پاکستان کی سیاسی حکمت عملی

ریاست جموں کشمیر کی بھاری اکثریت آج پاکستان کی کشمیر پالیسی سے سخت نالاں ہے لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستانی حکومتوں کی اب تک پاکستان کے بارے میں کیا پالیسی رہی ہے اور پاکستانی عوام نے اس بارے کس حد تک سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا ہے؟ اس کے لیے چند ایک مثالیں ہی کافی رہیں گی ۔

قوموں کے سفارتی تعلقات یکطرفہ اورغیر مشروط نہیں ہوتے مگر پاکستان نے اپنے قیام کے ساتھ ہی اس اصول کو نظر اندازکر کے امریکہ کے ساتھ یکطرفہ محبت کا آغاز کرکے سوویت یونین کو ناراض کر دیا جبکہ بھارت نے دونوں سے فوائد حاصل کیے۔ بھارتی ادارے اور عوام تحریک آزادی کی قیادت کرنے والے گاندی اور نہرو خاندان کے ساتھ طویل مدت تک ڈٹ کر کھڑے رہے مگر قائد اعظم اور لیاقت علی خان کو یہ وفاداری نصیب نہ ہو سکی۔ پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان نے قائد اعظم کی اکلوتی ہمیشرہ محترمہ فاطمہ جناح کو ناکام کرنے کے لیے تمام اخلاقی حدیں عبور کر دیں۔ بھٹو کی قیادت میں جب ایوب خان کے خلاف بغاوت ہوئی تو اس نے اقتدار ایک اور فوجی ڈکٹیٹر کے حوالے کر دیا جو نشے میں بھڑکیں مارتا رہا اور بھارت نے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ الیکشن میں پہلی بار بنگال نے میدان مارا مگر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرکے ملک کو دو لخت ہونے سے بچانے کے بجائے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا دیا۔ جن بنگالیوں کو بونا، پست قد کی وجہ سے فوج کے لیے غیر موزوں اور اقتصادی طور پر بوجھ قرار دیا گیا وہ آج ہر میدان میں پاکستان سے آگے ہیں۔ بنگالی کرنسی آج پاکستانی کرنسی سے بھاری اور بنگالی پاسپورٹ پاکستانی پاسپورٹ سے زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے۔ بھٹو پر جہاں ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگانے کا الزام تھا وہاں اس نے بچے کچھے پاکستان میں کچھ اچھے کام بھی کیے مگر وہ امریکہ کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ بھٹو کو تخت دار پر لٹکایا گیا مگر عوام کے اندر جڑیں رکھنے والی پارٹی کے لیڈرز مارشل لا کے آگے اف نہ کر سکے۔ بے نظیر کو جب ایک سازش کے تحت قتل کیا گیا تو پارٹی اپنی قائد کے قاتلوں کی گرفتاری پرزور دینے کے بجائے نئے غیر جمہوری لیڈر کے آگے سرنگوں ہو گئی۔ ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر ایک سپر پاورکے خلاف دوسری سپر پاور کا ساتھ دے کر ملک کے اندر گن اور ڈرگزکلچر کو پروان چڑھایا۔ مختلف اسلامی ممالک سے جہاد کے نام پر مخلص مسلمان نوجوانوں کو تربیت دی مگر جب روس کی جگہ امریکہ نے لی تو انہی مجائدین کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کا اعلان کر کے افغانستان میں امریکی عزائم کی تکمیل کے لیے افغانوں کو بھارتی گود میں بٹھا دیا۔ جنرل مشرف نے کسی قسم کی شرمندگی محسوس کیے بغیر کہا کہ اس نے پڑوسی افغان بھائیوں کی جگہ ڈالر کو ترجیع دی مگر پاکستانی قوم کی اقتصادی حالت آج پہلے سے بھی بری ہے ایرانی انقلاب کے سب سے بڑے دشمن امریکہ کی ایران پالیسی کا ساتھ دے کر اپنے دوسرے بڑے مسلمان پڑوسی ملک کو اپنے خلاف کر دیا۔ بھارت نے عربوں اور ایران دونوں کے ساتھ اپنے سفارتی اور اقتصادی تعلقات برابر رکھے مگر پاکستان مسلمان ملک ہونے کے باوجود یہ توازن قائم نہ رکھ سکا۔ اسی طرح امریکہ کی مشرق وسطعی کی دہشت گردانہ پالیسی پر کبھی اپنی رائے کا اظہار تک نہ کر سکا۔ عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ دیا مگر برٹش پینل کوڈ کا نفاز اور قومی نصاب پہلے سے بھی زیادہ غیر اسلامی ہو رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں زیادہ اسلامی رحجان تھا مگر آج صورت حال مختلف ہے۔ ترقی کے لیے انگریزی زبان اور انگریزی نصاب ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔ کسی قوم کی تاریخ و ثقافت زندہ رکھنے کے لیے قومی زبان میں قومی نصاب بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یورپی یونین کے ستائیس ممالک میں سے ہر ایک کی اپنی زبان اور اپنا نصاب ہے حالانکہ ان ممالک کے رنگ نسل اور مذہب مشترک ہیں مگر پاکستان ہر لحاظ سے مختلف ہونے کے باوجود انگریزپرستی کوترقی کا راز سمجھتا ہے۔ یہ چند ایک ایسی مثالیں ہیں جن سے صاف واضع ہوتا ہے کہ پاکستان پر پاکستانیوں نہیں بلکہ کسی اور قوت کی حکومت ہے۔ اس لیے ہمیں پاکستان اور پاکستانی عوام سے شکوہے کرنے کے بجائے اپنی صفوں کو درست کرنے اور باشعور اور باضمیر پاکستانیوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اس خطے کی باقی اقوام کے ساتھ بھی اپنے خیالات و جذبات شئیر کر کے باہمی تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چائیے۔ اس خطے کی عوام کو خود اپنے مسائل کا ادراک ہونا چائیے۔ بائر سے کوئی آ کر ہمارے مسائل حل نہیں کرے گا کیونکہ ہماری لڑائیاں انکی عیش و عشرت کا سامان مہیا کرتی ہیں۔
 

Qayuum Raja
About the Author: Qayuum Raja Read More Articles by Qayuum Raja: 55 Articles with 47545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.