پچھلے کچھ سالوں سے ملک کے مختلف مقامات سے سیاسی ، سماجی
اورملی قائدین لاپتہ ہوچکے ہیں، اچانک دن کے اجالے میں سفید پوش ، خوش
مزاج، خوش گو اور بصیرت انگیز شخصیات قوم مسلم سے لاپتہ ہوچکے ہیں، انکے
لاپتہ ہونے سے ملت اسلامیہ سخت پس وپیش کا شکار ہوچکی ہے اورلاپتہ قائدین
کی تلاش کررہی ہے۔ جس کسی کو یہ قائدین مل جائیں ، اگر کسی جلسے یا جلوس
میںدکھائی دیں، یاپھر قدرتی آفات کے سلسلے میں چندہ مانگتے ہوئے دکھائی
دیں تو فوری طور پر ملت اسلامیہ کے سامنے لاکھڑا کریں اورچلا کر کہیں کہ یہ
وہی قائدین ہیں جو وقت ضرورت ملت کو چھوڑکر گم ہوگئے تھے۔ مندرجہ بالاتحریر
شدہ اشتہار کو ہر گروپ میں پھیلائیں اورتیزی کے ساتھ پھیلائیں تاکہ فوری
طور پر گم شدہ قائدین مل جائیں۔ جی ہاں! اس مضمون کو اس لئے تحریر کیا
جارہا ہے کہ ملت اسلامیہ کے قائدین جو کچھ وقت تک ملت کادرد لئے جلسوں اور
جلوسوں میں دکھائی دے رہے تھے، سیاسی محفلوں میں تخت پوش ہوئے تھے، افطار
پارٹیوں میں دعائیں کرتے نظرآرہے تھے، قدرتی آفات کے موقع پر بڑے بڑے
چندے وصول کررہے تھے۔ وہ قائدین، وہ اہل علم، مبصرین ،پچھلے چھ 7 سالوں سے
لاپتہ ہوچکے ہیں، انکی زبانیں گم ہوگئی ہیں اورقوم پر جتنی بھی آفتیں،
مصیبتیں آرہی ہیں ، ان آفتوں اورمصیبتوں سے نمٹنے کیلئے بالکل بھی تیار
نہیں ہے۔ یہی قائدین ہربار مسلمانوں کی سیاسی اورملی قیادت کا دعویٰ کرتے
تھے لیکن جائزہ لیجئے کہ کسطرح این آرسی ،سی اے اے اورحالیہ کورونا کے لاک
ڈائون کے موقع پر کسطرح سے منہ موڑ کر چلے گئے ہیں، کسی کی جانب سے نہ تو
مضبوط نمائندگی رہی نہ ہی حکومتوں کی مخالفت ہوئی، بعض تو ایسے رہے کہ پس
پردہ آر ایس ایس کے لیڈروں کے سے ملاقاتیں کی پھریہ دنیا والے پوچھیں گے
کہ کیا بات ہوئی ، کیا ملاقات ہوئی، یہ بات کسی سے نہ کہنا۔ آرایس ایس نے
جو نصیحت کی تھی اس نصیحت پر پوری طرح سے عمل ہوا۔ پھر دھیرے دھیرے چپکے
چپکے ملی قیادت کے نام پر برائے نام ٹیوٹر ، ٹیوٹر کھیلنا شروع کیااور
حقیقی مدوں پر خاموشی اختیار کرنے لگے۔ بعض تو اس لئے خاموش ہوگئے کہ کہیں
وہ بی جے پی حکومت کے ظلم کا شکار نہ ہوجائیں، برسوں سے جو چندے عرب ممالک
سے وصول کئے تھے انکی جانچ نہ شروع کی جائےاورجو تعلقات بیرونی ممالک ہیں
انکا پردہ فاش نہ ہوجائے۔ اسلئے ہر بات کو احتیاط کے ساتھ انجام دے رہے
ہیں۔ چند ایک ایسے علماء بھی ہیں جو وقتا فوقتا اپنی موجودگی کا ظہار کرتے
رہیے ہیں اورسوشیل میڈیا کے ساتھ اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی
کوشش کررہے ہیں۔ ملک میں ہرطرح سے اقلیتی مسلمانوں پر شکنجہ کسا جارہا ہے،
