خلیل احمد تھند
جب بھی ہم عافیہ صدیقی کے حوالے سے کوئی تحریک اٹھاتے ہیں تو بعض حلقوں کی
جانب سے کچھ سوالات اٹھا کر معاملے کو کنفیوز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس
حوالے سے ہم متعدد دفعہ عرض کرچکے ہیں کہ عافیہ پر پاکستان میں زیر گردش
تمام الزامات غلط ہیں۔ انکا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ عافیہ کے
خلاف پاکستان کے کسی ادارے میں کسی منفی سرگرمی کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں
ہے، نا ہی اس نے کوئی ایسا کام کیا یا کوئی ایجاد کی جسے عسکریت یا دہشت
گردی کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ عافیہ صدیقی نے امریکہ سے ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی
کی۔ انہوں نے چائلڈ سائیکالوجی پر بھی ریسرچ کی۔ وہ پاکستان کو ایک جاندار
نظام تعلیم دینے کا پروگرام رکھتی تھیں جو اسے جدید دنیا کے ہم پلہ کھڑا
کردے۔ ابھی وہ اس کی شکل و صورت ڈیزائن کررہی تھیں کہ اسی دوران انکو کراچی
سے ان کے تین کم سن بچوں سمیت اغواء کرلیا گیا، جس کی ایف آئی آر کراچی کے
متعلقہ تھانے کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اغواء کے بعد عافیہ کی کچھ خبر نہیں
تھی کہ وہ کہاں ہے۔ لاپتہ عافیہ کی افغانستان کی بگرام جیل میں موجودگی کی
خبر سب سے پہلے طالبان کی قید سے رہائی پانے والی خاتوں صحافی ایوان ریڈلے
اور عمران خان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بریک کی تھی جہاں اس پر انسانیت
سوز ظلم ڈھائے کی اطلاعات تھیں۔ اس خبر کے بعد عافیہ کو افغانستان سے
امریکہ شفٹ کر دیا گیا۔ امریکی عدالت کے ٹرائل میں عافیہ پر لگایا جانے
والا کوئی الزام درست ثابت نہیں ہوسکا ،جس کے بعد امریکی فوجیوں پر بندوق
تاننے کے جھوٹے کیس میں اسے 86 سال کی قید کی سزا سنا دی گئی جو دنیا کے
عدالتی نظام میں اس جرم(اگر کیا بھی گیا ہو تو) کی انوکھی سزا اور مثال ہے۔
ایک لمحے کے لئے عافیہ پر لگائے گئے الزامات کو اگر درست بھی مان لیا جائے
تو ان الزامات کے کوئی ثبوت تو موجود ہونگے؟ الزام لگانے والوں نے وہ ثبوت
امریکی یا پاکستانی کورٹس میں کیوں پیش نہیں کئے؟ اس طرز عمل سے واضح
ہوجاتا ہے کہ عافیہ کو ناحق پھنسا دیا گیا ۔جن حکمرانوں نے اسکی قیمت وصول
کی ، کم و بیش تمام مہرے ابھی تک حیات ہیں ۔ہمارا ان سے سوال ہے کہ وہ
بتائیں کہ اسکا کیا قصور تھا؟ وہ اپنے الزامات کے کوئی ثبوت فراہم کریں
تاکہ قوم کی تشفی ہوسکے ،سچ اور جھوٹ واضح ہوسکے، اب تو عافیہ قید کی سزا
یافتہ ہے۔ دوسری جانب جناب عمران خان اس وقت اقتدار میں ہیں وہ قوم سے کیا
گیا اپنا وعدہ پورا کریں یا عافیہ کو جیل میں امریکی قوانین کے مطابق حقوق
کی عدم دستیابی یا وطن واپسی کی راہ میں جو کوئی رکاوٹ بھی حائل ہے اسے
بیان کریں، وہ چپ کیوں ہیں؟ پاکستان میں کتنی مثالیں موجود ہیں کہ ملزم عمر
قید جتنی سزا بھگتنے کے بعد عدالت سے بے گناہ ثابت ہوئے۔ گویا اتنی قید
انہوں نے جرم ناحق میں کاٹی۔ عافیہ کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟
اگرچہ وہ ناحق سزا یافتہ ہیں لیکن حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ نئے سرے سے
امریکی یا عالمی عدالت میں عافیہ کا کیس بہتر طریقے سے لڑیں اس سے انکی نیک
نامی میں اضافہ ہی ہوگا۔ سابق امریکی اٹارنی رمزے کلارک سمیت کئی امریکی
عافیہ کو بیگناہ قرار دے چکے ہیں ،آخر پاکستانی حکومت ان گواہیوں کو مد نظر
رکھ کر عافیہ رہائی کی راہ ہموار کیوں نہیں کرتی؟ اسی طرح ہمارا احساس یہ
ہے کہ عافیہ کو مجاہدہ بنا کر پیش کرنے والے دراصل اسکے ساتھ ہمدردی نہیں
کررہے بلکہ اسکے کیس کو الجھا رہے ہیں۔ عافیہ ایک باعمل مسلم ضرور ہیں لیکن
وہ کبھی بھی شدت پسند یا عسکریت پسند بالکل نہیں رہیں۔ انکی کی تمام تقاریر
اور لیکچرز میں ڈائیلاگ اور انسانی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ
ایک عالی دماغ اورماہر تعلیم سے پاکستان کو محروم کردیا گیا۔ افسوس یہ ہے
کہ اس جرم میں اپنے ہی ہم وطن شامل ہیں۔ عافیہ ہمارے نزدیک اس لئے اہم ہے
کہ وہ ہماری پرامن ' بے داغ اور اعلی پائے کی ماہر تعلیم شہری ہے ۔ عافیہ
سے بے اعتنائی اہل کشمیر اور وطن کو دنیا کے برابر کھڑا کرنے کی کاوش کرنے
والوں کے لئے منفی پیغام ہے۔ ہم عافیہ کے حقوق اور وطن واپسی کی تحریک اس
لئے بھی چلارہے ہیں کہ پاکستان کو اعلی و ارفع مقام پر دیکھنے والوں اور اس
سے امیدیں باندھنے والوں کے حوصلے برقرار رہیں، ملک کے اندر ظلم کا شکار،
مظلوم اور پسا ہوا طبقہ مایوسیوں کا شکار نا ہوجائے اور ہماری اندرون اور
بیرون ملک تمام عافیاؤں کی زندگیاں، کیریئر اور عزتیں محفوظ ہوجائیں #
|