بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
مغل با دشاہ ا کبر کا عہد مسلمانان ہند کے لیے نہایت زبو حالی کا دور تھا
……ا کبر ایک مخلص مسلمان کی حیثیت سے سامنے آیا پھر فتح پور سیکر ی میں
عبادت خانے کی تعمیر ہوئی جہاں علمائے اسلا م کے مبا حث علمیہ ہوا کرتے،پھر
بعد میں یہاں عیسا ئی پا در یوں اور ارباب عقل کا عمل دخل بھی شروع ہوگیا
اور پھر رفتہ رفتہ بات بگڑتی چلی گئی ……’’دین الٰہی‘‘ کا آغاز ہوا‘ اور وہ
کچھ ہوا جس کے بیان سے زبان کتراتی ہے ……ہر وہ کام کیاجانے لگا جو اسلا م
کے منافی تھا ……کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ (ﷺ) ‘‘ کی جگہ ’’لا
الہ الااﷲ اکبر خلیفۃ اﷲ ‘‘ پڑھا جانے لگا ……گا ئے کی قربانی پر پابند ی
لگا دی گئی ……پر دہ کرنا جرم ٹھہرا‘جس سے عورتوں کی بے حجا بی عام ہوگئی ……
شراب وجو اء عام فخر یہ اندا ز میں ہونے لگا ……خنز یر اور کتوں کا احتر ام
کیاجانے لگا ……عام عوام کے علا وہ اکبر نے علماء کو بالجبر شراب پلو ائی
……زمین بو سی کے نام سے سجد ہ کا آغاز ہوا اورپھر بادشاہ کو سجدہ لا زم
قراردے دیا گیا ……عام وخواص اور علماء سب شہنشاہ اکبر کے آگے سجد ہ ریز
ہوتے ……شعا ئر اسلا م کا سر عام مذاق اُڑایا جانے لگا ……شعائر اسلام سنت
داڑھیا ں منڈ وادی گئیں حتیٰ کہ بعض مساجد اور مد ار س دینیہ کو بھی زمیں
بو س کردیا گیا ……ہند ومسلم ایک کا نعر ہ لگا اور مشر کانہ رسم ورواج پر
مسلمانوں کو مجبو ر کیا گیا……الغرض جب شعا ئر اسلا م اور اسلا می تصوف کے
لہلہاتے چمن پر مشر کا نہ نظریات کی سیا ح بدلی چھانے لگی تو قد رت نے
چمنستان اسلام کے تحفظ و آبیاری کے لیے شیخ احمد سرہند ی المعر وف مجدد الف
ثانی کو مبعوث فرمایا ……
مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سر ہندی رحمۃ اﷲ علیہ ۹۷۱ھ کو ہند و ستا ن کے
مشر قی پنجا ب کے علاقہ سرہند میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد حضرت شیخ
عبدا لا حد چشتی رحمۃ اﷲ علیہ(م ۔ ۱۰۰۷ھ /۱۵۹۷ء ) اپنے وقت کے جلیل القد
ر عالم وعارف تھے …… حضرت مجدد الف ثانی کا سلسلہ نسب ۲۹؍واسطوں سے امیر
المو منین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ ‘ سے ملتاہے ……آپ نے بیشتر علو
م اپنے والد ماجد سے حاصل کیے جبکہ مولانا کمال الدین کشمیر ی ‘ مولانا
یعقو ب کشمیر ی ‘ اور قاضی بہلو ل بد خشی وغیرہ سے علو م معقو لہ ومنقولہ
کی تحصیل فرمائی ۔ اسارتِ قلعہ گوا لیا ر کے زمانے میں قرآن حکیم بھی حفظ
فرمایا ……تھا نیسر کے شیخ سلطان تھانیسری کی صاجنر ادی سے عقد مسنو نہ ہوا
جو کہ اکبر بادشاہ کے مقر بین میں سے تھے ، ان کی وجہ سے شاہی دربار سے ایک
تعلق پیدا ہوگیا جو کہ تبلیغ وار شاد کا ذریعہ بنا ……حضرت مجدد الف ثانی‘بر
