ایک رپورٹ کے مطابق حکومت اورپختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی
ایم) کے درمیان خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں ،حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت
کمزوروکٹ پرپی ٹی ایم سے مذاکرات کررہی ہے اسی لیے قوم سے خفیہ رکھاجارہاہے
،پی ٹی ایم سے مذاکرات میں اپوزیشن جماعتوں کوبھی شامل نہیں کیاگیاطرفہ
تماشایہ ہے کہ ایک طرف محب وطن سیاستدانوں پربغاوت کے مقدمات قائم کیے
جارہے ہیں اور دوسری طرف ریاست کے باغیوں کوریلیف دیاجارہاہے حکومت نے
ماحول سازگاربنانے کے لیے یکطرفہ طورپر کچھ اقدامات کابھی آغازکردیاہے پی
ٹی ایم کے رہنماؤں پرمقدمات ختم اوران کے گرفتارکارکنوں کورہاکرناشروع
کردیاہے ۔
پی ٹی ایم ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم کے رہنما حنیف پشتین پر درج مقدمات کو
ختم کرنا بھی انہیں مذاکرات کے مرہون منت ہے۔ جس کے مطابق ان پر دفعہ 302
کے تحت درج مقدمہ بھی خارج کردیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی نے اپنے مطالبات
میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پی ٹی ایم کسی بھی ریاستی ادارے کے خلاف نعرے
بازی اور سوشل میڈیا ٹرولنگ نہیں کرے گی، تاہم اگر کہیں پر کسی ادارے کا
افسر یا ملازم کوئی غیر قانونی قدم اٹھاتا ہے تو اس کی ذات کے خلاف بھرپور
احتجاج کا حق ہوگا لیکن اس افسر کے ادارے کو اجتماعی طور پر نشانہ نہیں
بنایا جائے گا۔یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ اس کافیصلہ کون کرے گاکہ کسی
افسرکااقدام غیرقانونی ہے ؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ذریعے پی ٹی ایم
کو چند ماہ قبل مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم
کے ساتھ مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی تین ارکان پر مشتمل ہے، جن میں
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر دفاع پرویز خٹک اور چیئرمین سینیٹ صادق
سنجرانی شامل ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی ایم نے مذاکرات کے لیے آٹھ رکنی کمیٹی
تشکیل دی ہے، جس میں منظور پشتین، رکن پارلیمنٹ محسن داوڑ اور علی وزیر
سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا ہے کہ ان کے
قیدیوں کی رہائی جیسے اعتماد سازی کے اقدامات کے بعد حکومت کے ساتھ ان کے
باضابطہ مذاکرات جلد شروع ہوسکتے ہیں۔2018 میں بھی حکومت نے مذاکرات کیے
تھے مگرپی ٹی ایم نے کارکنوں کے خلاف مقدمات واپس لینے کی دھمکی دے
کرمذاکرات کابائیکاٹ کردیاتھا اسی طرح 2019میں جب پی ٹی ایم کے ساتھ
مذاکرات کاآغازہواتوپی ٹی ایم کے شرپسندوں نے وزیرستان میں خڑ کمر چیک پوسٹ
پرحملہ کردیاگیا اور یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر رک گیا تھا۔اطلاعات ہیں کہ
پشتون تحفظ موومنٹ نے یہ وقت تنظیم سازی پر صرف کیا ہے۔ تنظیم کا پہلا آئین
بھی تیاری کی مراحل میں ہے جبکہ اس کے تنظیمی ڈھانچے میں بھی تبدیلیاں کی
جا رہی ہیں۔
الطاف حسین اورمنظورپشتین ایک ہی سکے کے دورخ ہیں الطاف حسین نے 1978 میں
آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنائی بعدازاں 1984 میں اسے مہاجر
قومی موومنٹ کا نام دے کر طلبا تنظیم سے سیاسی تنظیم بنادی۔ منظور احمد
پشتون نے بھی پہلے محسود ٹرائبل اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی
اور 2014 میں اس کے صدر منتخب ہوئے۔ پھر 2016 میں منظور محسود عرف منظور
پشتین نے محسود تحفظ موومنٹ بنائی ( ایم ٹی ایم ) جسے بعد پختون تحفظ
موومنٹ کا نام دیا۔ منظور کی تحریک کو جنوری 2018 میں محسود قبائل کے