جو نوجوان سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ان نوجوانوں
کو سرکاری ملازمت کے جہاد کے نام سے جوڑا جارہا ہے اورنہیں خوف میں مبتلا
کیا جارہا ہے ۔ اب تو حد ہوگئی کہ اترپردیش میں ہاتھرس کے معاملے کی
رپورٹنگ جارہے صحافیوں کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اوران پر الزام
لگایا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں ،جبکہ باضابطہ طور پر یہ
مسلم نوجوان صحافی ہیں، لیکن انکی گرفتار پر سوا ل کون کریگا۔ ہمارے قائدین
نے ڈاکٹرکفیل کو ہی اپنا نہیں سمجھا تو خاک ان صحافیوں کو اپنا سمجھیں گے۔
جسطرح ڈاکٹرکفیل نے آدھا سال جیل میں گذارا اسی طرح سے یہ صحافی بھی آدھی
زندگی جیلوں میں گذاریں گے، ممکن ہے کہ یہ حالات کل میرے ساتھ بھی پیش
آئیں گے اسکے لئے مجھے اپنی تیاری آپ کرنی ہوگی۔ ہاں کچھ تنظیمیں ایسی
ہیں جو مسلمانوں کے جیلوں میں جانے کے بعد قانونی لڑائی لڑنے کیلئے پیش رفت
کرتی ہیں لیکن مجال ہے کہ مسلمانوں کو جیلوں میں جانے سے پہلے ہی، مسلمانوں
پر تشد د برپا ہونے سے پہلے یاپھر فرقہ وارانہ فسادات کا ماحول بننے سے
پہلے تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات اٹھائے نہیں جاتے۔آج ملت اسلامیہ کے کچھ
لوگ یہ سوچ کر اپنی جانوں کی بازی لگاتے ہیںکہ انکی قوم بھی انکے ساتھ ہے
لیکن بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ آج مسلمانوں کی حالت ان لوگوں جیسی
ہے جو طوائفوں کے تعلق سے ہمدردی تو رکھتے ہیں لیکن انکا ساتھ نہیں دیتے۔
بالکل اسی طرح سے بہت سارے لوگ مسلمانوں کی تائید تو کرتے ہیں، مسلم
جہدکاروں کی تعریف تو کرتے ہیں، مسلم میڈیا کا ہونا ضروری تو بتاتے ہیں ،
مسلم نوجوانوں کو قیادت میں آنے کی صلاح تو دیتے ہیں لیکن عمل کے میدان
میں یہ غائب ہوجاتے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مسلمان بن کر جئیں
نہ کہ منافق بنکر، حق کا ساتھ دیں بھلے اس جدوجہد میں نقصان کیوں نہ اٹھانا
پڑے، لیکن فائدہ ضرور ملے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں حضور ﷺ کی زندگی کو
اپنانا چاہئے تو حضور ﷺ کی زندگی بیٹھ کر پانی پینے میں، ولیمہ کھانے میں،
داڑھی رکھنے میں اوربال تراشنے میں ختم نہیں ہوجاتی ، محض زندگی میں یہ
سنتیں ہیں پورے نہیں ہوئے بلکہ حضورﷺ نے مسلمانوں کو مکی زندگی اور مدنی
زندگی دونوں کا نقشہ پیش کیا ہے۔ مکی زندگی میں صبرواستقلال ، طریقہ دعوت
اورحکمت کا نمونہ پیش کیا، جبکہ مدنی زندگی میں شجاعت، طاقت، حکمت، حکومت ،
رقابت، رفاقت کا نمونہ بھی پیش کیا۔ آزادی کے 70 سال بعد سے تو ہم مکی
زندگی پر عمل پیرا ہیںلیکن اب وقت آگیاہے کہ مدنی زندگی کے طرف بھی توجہ
دیں۔ |