کرونا وائرس کی دہشت کے باجود دنیا بھر میں اسکی
ویکسین کی تیاری کا عمل جاری ہے امریکی صدرٹرمپ کا کہناہے کہ اس وباء کی
ویکسین چندماہ میں مارکیٹ میں آجائے گی جس سے فارما سوٹیکل کمپنیوں کو اپنی
پراڈکٹس کے لئے نئی مارکیٹ میسرآجائے گی جبکہ ہر ایئرلائن نے بیرون ممالک
جا نے والے مسافروں کے لئے کرونا ٹیسٹ لازمی قراردیدیاہے جس سے کلینکل
لیبارٹریوں کے مالکان کی چاندی ہوگئی ہے اس وقت دنیا کے دوسرے بڑے ملک
بھارت میں لاکھوں افراد کرونا سے متاثر ہوئے ہیں پاکستان میں بھی کرونا کی
نئی لہرکا خدشہ ظاہرکیاجارہاہے سندھ بالخصوص کراچی میں کرونا نے پھر سر
اٹھالیاہے جو بلاشبہ خطرے کی گھنٹی ہے ان حالات میں پاکستان کیپنجاب
یونیورسٹی نے کرونا وائرس کی تشخیصی کٹس تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ سنٹر
فار ایکسی لینس ان مالیکیولر بائیولوجی پنجاب یونیورسٹی میں فی کس 5ڈالر کی
لاگت سے کرونا وائرس کی کٹس نامور وائرولوجسٹ ڈاکٹر محمد ادریس کی نگرانی
میں تیار ہوئی ہے جن کا دعویٰ ہے کرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری بھی آخری
مرحلے میں ہے فی الوقت روزانہ ڈیڑھ سو کرونا مریضوں کی تشخیص کی سہولت
یونیورسٹی کے پاس موجود ہے، کرونا وائرس کی کٹ کی تیاری پر خرچہ 5 ڈالرز
ہوا ہے اور کرونا وائرس کی تشخیص صرف بائیو سیفٹی لیب تھری میں ہی کی جا
سکتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کرونا وائرس کی تشخیص کی کٹ حکومت کو تیار کر کے
دے سکتی ہے وائرولوجسٹ ڈاکٹر محمد ادریس کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کو مکمل
ختم ہونے میں تین سال لگ جائیں گے۔ بائیو سیفٹی لیب تھری کے علاوہ کسی
دوسری لیب میں کرونا کی تشخیص کرنے سے وائرس مزید پھیلے گا۔ بظاہرکرونا
وائرس کے متاثرہ مریض اور ٹھنڈ لگنے والے مریض میں ظاہر ہونیوالی علامتیں
پہلی نظر میں ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں جس سے مرض کا ٹھیک اندازہ لگانا
مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس بات پر زوردیا جارہاہے کہ احتیاط انتہائی ضروری
ہے ویسے بھی مشہور کہاوت ہے علاج سے پرہیز بہترہوتاہے جرمن نشریاتی ادارے
نے اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ابتدائی طور پر کورونا وائرس سے
متعلق مشکل بات یہی ہے کہ اس کی کوئی خاص نشانی نہیں ہے جس سے اندازہ ہو کہ
یہ ٹھنڈ نہیں بلکہ کرونا وائرس ہے۔ کورونا وائرس کے مریض میں زکام ، کھانسی
، گلے کی سوزش اور بخار پھر نمونیہ جیسی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں تاہم یہی
علامتیں ٹھنڈ لگنے پر بھی ظاہر ہوتی ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم ،آپ
اور سب کرونا وائرس سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ اسی تناظرمیں ماہرین کا کہنا ہے
کرونا وائرس کی کچھ مخصوص علامتیں ایسی ہیں جو ظاہر ہونے پر فوری ڈاکٹر سے
رجوع کرنا چاہیے اور وہ علامتیں بخار، خشک کھانسی، سانس لینے میں دشواری،
پٹھوں میں درد، تھکاوٹ یا توانائی کی کمی ہیں جبکہ غیر معمولی علامات میں
بلغمی تھوک، سر درد ، کھانسی میں خون ، اسہال شامل ہیں دوسری جانب اگر سانس
کی نالی کے اوپر (گلے میں) انفیکشن ہے تو یہ عام طور پر ٹھنڈ لگنے کی علامت
ہے۔ اگر ناک بہہ رہی ہے اور ساتھ چھینکیں بھی آ رہی ہیں تو یہ ایک عام فلو
ہے۔ کورونا وائرس سانس کی نالی کے نچلے (سینے کے اندر) حصے کو متاثر کرتا
ہے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں لیکن چونکہ اس مرض نے وباء کی شکل اختیارکرلی
ہے اس لئے عام فلو کوبھی نظر اندازنہیں کرنا چاہیے گھرسے باہر اول تو مت
نکلیں ہجوم والی جگہوں پر جانے سے ہرممکن گریز کریں اگر جانا ہی پڑے تو
