ہفتہ کی شام تقریباً ساڑھے سات اور آٹھ بجے کے درمیان
مولانا عادل کی گاڑی شاہ فیصل کالونی میں شمع پلازہ کے قریب رُکی، جہاں
موٹر سائیکل سوار دو حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کردی. فائرنگ اس قدر شدید
تھی کہ مولانا عادل اور ان کے ڈرائیور شدید زخمی ہو گئے. نیز اس فائرنگ سے
بہنے والے خون کے چھینٹے مولانا عادل کی گاڑی کی سیٹ پر چسپاں ہوگئے. گو کہ
زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مولانا اور ان کے ساتھی ڈرائیور شہید ہوگئے.
مولانا عادل کو لیاقت نیشنل اسپتال اور ان کے ڈرائیور کو جناح اسپتال لایا
گیا تھا. لیکن اسپتال حکام کے مطابق وہ بہت پہلے اس دنیائے فانی سے رخصت
ہوگئے تھے.
فائرنگ کے اس واقعے کے بعد پولیس حکام نے اپنی تفتیش شروع کردی ہے. مزید اس
سلسلے میں پولیس کا کہنا یہ تھا کہ ایک موٹر سائیکل پر تین حملہ آور سوار
تھے. لیکن موٹر سائیکل چلانے والے نے دو حملہ آوروں کو مولانا کی گاڑی کے
پیچھے اتارا اور خود دوسری روڈ پر کھڑا ہوگیا. پولیس سربراہ کا مزید کہنا
یہ تھا کہ دو حملہ آوروں نے نائن ایم ایم پستول سے فائرنگ کرکے مولانا اور
ساتھی ڈرائیور کو شہادت کی راہ دکھلا دی. نیز یہ مجرمان گاڑی کی ریکی کر
رہے تھے. حملہ آور کن راستوں سے فرار ہوئے پولیس اس کی کھوج میں لگی ہوئی
ہے.
اس سے ایک بات کا تو علم ہوجاتا ہے کہ یہ واقعہ باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ کا پیش
خیمہ ہے. مولانا عادل کو کسی وجہ کی بنیاد پر اس سب کا شکار بنایا گیا ہے.
لیکن اگر ہم اس کو فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز سمجھیں تو یہ ابھی وقت طلب
بات ہے. کیونکہ اس واقعے میں مولانا سمیت تین افراد گاڑی پر سوار تھے. لیکن
شمع پلازہ پر ایک آدمی اترا جس کی وجہ سے گاڑی کو کچھ دیر وہاں کھڑا رہنا
پڑا اور اس دوران ہی حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کردی. یعنی اس واقعے میں
کہیں نہ کہیں سہولت کاری مولانا کے قریبی لوگوں میں سے کسی نے کی ہے. در
اصل پولیس تفتیش کر رہی ہے اور اس واقعے میں ملوث پس پردہ ہاتھ بھی سامنے
ضرور آئیں گے.
لیکن اس واقعے سے پاکستانی سوگوار ہیں. کیونکہ مولانا عادل کوئی عام انسان
نہیں تھے بلکہ پاکستانی علمی اور دینی حلقوں میں اپنا خاص مقام رکھتے تھے.
مولانا عادل جامعہ فاروقیہ کے صدر تھے. اس سے پہلے مولانا عادل جامعہ
فاروقیہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے. جہاں سے وہ ملائشیا چلے گئے
اور وہاں انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی میں علم الوحی اور علم انسان فکیلٹی
سے وابستہ رہے. مولانا عادل اپنے والد مولانا سلیم ﷲ خاں جو کہ دیوبند مسلک
کے نامور عالم اور استاد تھے. نیز وہ ایک بڑے عرصے تک وفاق المدارس العربیہ
کے صدر بھی رہے تھے. ان کے انتقال کے بعد مولانا عادل 2017 میں وطن واپس
آئے اور جامعہ فاروقیہ کی ذمہ داری سنبھالی.
