اکثر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف پر
ہمیشہ سے قدرت مہربان رہی ہے حالانکہ ان کا مغلیہ انداز حکومت ۔لا اُبالی
پن اور اداروں سے محاذ آرائیاں ہر کسی کو کھٹکتی رہی ہیں مگر پھر بھی وہ
کامیاب ڈیلوں کے ساتھ میدان سیاست میں اترتے اور چھا تے رہے ہیں جاگیری
داری نظام میں یہ خامی ہے کہ بالا دست طبقہ ہمیشہ غالب رہتا ہے دو برس پہلے
تک یہی محسوس ہو رہا تھا کہ تبدیلی سرکار حزب اختلاف کو دیوار سے لگانے میں
کسی حد تک کامیاب ہوچکی ہے کیونکہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ساری جدو
جہد ،بیانئے اور کار کردگی اپوزیشن کو احتسابی کٹہرے میں پہنچانے اور سزا
دلوانے کے ارد گرد ہی گھومتی رہی ہے مگر یکدم کہانی نے نیا موڑ لے لیا ہے
اور میاں نواز شریف سزا یافتہ اور اشتہاری ملزم قرار دئیے جانے کے با وجود
سیاسی منظر نامے پر ابھرچکے ہیں کہ ان کے اے پی سی سے خطاب کو تمام چینلز
میں کوریج دی گئی اور اب بھی تمام سیاسی ٹاک شوز میں ان کے اپنی پارٹی کی
سنٹرل ایگذیکٹیو کمیٹی سے ویڈیو لنک خطابات پر ہی تبصرے ہو رہے ہیں کیونکہ
ایسا لگ رہا ہے کہ میاں نواز شریف نے انقلابی چوغہ پہن کر تمام اپوزیشن
رہنماؤں میں روح پھونک دی ہے یہی وجہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن پاکستان
ڈیموکریٹک موومینٹ نے 11اکتوبر کو کوئٹہ سے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کا
اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے خاتمے تک احتجاج جاری رہے گا حیرت ہے
کہ اپوزیشن کی ٹاپ لیڈر شپ مبینہ کرپشن مقدمات میں نامزد ہونے کے باوجود
پوری طاقت اور ولولہ کے ساتھ حکومت مخالف تحریک چلانے اور عوام کو سہانے
خواب دکھانے کے لیے کمر کس چکی ہے ۔
در حقیقت ہوتا وہی ہے جو آج ہو رہا ہے ’’اندھیر نگری چوپٹ راجا‘‘ کہ سبھی
سیاسی کھلاڑی اپنی بقا ء اور کرسی کی جنگ لڑتے ہیں اور عوام الناس کا کوئی
پرسان حال نہیں ۔اس لیے عرض ہے کہ قوم نے اس قسم کے مژدے بہت سنے اور انجام
بھی دیکھا ہے یہی دیکھ لیں کہ تبدیلی سرکا ر تین برس’ ’ کرپشن مکاؤ ‘‘پلے
کارڈ کھیلتی رہی اور چند دن پہلے کی خبر ہے کہ انسداد بد عنوانی کے لیے
بنایا جانے والا محکمہ اینٹی کرپشن خود ہی کرپشن میں ملوث نکلا ہے کہ ڈی جی
اینٹی کرپشن گوہر نفیس نے نوٹس لیتے ہوئے 12 اینٹی کرپشن افسران و اہلکاروں
کو نوکری سے بر طرف کر دیا ہے مگر کب تک ۔۔؟ آٹا ،شوگر اور دیگر مافیاز اور
ریکوریوں کا جو انجام ہوا وہ بھی کسی سے چھپا ہوانہیں ہے اگربات ہے اپوزیشن
رہنماؤں کی تو میاں شہباز شریف کے پاس جو بیٹوں کی کمپنیاں ہیں اور اپنے
اکاؤنٹس میں بھی جو ٹرانزیکشنز ہیں ان کے پاس کوئی حساب کتاب نہیں ہے اور
کسی کے پاس بھی اپنے اثاثوں کا کوئی حساب نہیں ہے پھر وہ برسر اقتدار ہویا
برسر پیکار ۔۔خود احتسابی کا عمل گھر سے شروع ہوتا ہے اگر جناب عمران خان
اپنے وزیروں اور مشیروں کا کڑا احتساب کرتے تو آج حالات کچھ اور ہوتے اور
عوام کو بھی نظر آتا کہ نظام بدل چکا ہے مگر یہاں تو چاپلوسی اور خوشامد پر
معاون خصوصی اور دیگر عہدوں کی بندر بانٹ سے ہی فرصت نہیں ملتی بایں وجہ کو
