قومی نسل پرستی کا آئینہ دار ہاتھرس سانحہ

ہاتھرس کے سانحہ نے یہ ثابت کردیا کہ ہندوستانی سماج میں نسل پرستی کی جڑیں شہر سے لے کر گاوں تک نہایت گہری ہیں ۔ شہر کے نام نہاد مہذب لوگوں کے رحجانات کا پتہ لگانے کے لیے سوشیل میڈیا پر ایک غائر نظر کافی ہے اور گاوں کا حال جاننے کے لیے مقتول کے گاوں کی ایک زمینی رپورٹ کو دیکھ لینا ضروری ہے۔ شہر کے لوگوں میں ایک طرف تو بے حسی تھی اور دوسری جانب مظلوم یا اس کے حامیوں کے خلاف پھیلائی جانے والی افواہوں کا بازار گرم تھا ۔ بےحسی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یو ٹیوب پرمقبول و معروف چینل ’ستیہ‘ پرہاتھرس کے موضوع پر مباحثے کی نظامت خود اس کے مالک اشوتوش کررہے تھے۔ اس میں ان کے ساتھ خواتین کے کمیشن کی ایک رکن ، سماجوادی پارٹی کےقومی ترجمان اور یوگی کی سوانح حیات لکھنے والا صحافی موجود تھا ۔ منیشا کے موت کی خبر آرہی تھی۔ معاملہ ایک دم گرم تھا اس کے باوجود اسے براہ راست نشر ہوتے ہوئے دیکھنے والوں کی تعداد صرف گیارہ سو تھی ۔ اس چینل پر زیادہ تر بی جے پی مخالف لوگ ہوتے ہیں اور اشوتوش کی بات بہت ذوق و شوق سے سنتے ہیں لیکن ناظرین کی جانب سے کمال بے حسی کا مظاہرہ ہورہا تھا۔

اس کی دوسری مثال انڈیا ٹوڈے یعنی آج تک جیسے قومی چینل پر سامنے آئی ۔ وہاں پر ملک کے اول درجہ کے صحافی راجدیپ سردیسائی نے مظلوم خاتون کے بھائی سنتوش کے ساتھ براہِ راست بات چیت کی ۔ اس دلسوز انٹرویو کی لنک کو شبنم ہاشمی جیسے لوگوں نے اپنے جاننے والے گروپس میں شیئر کیا ۔اس کے باوجود ایک دن بعدتک اس ویڈیوکو دیکھنے والوں کی تعداد صرف ایک ہزار تھی۔ یہ ان چینلس کا حال ہے جس پر سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی اور گنگنا رناوت کی نوٹنکی کو لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے کی بے حسی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے لیکن اسی کے ساتھ سوشیل میڈیا پر لاکھوں لوگ یہ افواہیں پھیلارہے تھے کہ منیشا کی عصمت دری ہوئی ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں تھی جو اس طرح کی ویڈیوز شیئر کررہے تھے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا اس کی آبرو ریزی دلت نوجوانوں نے کی ۔ اس دوران راجستھان میں ہونے والی ایک فرضی عصمت دری کے واقعہ میں کسی مسلمان کا نام اچھال کر عوام کے غم و غصے کو ایک دوسرا رخ دینے کی سعی کی جارہی تھی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہروں میں رہنے والا نام نہاد مہذب سماج کس قدر تنگ نظری کا شکار ہے اور ان کے اندر چھپا ہوا درندہ کتنا سفاک اور خونخوار ہے۔

ذرائع ابلاغ میںمظلوم خاتون کو دلت کہنے اور ظالموں کی ذات کاانکشاف کرنے پر اعتراض کرنے والوں کی قلعی دینک بھاسکر کی ایک خاتون صحافی نے جائے واردات پر جاکر دونوںطبقات کے لوگوں سے بات چیت کرکے کھول دی ۔گاوں کے راستے میں ایک ٹھاکر نوجوان نے منیشا کے ساتھ ہونے والی واردات پر افسوس جتاتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’یہاں کے لوگ مرنا پسند کریں گے مگر غیر برادری میں اٹھنا بیٹھنا نہیں ‘‘۔ ٹھاکروں کی خواتین مظلوم خاندان کی تعریف اس طرح کرتی ہیں یہ لوگ بزرگ ٹھاکروں کو دیکھنے کے بعد اپنی سائیکل سے اترکرپیدل چلنے لگتے ہیں تاکہ کسی ٹھاکر کو یہ نہ لگے کہ ان کے سامنے سائیکل پر چل کر ان کی برابری کررہے ہیں۔ یعنی ٹھاکروں کا ظلم سہنا گویا ایک خوبی ہے ۔ ان ہم سایوں کی سفاکی کا یہ عالم ہے کہ کوئی برہمن یا راجپوت پڑوسی تعزیت کرنے تو دور حال چال پوچھنے بھی نہیں آیا ۔ ‘‘۔