صغیر کے معروف بزرگ حضرت خواجہ با قی باﷲ رحمۃ اﷲ علیہ (م ۔ ۰۱۲ ۱ھ /۱۶۰۳
ء ) سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور ۱۰۰۸ھ میں اجازت وخلا فت سے
نوازے گئے جبکہ سلسلہ چشتیہ میں والد ماجد شیخ عبد الا حدچشتی اور سلسلہ
قادریہ میں حضرت شاہ کمال قادری کیتھلی رحمۃ اﷲ علیہ سے خر قہ ٔ خلا فت
پہلے ہی حاصل تھا ……آپ حضرت خواجہ باقی باﷲ کے منظور نظرمریدوں میں تھے جس
کی بدولت آسمان علم وعرفان پر آفتا ب بن کر چمکے اور عہد اکبر ی کی تاریک
فضا ؤں کو نوار ایمان سے روشن کر دیا ……آپ کی اصلاح کو ششوں کا آغاز اکبر
بادشاہ کے عہد سے ہوا اور جہا نگیر بادشاہ کے عہد حکو مت میں یہ کو ششیں با
ر آور ہوئیں ……
اکبر بادشاہ نے جن مقاصد کے حصول کے لیے جد وجہد کی ان کو تین نکا ت میں اس
طرح تقسیم کیاجاسکتا ہے ……(۱)ہندوؤں سے مفاہمت (۲)قومی حکومت کا قیام
(۳)متحد ہ ہندوستا ن…… یہ تینوں مقاصد حضرت مجدد الف ثانی کے مقاصد جلیلہ
کی ضد تھے، آپ نے ’’ اسلامی حکومت کے قیام ‘‘ ……’’ اسلا می ہند کی تعمیر
وترقی ‘‘ اور ……ہندوؤں سے عد م مفاہمت ‘‘کے لیے بھر پو ر جدو جہد کی
……سیاسی مقاصد کے حصو ل کے لیے اکبر نے ’’ دین الٰہی ‘‘ کے نا م سے ایک نئے
مذہب کی بنیا د رکھی جس کا مقصد مسلمانوں اور ہندوؤں کو ملا کر ایک قو م
بنانا تھا ،اکبر کے اس’’ ایک قو می نظر یہ‘‘ کے خلا ف حضرت مجدد الف ثانی
نے ’’دوقومی نظر یہ‘‘ کا اعلا ن فرمایا اور یہ بتایا کہ کفر و اسلا م
دوعلیٰحد ہ چیز یں ہیں جو کسی طرح بھی یکجا نہیں ہوسکتیں ……اس پا کیز ہ
نظریہ کی تر ویج واشاعت کے لیے آپ نے بے شمار مکتوبات تحر یر فرمائے جو کہ
’’ مکتوبات مجدد الف ثانی ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں ……یہ
وہی دوقومی نظریہ تھا جس کی شیخ امام احمد رضاقادری حنفی رحمۃ اﷲ علیہ نے
چودھویں صد ی ہجر ی میں تجدید کرکے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اورقائد اعظم
محمد علی جناح کو فعال کیا اور ان حضرات نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر جو
جدوجہد کی اس کی بدولت اسلا می جمہور یہ پاکستا ن دنیا کے نقشہ پر اُبھر
ا،لہٰذ ا ہم یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان بھی حضرت مجدد الف
ثانی کے فیضان کا ہی ثمرشیریں ہے ۔
ہند وستان مسلم معاشرہ کی اصلا ح اور تر قی کے لیے آپ نے جو کچھ کیا وہ کسی
سے پوشید ہ نہیں …… شریعت سے بیگا نہ ہوجانے والوں کو اپنے علمی مکالمات
اور مکتوبات کے ذریعے آشنا ئے شریعت کیا …… جو صوفیہ راہِ طریقت کی حقیقت
سے نا واقفیت کی بنا پر گمر اہ ہوگئے تھے‘ ان کو طریقت کا واقف کا ربنا یا
……’’ نظریہ وحد ۃ الو جو د ‘‘ کی غلط تعبیر ات کی وجہ سے لوگ گمر اہ ہورہے
تھے‘ آپ نے اس نظر یہ کی لا ج رکھتے ہوئے اس کے ساتھ ’’ نظر یہ وحد ۃ الشہو