مولانا کی شہادت کے بعد عام تاثر تو یہ جاتا ہے کہ یہ واقعہ فرقہ واریت
پھیلانے کی سازش بھی ہوسکتا ہے. کیونکہ مولانا کو تھریٹ تھے اور بقول سعید
غنی وزیر تعلیم سندھ کے مولانا کو سیکیورٹی بھی چاہیے تھی. لیکن بدقسمتی سے
ہم ان کو سیکورٹی فراہم نہ کرسکے. خیر یہ تو سیاسی بیان بازی بھی ہوسکتی ہے.
لیکن یہ واقعہ نواسہ رسول صل اللہ علیہ وسلم ، گوشہ بتول کے چہلم کے محض دو
دن بعد پیش آیا ہے. اور اس میں فرقہ وارانہ رنگ اس لئے بھی ظاہر ہورہا ہے
کہ کچھ دن قبل کراچی میں تحفظ صحابہ کرام کی جو تحریک چلی تھی. اس سے ایک
مذہبی فرقے کو تحفظات بھی تھے. نیز ان دنوں بقول عمران خان بھارت پاکستان
میں فرقہ وارانہ فسادات کا سبب بھی بن رہا ہے. لہٰذا اس شک میں مزید اضافہ
ہورہا ہے کہ یہ سب پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات تیز کرنے کے لئے بھی کیا
گیا ہو. شک کا دائرہ کار وسیع ہوتا رہے گا. جب تک پولیس مکمل طور پر تفتیش
نہیں کر لیتی کے مولانا کی شہادت کے پیچھے کون سے محرکات پوشیدہ ہیں اور
کون لوگ سہولت کاری میں شامل ہیں. تب تک ہمیں چاہیے کہ کوئی بھی من پسند
فیصلہ صادر نہ کریں. بلکہ ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اس میں فرقہ وارانہ
عنصر کی حوصلہ شکنی کریں. کیونکہ مولانا عادل رحمۃ اللہ خود بھی فرقہ واریت
کی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے.
دراصل مولانا کی شخصیت اور مولانا کا مزاج بالکل بھی فرقہ وارانہ نہیں تھا.
وہ تو مفاہمت اور محبت کی بات کرتے تھے. وہ تو عالم اسلام کو ساتھ جوڑنے کی
بات کیا کرتے تھے. در حقیقت ان کے جانے سے دنیا بھر میں علمی اور دینی
میدان میں خلا پیدا ہوا ہے. جو کہ ہمیشہ کے لئے موجود رہے گا. لیکن مولانا
عادل در اصل بہت اچھی جگہ کوچ کرگئے ہیں. جہاں ہر نیک اور مومن انسان کو
جانے کی چاہت ہوتی ہے. نیز مولانا عادل اپنے آخری بیانات میں مولا برحق، ﷲ
الصمد کے پاس جانے کی طرف اشارہ دیتے رہتے تھے. کیونکہ وہ یہ کہا کرتے تھے
کہ جیسے ہم اپنے چاہنے والے لوگوں کو بلا کر ملنا چاہتے ہیں ایسے ہی ﷲ بھی
اپنے نیک اور چاہنے والوں کو اپنے پاس بلا کر ان سے ملاقات کرتے ہیں. اس ہی
لئے دنیا سے اچھے لوگ جوق در جوق رخصت ہوتے جارہے ہیں. یعنی اب نیک اور
علمی شخصیات نایاب ہوتی جارہی ہیں. یہ سال جاتے جاتے بہت دکھ دے گیا ہے.
نیز ہم سے بہت سے نگینے بھی لے گیا ہے. ﷲ برحق مولانا کے بہنے والے خون کے
چھینٹے رائیگاں نہیں جانے دے گا.مولانا کے بہنے والے اس خون کے توسط سے ہم
ﷲ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے ﷲ ملک
پاکستان کو ہر قسم کے مذہبی اور سیاسی انتشار اور فسادات سے محفوظ فرما .
نیز ملک پاکستان میں موجود ہر فرد کے جان و مال کی حفاظت فرما. آمین |