مظلوم کے اہل خانہ کے ذریعہ اپنی ذات کی شناخت پر تعجب کرنے والی کو صحافیہ نے جب گرفتار شدگان کی خواتین سےعصمت دری کی بابت دریافت کیا تواپنے دفاع میں ان کی سب سے طاقتور دلیل یہ تھی کہ ’ہم ان کے ساتھ بیٹھنا اور بولنا تک پسند نہیں کرتے تو کیا ہمارے بچے ان کی بیٹی کو چھوئیں گے؟‘ یعنی جب چھونا ہی مہا پاپ ہے تو آبروریزی کیسے ہوگی؟ ۔عصمت دری کے الزام میں گرفتار ہونے والے ملزمین کے گھر والی خواتین نے اپنے گھر کے لڑکوں کی بابت یہ بھی کہا کہ ان چھوٹی ذات کے لوگوں سے ان کے خاندان کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ پرانی رنجش کے تحت ہمارے بیٹوں کو پھنسایا گیا ہے اور اس طرح وہ الٹا منیشا کی کردارکشی پر اتر آئیں۔ جس پرانی رنجش کا ذکر وہ کررہی ہیں وہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔

اس جرم میں ایک ملزم سندیپ کے باپ نے۲۰سال قبل منیشا کی پھوپھی کو چھیڑا تھا ۔ اس پر منیشا کے دادا نے اعتراض کیا تو ان کی انگلیاں کاٹ دی گئیں یعنی ملزم سندیپ کی حرکت اپنی خاندانی پرمپرا(روایت) کے مطابق ہے۔ اس کی گواہی ٹھاکر سماج کے لوگ دیتے ہیں اس کے باوجود رامو نامی ملزم کی ماں کہتی ہے کہ نیچ ذات کے لوگ ہم ٹھاکروں سے معاوضہ لینے کے لیے ہمیں جھوٹے مقدمہ میں پھنسا دیتے ہیں۔ ہمیں بھگوان کی عدالت پر بھروسہ ہے بنسی والا انصاف کرے گا ۔ اس کوشکایت ہے کہ رامو اس وقت ڈیوٹی پر تھا لیکن کوئی ان کی نہیں سنتا۔ سارے منتری سنتری منیشا کے گھر جارہے ہیں اسی لیے وہ ان پر چڑھ رہا ہے۔لوگ کہتے ہیں ایک عورت ہی دوسری عورت کا درد سمجھ سکتی ہے لیکن یہاں حالت بالکل برعکس ہے۔ اپنے خاندان کے مردوں کو بچانے کی کوشش میں نہایت بے رحمی سے کیے جانے والے قتل اور آبروریزی کا شکار ہونے والی ابلہ ناری سے بھی کوئی ہمدردی نہیں جتائی جا رہی ہے کیونکہ اس کا تعلق دوسری برادری سے ہے۔ یعنی جنسی حمیت پر نسل پرستی پوری طرح غالب ہے۔
ہمارے ملک کی پانچ ہزار سال قدیم تہذیب یہی ہے جس پر ہندوتوا وادی فخر جتاتے ہیں اور ایک ہزار سال کی غلامی کے بعداس سے آزاد کرنے کا دعویٰ وزیر اعظم ایودھیا میں شیلا نواس کرنے کے بعد کرتے ہیں ۔ مظلوم کے خاندان والے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ خاطی کو پھانسی کی سزا دی جائے مگر ٹھاکروں کا کہنا ہے اگر ان کا ایک جوان مرا تو اس خاندان کے ایک جوان بھی جائے گا یعنی منیشا کے بھائی کو مارڈالیں گے ۔ ایسے میں منیشا کے خاندان کو خوف ہے کہ میڈیا کے جاتے ہی ان پردقتوں کے پہاڑ ٹوٹنے لگیں گے اور سرکار نے دفع ۱۴۴ نافذ کرکے اس کا انتظام کردیا ہے ۔ اس گاوں کے دلتوں کو مویشیوں کے لیے چارہ لانے کی خاطر ٹھاکروں کے کھیت میں جانا پڑتا ہے کیونکہ ان کے پاس زمین نہیں ہے۔ پولس کے تحفظ پر انہیں بالکل اعتماد نہیں ہے کیونکہ وہ تو انہیں ڈرانے دھمکانے کا کام کرتی ہے۔
منیشا کی موت کے بعد گاوں کی دلت لڑکیوں کے چہرے پر خوف کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اتنی اچھی دیدی کے ساتھ اتنا برا ہوا تو ہمارے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ان کے تذبذب کا یہ عالم ہے کہ وہ پوچھتی ہیں اب کون (دلت) لڑکی کھیت میں جانے کی ہمت کرے گی؟ اور خود اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے اعتراف کرتی ہیں کہ جانا تو پڑے گا ورنہ مویشی بھوکے مرجائیں گے ۔ایک سوال یہ ہے کہ آزادی کے ۷۳ سال بعد بھی یہ ظلم و جور کا بازار کیوں گرم ہے؟ اس کی ایک وجہ سیاستدانوں کے اشارے پر کام کرنے والا انتظامیہ ہے ۔ منیشا کے معاملے میں یوگی سرکار کی انتظامیہ نے جو قلابازیاں کھائی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ پہلے تو اس نے کہہ دیا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق عصمت دری کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس کی زبان نہیں کٹی ۔ ہڈی نہیں ٹوٹی اور اس بات کا امکان پیدا ہوگیا کہ وہ کہہ دیتی کہ یہ خودکشی کی واردات تھی مگر پھر میڈیا اور سیاسی دباو کے تحت اسے اپنا لہجہ بدلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ویسے جب یہ معاملہ عدالت میں پہنچے گا اور جج کی کرسی پر بھی کوئی ٹھاکر براجمان ہوگا تو بعید نہیں کہ سارا الزام منیشا کے سر تھوپ کر اس شعر کو زندہ کردے؎
قاتل کی یہ دلیل بھی منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا ، خنجر کی نوک پر
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452263 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.