے کے لیے سارے ملک میں گھوم گھوم کر
منصوبہ بنا نے والے کون تھے ؟ کس نے اس بھیڑ کے ذہن میں نفرت کا زہر گھول
کر انہیں اس قدر مشتعل کردیا تھا کہ انہوں نے مسجد کو شہید کردیا ؟ وہ لوگ
اگر بھیڑ کو روک رہے تھے تو اس میں ناکامی کی سزا ان کو کیوں نہ دی جائے؟
ان فسطائی دہشت گردوں کی بھی عجب منافقت ہے کہ عوام میں سیاسی فائدہ اٹھانے
کے لیے کہتے ہیں کہ ہم نے بابری مسجد شہید کروادی اس لیے ہمیں ووٹ دو ۔ اس
کا ثبوت جئے بھگوان کوئل نے فیصلے بعد اے بی پی کے ساتھ کیمرے کے سامنے
اعتراف میں دیا کہ سب کچھ منصوبہ بند تھا۔ عوام ان کی بات پر یقین کرکے
انہیں اقتدار سے نوازتے ہیں ۔ عدالت کے سامنے بھیگی بلی بن کر یہ کہتے ہیں
کہ ہم تو روک رہے تھے اور عدالت ان کے بیان پر یقین کر کے انہیں بری کردیتی
ہے ۔ اس دور ِ پر فتن میں عوام اور عدالت دونوں نے اپنی آنکھ اور کان پر
پٹی باندھ رکھی ہے ۔
عدالتی ٹال مٹول کے علاوہ ایک معاملہ سرکاری کمیشن کے ذریعہ تحقیقات کروا
کر عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کا بھی ہے۔ ۶ ا دسمبر ۱۹۹۲ کو مرکزی
حکومت نے لبرہن کمیشن قائم کرکے اسے تین ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے
کا حکم دیا۔ یہ تین مہینوں کی مدت ۴۸ توسیعات کے ساتھ ۱۷ سال پر پھیل گئی ۔
۸؍۱۰ کروڈ روپیوں کی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد جون ۲۰۰۹ میں یہ رپورٹ پیش
ہوئی۔ اس میں بابری مسجد کی شہادت کے سلسلے میں اہم انکشافات کیے گئے تھے
اور اس کے مجرمین کی واضح نشاندہی کی گئی تھی لیکن کانگریس کے اقتدار میں
ہونے کے باوجود اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس
عرق ریزی سے مذکورہ مقدمہ کی سماعت میں بھی کوئی استفادہ نہیں کیا گیا اور
سی بی آئی نے کمیشن کے کسی بھی رکن کو گواہ کے طور طلب کرنے کی زحمت نہیں
کی۔ اس پرر جج صاحب نے فرمایا سی بی آئی ثبوت اکٹھا نہیں کرسکی ۔ سی بی
آئی ایسا کرتی بھی کیسے؟ اپنے آقاوں کے خلاف ثبوت جمع کرنے کی غلطی کون
کرتا ہے ؟
عدالت اور سی بی آئی نے اس پورے عرصے میں کمال سعادتمندی کا ثبوت دیا۔ جب
بی جے پی کی سرکار آتی تو سی بی آئی کا لب و لہجہ اچانک بدل جاتا اور جب
جاتی تو اس کو سارے ثبوت ملنے لگتے ۔ عدالت کے رویہ میں بھی حسبِ موقع
تبدیلی واقع ہوتی رہتی ۔ لبرہن کمیشن نے ہاتھی کے دانتوں کی اہمیت و وقعت
کا راز بھی طشت ازبام کردیا۔ بابری مسجد کے مقدمہ کا سیاسی فائدہ تو
نرسمھاراو سے لے نریندر مودی تک سبھی نے اٹھایا اور اڈوانی سے اوما بھاری
تک سب نے اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکیں اور چھوٹ بھی گئے لیکن یہ دنیا کی
عدالت ہے جس میں رسوخ کا استعمال ہوتا ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی عدالت
میں جب یہ مقدمہ پیش ہوگا تو سارے مجرمین کو قرار واقعی سزا مل کر رہے گی۔
حدیث قدسی ہے ’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ لے گا اور ان کو
داہنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زور
والے؟ کہاں ہیں غرور کرنے والے؟ پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ لے گا پھر
فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں زور والے؟ کہاں ہیں بڑائی کرنے والے؟‘
اس دن اقتدار کی ساری اکڑ فوں دھری کی دھری رہ جائے گی اور ہر ظالم کاحساب
بے کم و کاست چکا دیا جائے گا۔ عدلیہ کے بتانِ وہم و گماں پر رادھے شیام
رستوگی احقر کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
طالب خدا سے عدل کے خواہاں کرم کے ہیں
مظلوم ہم بتوں کے جفا و ستم کے ہیں
|