ہم اتنے سطحی اور کھوکھلے معاشرے میں رہتے ہیں کہ
خدانخواستہ اگر کبھی کوئی عالی کردار بندہ غلطی سے ہمارے ہاں پیدا ہوجائے
یا حادثاتی طور پہ وہ اس ملک کی اشرافیہ کا حصہ بن جائے تو اس کے ساتھ وہ
سلوک کرتے ہیں کہ وہ باقی ساری زندگی اسی ماتم میں گزار دے کہ میں نے اس
قوم کی خدمت کرنی چاہی تھی ؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایک شعر نے کیسی
خوبصورت عکاسی کی ہے ہمارے حالات کی
" گزر تو گئی ہے تیری حیات قدیر لیکن
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے "۔
ہماری حکومت اور ملک کا ہر شعبہ ابن الوقتیوں، خود غرضوں اور خوشامدی
چاپلوسوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہے ، خود چاپلوسی کے سوا کوئی کام کرتے نہیں
اور کوئی کام کرنا چاہے اسے کرنے نہیں دینگے ، انصاف ہے نا کوئی احتساب بس
جسے دبانا اور زلیل کرنا ہو اس کے ساتھ چند دن کرپشن کرپشن کھیل لو باقی
سارا ملک بھاڑ میں جائے ، نعرے ریاست مدینہ کے نظام کوفہ والا ہے ۔
ہمارے اسلاف میں ایک بزرگ محمد بن عروة یمن کے گورنر بن کر شہر میں داخل
ہوئے ، لوگ استقبال کے لئے جمع تھے ان کا خیال تھا نیا گورنر پروٹوکول
مانگے گا، لاولشکرکے ساتھ آئے گا۔لیکن گورنر کی سادگی نے انہیں حیران
کردیا، ابن عروہ نے صرف چند لفظ کہے
"اے لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت ہے اس سے زیادہ لےکر میں واپس پلٹا تو
مجھے چور سمجھا جائے"۔
یہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سنہرا دور تھا تھوڑے ہی عرصے میں محمد بن
عروہ نے یمن کو خوشحالی کا مرکز بنادیا جس دن وہ واپس پلٹ رہے تھے لوگ ان
کی جدائی پر آنسو بہا رہے تھے لوگوں کا جم غفیر موجود تھا امید تھی کہ لمبی
چوری تقریر میں اپنے کارنامے بیان کریں گے مگرانہوں نے صرف ایک جملہ کہا
اور اپنی تقریر ختم کر دی
"اےلوگو ! یہ میری سواری میری ملکیت تھی میں واپس جا رہا ہوں میرے پاس اس
کے سوا کچھ نہیں ہے"۔
پاکستانیو ! اپنے وزیر اعظموں،گورنروں اور ججوں کے آنے اور جانے والے دنوں
کا تقابل کیجئے! یہ کرتے بھی کچھ نہیں اور احسان بھی جتلا جاتے ہیں ۔
ہمارے چہیتے ہینڈسم خان کو ہی دیکھ لیجئے کرتے کچھ نہیں تقریریں جھاڑے چلے
جاتے ہیں۔
ہم پاکستانیوں کے ساتھ سات عشروں سے جو ہورہا ہے کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس
کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟ ہم ہمیشہ جمہوریت ہوتو سیاستدانوں کو اور آمریت ہو
تو فوج کو برے حالات کی اصل وجہ اور قصوروار ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ
قرار دے لیتے ہیں ۔
لیکن ان نااہلوں کو ووٹ دینے سے پہلے اور کسی آمر کی حمایت کرنے سے پہلے ہم
کیوں بھول جاتے ہیں یہ لوگ پاکستان کو صرف حکومت کرنے کے لئے ہی کیوں پسند
کرتے ہیں ؟ ان کے کاروبار ان کی اولادیں اور بڑے بڑے پلازے تو دبئی اور
مغربی ممالک میں پروان چڑھ رہے ہیں اور یہ ہمیں کبھی اسلامی پاکستان ، کبھی
سب سے پہلے پاکستان، کبھی کھپے پاکستان اور کبھی ریاست مدینہ جیسے پاکستان
کا خواب دکھا کر بیوقوف بنائے چلے جارہے ہیں ۔
اج ہندوستان اور بنگلہ دیش جیسے ملک بھی ہم سے ترقی میں آگے نکل گئے ہیں
اور ہم ابھی بھی نئے نئے تجربات کرنے میں مصروف ہیں ۔ایک چور جاتاہے تو