د ‘‘ پیش فرمایا جو دل اور دماغ دونوں کے قریب تھا ،اور یہی وہ نظر یہ تھا
جس نے شاعر مشر ق ڈاکٹر علا مہ محمد اقبال کی فکر میں انقلا ب پیدا کیا
……’’نظریہ وحدۃ الو جو د‘‘ کی غلط تعبیر ات سے جو ہلا کت پھیل رہی تھی‘حضرت
مجدد الف ثانی کے’’ تصور وحد ۃ الشہو د‘‘ نے اس کا مو ثر دفاع کیا اور
ناقابل فہم کو عام لوگوں کے لیے قابل فہم بنادیا، جو فکر مسلم کی ہر سطح پر
اصلا ح کرتا ہوا ایک عظیم انقلاب کا سبب بنا ……حضرت مجدد الف ثانی نے ظالم
وجا بر حاکم وقت کے غلط فیصلوں پر بر وقت تنقید کی، حتیٰ کہ آپ کو قیدوبند
سے دوچارہونا پڑا ، اسا رتِ قلعہ گوالیا ر اور پھر نظر بندی نے آپ کی
اصلاحی کو ششوں کے اثر ات کو عوام اور حکومت وقت میں اور دیر پا و مستحکم
بنادیا ، آپ کی اسیر ی اسلا می نظا م حکومت کے لیے رحمت بن گئی ، آپ منزل
مقصود کی جانب رواں دواں رہے اور عزیمت پسند ی کی ایسی شاندار مثالیں قائم
کیں جس سے مر دہ دل زندہ ہوگئے اور ایک عظیم انقلا ب آگیا ……با دشاہ کے
حضور سجد ۂ تعظیمی تر ک کر دیا گیا ……شراب اور دیگر خرافات پر پابندی لگا
دی گئی ، گائے کی قربانی سر عام ہونے لگی ……آپ کی انتھک کو ششوں سے شعا ئر
اسلا م کاخوب فروغ ہوا اور سیا سی سطح پر اسلا می حکومت کا قیا م ممکن
ہوگیا۔پھر جہانگیربادشاہ کی تخت نشینی کے بعد سلطنت میں امو ر مذہب وسیا ست
میں مشورہ کے لیے علماء کا با قا عدہ کمیشن مقر ر کر دیا گیا جو حکومت وقت
کو احکا م اسلامی سے بر وقت خبر دار ر کھتا تھا ۔
حضرت مجدد الف ثانی کے اصلا حی کا رنا موں کو بیان کرنے کے لیے طویل دفتر
کی ضر ورت ہے ،( پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم و مؤرخ پرفیسر ڈاکٹر محمد
مسعود احمدکے زیر سر پرستی ایک تین رکنی بورڈ جس میں راقم بھی شامل ہے‘ نے
۲۰۰۷ء میں ہزاروں صفحات پر مبنی پندرہ جلدی’’ انسائیکلو پیڈیا جہان امام
ربانی مجدد الف ثانی‘‘ مرتب کیا ہے جسے امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی نے شائع
کیا ہے) وہ پاک وہند کے مصلحین میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ‘ ان کی مومنا نہ
بصیر ت نے چند بر سوں میں خون کا ایک قطرہ بہے بغیر ایک عظیم انقلا ب برپا
کر کے مسلمانان بر صغیر کو مذہبی ، سیاسی اور روحانی سطح پر استحکا م بخشا
……
آپ کی مشہور تصانیف میں فارسی ’’ مکتوبات مجدد الف ثانی ‘‘ زیا دہ مشہو ر
ہوئے ۔ ان کے عر بی، اردو،ترکی اورانگریزی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہوچکے
ہے جبکہ یہ تصانیف بھی آپ کی یاد گا رہیں ٭……اثبا ۃ النبو ۃ ٭……رسالہ درعلم
حدیث٭……رسالہ در مسئلہ وحد ۃ الو جو د ٭……مبد أومعاد ٭……مکا شفات غیبیہ/
عینیہ ٭……معارف لدنیہ ٭……ردالر فضہ ٭……شرح ربا عیا ت خواجہ بیر نگ ٭……رسالہ