ئی خاص تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی بلکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کا ایجنڈہ
بھی نواز شریف کو واپس لانے اور اپوزیشن کو ٹھکانے لگانے پر ہی مشتمل ہوتا
ہے حالانکہ پورے ملک میں ہر قسم کے مافیاز سرگرم عمل ہیں اور انھوں نے عوام
الناس کا جینا حرام کر رکھا ہے مگر کسی اجلاس میں یہ خبر سننے کو نہیں ملتی
کہ آٹا ،چینی اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو واپس لایا جائے گا حتی کہ
ادویات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ لمحہ فکریہ ہے ؟دکھ تو اس بات کا
ہے کہ نہ جانے کونسی ریاست مدینہ بنا چکے ہیں جہاں مریض دوائی نہ ملنے پر
مر جائے تو افسوس نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ غریب تھا تو بیمار کیوں ہوا
اور اگر ہوا تو بیماری اور موت اﷲ کی طرف سے ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ۔اس قدر
بے حسی اور بے مروتی ہے کہ بس اﷲ کی پناہ ! لفاظی ہی لفاظی ہے
اقبال نے کہا تھا کہ ’’ہوا ہے گو تندو تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے ،وہ
مردِ درویش جس کو حق نے دئیے ہیں انداز خسروانہ ‘‘ یقیناایسا لیڈر اب ہمیں
میسر نہیں آسکتا جو کامل ایمان رکھتے ہوئے تیز ہواؤں میں چراغ امید جلائے
اور اپنی تمام تر توانائیاں عوام کی خدمت کے لیے وقف کر دے کہ اپنی نظریاتی
استقامت ،سچائی اور اخلاص سے زمینی حقائق کو بدلنے کی قدرت رکھتا ہوہمارے
ہاں تواحساسات و جزبات سے کھیلنے کی جیسے رسم ہی چل پڑی ہے ملک میں عجب
افراتفری اور بے یقینی کا عالم ہے تبدیلی سرکار اپنی ناپختہ حکمت عملیوں
اور تمام تر نا اہلیوں کی وجہ سے عوام الناس کا اعتماد پہلے ہی کھو چکی ہے
ایسے میں اپوزیشن سے محاذ آرائی کسی صورت بھی مفاد میں نہیں ہے مگر پھر بھی
تبدیلی سرکار سارے ملکی اور عوامی کام پس پشت ڈال کر اپوزیشن کو ناکام کرنے
کے منصوبے کو پورا کرنے کے کے لیے سر جوڑے بیٹھی ہے سوال تو یہ ہے کہ کیا
اپوزیشن مؤثر احتجاجی تحریک چلانے کے قابل بھی ہے ؟کیا نواز شریف واپس آئیں
گے یا الطاف حسین دوم کا کردار ادا کریں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا طبل جنگ
بجا رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ غلام بن کر نہیں رہ سکتا ، مزید ظلم
برداشت نہیں کرونگا اور حکومتی خاتمے تک تحریک جاری رہے گی دوسری طرف حکومت
کا مؤقف ہے کہ نواز شریف نے ہمیشہ وعدہ خلافیاں کی ہے اسلیے اب آہنی ہاتھوں
سے نپٹا جائے گا جو بھی ہے مگر یہ طے ہے کہ بے شک ساری اپوزیشن گرفتار ہو
جائے یا ملک بدر ہو جائے تب بھی حکومتی کار کردگی کو کوئی خاص فرق نہیں
پڑنے والا اور یہ وہ اہم پوائنٹ ہے جو حکومت مخالف تحریک کو کامیاب بنانے
کے لیے کافی ہے کیونکہ تبدیلی سرکار نے تاحال عوامی ریلیف کے لیے کچھ بھی
نیا نہیں کیا ایسے میں حکومت اور اپوزیشن کا ٹکراؤ خانہ جنگی کو فروغ دیگا
یا تاریخ خود کو دہرائے گی اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا لیکن اس میں
کوئی دو رائے نہیں کہ اگر تبدیلی سرکار نے اپنی ترجیحات نہ بدلیں تو جلد
انجام کو پہنچ جائیں گے ۔
|