دوسرا بڑا چور مسیحا کے روپ میں ہم پر مسلط ہو جاتا ہے ۔
ہم ہر بار چکنی چپڑی باتوں سے پھسل جاتے ہیں اور ایسا تب تک ہوتا رہے گا جب
تک عام آدمی اپنا حق لینے کے لئے بیدار نہیں ہوگا ۔ قرون اولی کے ہمارے
حکمران کیسے ہوا کرتے تھے آئیے میں آپ کو اسکی ایک اور ہلکی سے جھلک دکھاتا
ہوں ۔
علی رضی اللہ عنہ نے خلیفہ وقت سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ اپنے
گھوڑے کو پریشانی سے کھینچ رہے ہیں سخت گرمی کا موسم ہے، پسینے میں
تربترہیں
پوچھا "کہاں جا رہے ہیں امیر المومنین؟"
فرمایا"علی بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے
اسے تلاش کرنے جا رہا ہوں"
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہوگئیں اور فرمایا" امیرالمومنین ! آپ
اپنے بعد کے خلفاء کیلئے بڑا بوجھ چھوڑنے جا رہے ہیں جو آپ کے بعد امت کی
باگ ڈور سنبھالیں گے، کوئی بھی آپ جیسا کام نہیں کر پائے گا"
حضرت عمر نے جواب دیا "قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
كوسچا رسول بنا کر بھیجا،اگر فرات کے کنارے ایک بھیڑیا بھی بھیڑ کو چیر
پھاڑ دےتو مجھے ڈر ہے کہ قیامت کے دن اس کا حساب بھی عمر سے لیا جائے گا"۔
ابھی ذیادہ پرانی بات نہیں مارکل کوش نامی ایک عیسائی نے خلافت عثمانیہ کے
سلطان عبدالحمید کو خط لکھا " سلطان معظم ! آپ کی حکومت میں بھیڑیا میری
بھیڑیں چیر پھاڑ کر چلا گیا مجھے فاقوں کا اندیشہ ہے "
سلطان عبدالحمید نے فورا" بھیڑوں کاایک ریوڑ روانہ کیا اور لکھا " کیا اتنے
بڑے سلطان نے آپ کا غم ہلکا کیا؟ آپ نے غیرمسلم ہوتے ہوئے بھی مجھے میری
خلافت یاد کروائی، اگر میں آپ کی مدد نہ کرپاتاتو ساری عمر خود کو خلیفہ نہ
کہتا،اللہ سے دعا ہے آپ کو بھیڑیں ملنے سے پہلے مجھے موت نہ آئے، آپ نے
مسلمانوں کا دروازہ کھٹکھٹایا میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں تاکہ ابدی
کامیابی پائیں "۔
اللہ تعالی ہمیں پر خلوص اور خیر خواہ حکمران عطا کرے جو صرف باتوں کے نہیں
کردار کے بھی غازی ہوں لیکن ایسا تبھی ہوگا جب ہم خودکو سب سے پہلے بدل کر
حقیقی معنوں میں باشعور شہری ہونے کا حق ادا کریں گے ، ہم کب تک باتوں سے
متاثر ہوکر خائنوں اور کرپٹ لوگوں کو منتخب کرتے رہیں گے کب اپنی ذمہ داری
محسوس کریں گے اور کب اچھے لوگوں کو منتخب کرکے آگے لائیں گے؟ البتہ یہ بھی
سچ ہے کہ ہمارے ووٹوں سے آج تک کون سی حکومت منتخب ہوئی ہے بھلا ، یہ تو
اوپر بیٹھی ہوئی کچھ طاقتیں ہیں جو جسے اپنے فائدے میں سمجھتی ہیں اسے جوکر
کی طرح پکڑ کر سرکس کے میدان میں رکھ دیتی ہیں ۔
ایک عام شخص کی سوچ سے لےکر اعلی اداروں میں بیٹھے متکبر دماغوں تک پورا
نظام بدلے گا تب جاکر حقیقی روشنی نظر آئے گی اور ایسا انقلاب بڑی جدوجہد
اور قربانیوں کے بعد آتا ہے فی الحال ہمارا شعور اور کردار دونوں اتنی عظیم
تبدیلی کے لئے موزوں نہیں ۔
نوٹ: خرابی صحت کے دوران ملک بھر سے جن دوستوں نے فون کالز، واٹس ایپ اور
ای میلز پہ دعائیہ پیغامات بھیجے یا خود چل کر گھر تشریف لائے اور اپنی
دعاوں سے نوازا اور جنہوں نے غائبانہ دعائیں کیں ، ان سب کا بےحد شکریہ ،
بے شک میرے لئے آپ سب کی محبتیں اور دعائیں بڑا قیمتی سرمایہ ہیں ۔ اللہ
تعالی ہم سب کو عافیت میں رکھے۔آمین
|