نوجوان نقیب اﷲ کے کراچی میں ماورائے عدالت قتل سے شہرت ملی۔الطاف حسین اور
منظور احمد دونوں ہی نے اپنی قوم کے حقوق کے نام پر سیاست کا آغاز کیا۔ یہ
محض اتفاقات ہیں یا کسی عالمی منصوبہ بندی کا حصہ دونوں ہی اپنی قوم کے
لوگوں کے قتل کے واقعات کے بعد مشہور ہوتے گئے۔
الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ حیدراباد میں 1980 کی دہائی میں ہونے والے
قتل عام کے بعد پھلی پھولی۔ اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)نے نہ
صرف نقیب اﷲ قتل کے واقعہ سے آکسیجن حاصل کی ۔الطاف حسین اور پختون قومی
موومنٹ کو فوج اور سیکیورٹی اداروں سے شکایتیں ہیں بلکہ یہ دونوں ان سے
نفرت کی حد تک مخالفت کرتے ہیں۔ ان دونوں ہی لیڈرز پر بھارت کی خفیہ ایجنسی
را اور دیگر پاکستان مخالف اداروں سے فنڈز لینے کا الزام بھی ہے۔ ان باتوں
کے ساتھ الطاف حسین پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ اپنی قوم کے حقوق کے نام پر
جدوجہد کے ساتھ اپنے تحفظ کے لیے شہر سے ہی نہیں بلکہ ملک سے چلے گئے۔ جبکہ
کچھ عرصہ قبل آئی ایس پی آر کے سابق ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہاتھا
کہ منظور پشتین اپنے لوگوں کے حقوق کی جدوجہد کے نام پر اپنے علاقوں کے
بجائے ملک سے باہر زیادہ رہتے ہیں۔
غور کرنے بات تو یہ ہے کہ کراچی میں الطاف حسین اور اس کی تحریک متحدہ قومی
موومنٹ کے خلاف جب 2016 میں پاکستان کے سیکیورٹی کے اداروں نے گھیرا تنگ
کیا عین اسی وقت پشتون یا پختون تحفظ موومنٹ کو فروغ دینے کے لیے کراچی سے
اسلام آباد تک اس کے فائدے کے لیے حالات پیدا کردیے گئے۔ اس طرح محسود
قبائلی علاقے سے اٹھنے والی تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ غور کرنے کی بات
تو یہ ہے کہ الطاف حسین اور منظور پشتین کی تحاریک کو کون سے سیاسی عناصر
ہوا دے رہے ہیں یا دیتے رہے ہیں۔ وہ سیاست دان جو کبھی بھی پاکستان اور اس
کے ریاستی اداروں خصوصا فوج کے حامی نہیں رہے بلکہ اس کی کھل کر مخالفت
کرتے رہے۔ قوم پرستی کے نام پر ایسے سیاسی رہنماؤں نے وطن پرستی تو کجا
اپنے بیانات اور اعمال سے ملک دشمنی کا بھی اظہار کرتے رہے۔
حکومت پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات ضرورکرے مگرپی ٹی ایم تمام پشتونوں کی
نمائندہ جماعت نہیں،نہ ہی غیرت منداورمحب وطن پشتونوں نے انہیں قبول کیاہے
باجوڑ، وکلا کی حلف برداری تقریب میں پی ٹی ایم رہنماء محسن داوڑ کی پٹائی
اس کی واضح مثال ہے ، محسن داوڑ کی تقریب میں شرکت پر وکلا نے برہمی کا
اظہار کیا۔ محسن داوڑ کی آمد پر وکلا غصے میں آ گئے اور اسے ہال سے دھکے دے
کرباہرنکال دیاوکلاء کی طرف سے یہ غم وغصہ پی ٹی ایم سے نفرت کانتیجہ ہے ۔
پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کے ساتھ حکومت دیگراقدامات بھی کرے خصوصا گزشتہ
سالوں میں ہماری بہادر افواج نے بے شمار قربانیوں کے بعد سابقہ فاٹا میں
امن قائم کیا ہے، بلاشبہ علاقے کی محب وطن آبادی بھی ان علاقوں کو امن کا
گہوارہ بنانے کے لئے پر عزم ہے،اب یہ ذمہ داری سیاسی قیادت کی ہے کہ سابق
فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے مقامی افراد سے کئے گئے وعدوں کو
پورا کرے، ان علاقوں کو امن کیلئے بے شمار لوگوں نے اپنی جان کی قربانی پیش
کی ہے، اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں
اور علاقے کی اقتصادی و سماجی خوشحالی یقینی بنانے کیلئے ٹھوس لائحہ عمل
ترتیب دیں،بصورت دیگر غربت، تعلیم کی کمی اور سیاسی شعو ر کی ناپختگی کی
وجہ سے وزیرستان پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
|