ماسک ضرور استعمال کریں کیونکہ کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کو خشک کھانسی
کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ کرونا وائرس سے
متاثرہ مریضوں میں پھیپھڑوں کی انفیکشن ہوتی ہے کورونا وائرس آسانی ایک سے
دوسرے انسان میں منتقل ہورہاہے اور اب پاکستان میں بھی یہ وبا ء تشویش ناک
ہوچکی ہے۔ اس کے پیش ِ نظر گلگت بلتستان،آزادکشمیر سمیت چاروں صوبوں میں
لاک داؤن کردیاگیاہے اگرچہ اب تک کورونا وائرس کی ویکسین اور اس کے علاج کی
باقاعدہ کوئی تدبیر سامنے نہیں آسکی لیکن 1940ء کے عشرے میں ملیریا کے علاج
کے لئے وضح کی گئی ایک دوا ’کلورو کوائن‘ نے بعض مریضوں کو فائدہ ضرور
پہنچایا ہے اس لئے چین ، جنوبی کوریا اور بیلجیئم میں کووڈ 19 کے مرض کے
علاج کی تدبیر میں کلوروکوائن کو شامل کیا گیا ہے اور عالمی ماہرین سنجیدگی
سے اسی دوا کو مزیدبہتر اور موثر بنانے پرغور کررہے ہیں۔ امریکی ڈاکٹر اس
جانب متوجہ ہورہے ہیں اور معروف ٹیکنالوجی فرم کے مالک ایلن مسک اپنی ٹویٹ
میں بھی کلوروکوائن کی افادیت کا ذکر کرچکے ہیں۔ایک خطرناک وائرس کے خاتمہ
کے لئے امریکا میں انسان پر اینٹی کرونا وائرس ویکسین کا تجربہ بھی کیا
جاچکاہے دنیا بھر میں درجن سے زائد بڑی ادویہ ساز کمپنیاں کورونا وائرس کی
ویکسین کی دوڑ میں شامل ہیں تاہم کلوروکوائن نامی سادہ، کم خرچ اور آسانی
سے دستیاب دوا اس کے علاج کی ایک صورت ضرور فراہم کرتی ہے انٹرنیشنل جرنل
آف اینٹی مائیکروبیئل ایجنٹس میں فرانسیسی ماہرین کی جانب سے شائع ایک
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اس دوا کو مزیدبہتر اور موثر بنایا جاسکا تو
کووڈ 19 کا مؤثر اور کم خرچ علاج سامنے آسکتا ہے۔ اس رپورٹ کو لکھنے والے
تمام سائنس داں انفیکشن اور بیماریوں کے ممتاز ماہرہیں۔ جنہوں نے چند درجن
مریضوں کو اسی دوا کی ایک اور قسم ہائیڈروکسی کلوروکوائن آزمانے کا سلسلہ
شروع کردیا ہے۔ ابتدائی درجے میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور
مریضوں کے ہسپتال میں رہنے کا دورانیہ کم ہو گیا ہے۔ دوسری جانب بعض امریکی
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کلوروکوائن کے بعض مضر اثرات بھی ہیں جن میں
آنکھوں کا شدید متاثر ہونا، سردرد، غنودگی اور پیٹ کے امراض شامل ہیں۔ اس
لئے کسی بھی حالت میں یہ دوا معالج سے پوچھے بغیر استعمال نہ کی جائے ایک
اور تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے متاثرہ صحت مند ہونے والوں کے خون سے
حاضل کیا گیا پلازمہ کو مریض کے جسم میں داخل کیا جائے تو اس کی قوت ِ
مدافعت بہترہوجاتی ہے اور وہ مریض حیرت انگیز طورپر صحت یاب ہو سکتاہے
ماہرین اس پر بھی تجربات کرنے میں مصروف ہیں تاکہ بنی نوع انسانیت کو اس
بھیانک وباء سے محفوظ رکھا جاسکے جب تک یہ تجربات کاکوئی حتمی رزلٹ نہیں
نکلتا یہ یادرکھیں کہ ماسک پہننا وینٹی لیٹر ماسک پہننے سے بہتر ہے، گھر
میں رہنا ICU میں رہنے سے بہتر ہے. اورہاتھ دھونا، زندگی سے ہاتھ دھونے سے
بہتر ہے آپ کے لئے بہت ضروری ہے کہ جب تک حکومت کہے آپ گھر پر ہی رہیں
کیونکہ ہم کووِڈ۹۱ سے پہلے ہی بہت جانیں کھو چکے ہیں۔ برائے مہربانی اپنا
اور اپنے خاندان والوں کا خیال رکھیں۔ ہم آپ کو بتا نہیں سکتے اس وقت
احتیاط کتنی ضروری ہے۔ اسی سے ہم اپنے اردگرد تمام لوگوں کو اس وائرس سے
محفوظ رکھ سکتے ہیں۔سینٹائزر لگا کر آگ کے قریب نہ جائیں کیونکہ اس میں
الکوحل ہوتا ہے جو آگ کو فوراً پکڑلیتا ہے۔۔ احتیاط کیجئے اور ہر قسم کی
احتیاط کے ساتھ ساتھ غریبوں، مستحقین اورکم وسائل اپنے اہل ِ محلہ کاخصوصی
خیال رکھیں کچھ اس طرح ایک دوسرے کا سہار ا بنیں کہ کوئی بھوکا نہ سوئے ۔
|