تعیین ولا تعیین ٭……رسالہ مقصود الصالحین ٭……آداب المرید ین ٭……رسالہ جذب
وسلو ک
حضور اکر م ﷺ نے فرمایا تھا کہ بڑا جہاد جابر حکمر اں کے سامنے کلمۂ حق
بلند کرنا ہے ‘ حضرت مجدد الف ثانی اس حدیث کی عملی تفسیر تھے آپ نے دوجا
بر حکمرانوں کے سامنے حق کا پر چا ر کر کے احیا ء اسلا م اور تجدید دین کا
اہم فریضہ سرانجا م دیا جس پر ملت اسلا میہ نے آپ کے ’’ مجدد الف ثانی
‘‘ہونے کا اقرارکیا ……سب سے پہلے ملا عبد الحکیم سیا لکوٹی نے (م ۔ ۱۰۶۸ ھ
/۱۶۵۷ء)آپ کے نا م ایک مکتوب میں آپ کو اس لقب سے نوازا پھر یہ لقب زبان
زدخاص وعام ہوگیا یہاں تک کہ آپ کے نام نامی پر غالب آگیا ، آج دنیا آپ کے
نام نامی’’شیخ احمد سر ہندی‘‘ سے زیادہ ’’ مجدد الف ثانی ‘‘ سے جانتی اور
یاد کر تی ہے ……آپ کی علمی اور روحانی فضیلت کو پاک وہند کے ہرمسلک و سلسلے
کے اکا بر علماء وصو فیہ نے مانا اور سر اہا اور اپنی تصانیف میں جابجا آپ
کے حوالے دیے،اور حضرت مجدد الف ثانی کے اقو ال وار شادات سے استد لا ل
فرمایا ہے …… جن میں اما م احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ جیسی ہستیاں
شامل ہیں ……شاعر مشر ق ڈاکٹر علا مہ محمد اقبال جب سرہند شریف حاضر ہوئے تو
حضرت مجدد الف ثانی کے روحانی کمالات سے متاثر ہو کر ان اشعا میں خراج
عقیدت پیش کیا ……
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر …… وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے …… اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے …… جس کے نفس گرم سے ہے گرمئی احرار
وہ ہند میں سرمایہء ملت کا نگہبان …… اﷲ نے بروقت کیا جس کو خبردار
حضرت مجددالف ثانی نے اسلا میان ہند کی رشد وہد ایت کے لیے سلاسل طریقت
چشتیہ،قادریہ، نقشبندیہ کو رواج دیا اور سلسلہ نقشبندیہ تو بعد میں آپ کی
نسبت سے ’’ نقشبند یہ مجدد یہ ‘‘ کے نا م سے معروف ہوا آ ج دنیا کے ہر خطے
میں اس سلسلے کے فیضا فتہ حضرات پائے جاتے ہیں…… حضرت مجدد الف ثانی اپنی
اصلا حی کو ششوں کے دور ان ایک سال (۱۰۲۷ ھ……۱۰۲۸ ھ)قلعہ گوا لیا ر میں
نظر بند ر ہے جبکہ دورپابند ی پانچ سال اور دورزباں بند ی چھے ماہ پر محیط
گزرا ……ایا م آخر میں آپ اپنی خانقا ہ (سرہند ) میں خلوت گز یں ہوگئے اور
اسی خلوت گزینی میں ۲۹؍صفر المظفر ۱۰۳۴ھ کو وصال فرمایا…… سر ہند شریف میں
آج اکثریت سکھ آبادی ہونے کے با وجود بھی مر قد انور مر جع خاص وعا م ہے……
مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی کی تعلیمات دنیا ئے اسلا م کا سنگھا ر
اورا قلیم تصوف کا نور ہیں ……اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف کی تعلیمات پر عمل
پیرا فر ما ئے اور انکے فیوض وبر کا ت سے یونہی بہر ہ مند فرماتا رہے ۔آمین
|