کڑے سفر کا کڑا مسافر تھکا ہے کہ ایسے سو گیا ہے
خود آپنی آنکھیں بند کرلی لیکن ہر آنکھ بھیگو گیا ہیں۔
آج دل بہت بے چین تھا مجھے اپنے دادا اُستاد مولانا عادل خان کی کمی شدت سے
محسوس ہورہی ہے سوچھا کہ قلم اُٹھاکے دل میں بوجھ کا غبار ہلکا کردو میرے
دادا استاد محترم استاد العلماء استاد الحدیث حضرت مولانا عادل خان(مرحوم)
دامت کی یاد میں دل کو خون کی آنسو رلانے والا تحریر.....
.........دادا استاد کی یادمیں......…
دادا اُستاد کے وفات کے بعد مجھے اپنی زندگی بھت پھیکی پھیکی لگتی ھے. دل
بلکل خالی خالی رھتا ھے. مجھے وہ گلی وہ کوچے وہ راستے یاد آتے ھیں... جس
سے گزر کر استاد سے ملاقات کیلئے جایا کرتا تھا. وہ جگہ جس میں وہ رہتے تھے.
وہ کمرہ وہ برآمدہ وہ چارپائی بہت زیادہ یاد آتے ہیں... میرے دل پر کتنا
بوجھ ہوتا... غم ہوتا... بے چینی ہوتی... بے قراری ہوتی....بیماری ہوتی…
گلے,شکوے,شکایتیں ہوتی... بھائیوں سے.. بہنوں سے... اپنوں سے.. بیگانوں سے...
اس کے پاس جاکر.... تھوڑی دیر بیٹھ کر.. باتیں کرکے.. باتیں سن کر... سب
کچھ کافور ہوجاتا.... اب درد دل سنانے کیلئے کوئی نھیں... جاؤں تو کس کے
پاس...کون ھے جو میرے درد کو سمجھ سکے... میرے دل کے بوجھ کو ھلکا کرسکے....
کس کے باتوں سے مٹھاس حاصل کرسکوں.... کس کی لمبی لمبی دعاؤں سے سکون حاصل
کرسکوں... میری دنیا ویران ھوچکی... اب دنیا میں ایسا کوئی نظر نھی آتا..
جس کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر... اس کے سینے سے لگ کر.... اس کے سامنے آنسوں
بہا بہا کر... اپنا غم ہلکا کرسکوں.... کوئی بھی نھی جسکے پاس بوجھل قدموں
سے جاکر واپس خوش خوش آؤں... کون ھے.. جو میرے چھرے کو دیکھ کر اندرونی
کیفیت جان سکے... میری خاموشی اور افسردگی سے اپنی مومنانہ فراست کی بنا پر....
میرے قلبی تذبذب کو محسوس کرے... آج میں ان کو یاد کرکے کیوں نا رؤوں... کہ
موت سے صرف دودن پھلے مجھے رخصت کرتے ہوئے... میرے آنکھوں کے اوپر چوما....
بیٹھے بیٹھے گلے سے دیر تک لگایا... پھر فرمایا... کہ شاید میری اور آپکی
ملاقات پھر نا ھوسکے... اپنی جو عادت ھے ھمیشہ سے لاپرواھی کی... اس بنا پر
اسکی بات کی تہہ تک نہ پھنچ سکا... بات کو بلکل سرسری لیا... اس قلندری گفت
کو.... الہام کو دور اندیشی کو نہ سمجھ سکا... رخصت ھوا.. چلا گیا..گھر
پہنچا...اگلے دن جاب پہ گیا.. کیونکہ یہ میری کرلی میں پہلی نماز تھی..
اچانک رفیق برادر دوست نے مسنون طریقے سے تسلّی کے الفاظ ادا کئے... ایک
قیامت ٹوٹ پڑی....کچھ خبر ہی نہ رہا... ارد گرد کا... آنکھوں کے سامنے
اندھیرا چھا گیا... پھر بھی نماز کی برکت تھی کہ دل نہ پھٹ سکا... دیر تک
دعا کرتا رہا... ایک طرف واللہ علیم حکیم پیش نظر رہا.... پھر تو سارا سفر..
تلاوت میں ہر وقت.. ھر عمل میں اس کا نورانی چہرہ سامنے رہا.. آج تک بھولا
نہیں... شاید مرتے دم تک نہ بھول سکوں.. استاد ہر آدمی کا شفیق ھوتا ھے...
لیکن ایسا استاد جو ہر ایک بیٹا بلکہ یہ محسوس کرے کہ سب سے زیادہ تعلق
میرے ساتھ ہے.. سب سے زیادہ شفقت میرے اوپر فرما رہے تھیں... ایسا استاد جو
عالموں کا عالم کا بھی استاد ہو... تمام عمر طالبعموں کو حدیث پڑھا کر
گزارا ہو... باتیں حکمت ودانائی کے کرتا ہو..جب ھر چیز ساتھ تھی... مال و
دولت کی فراوانی تھی... تو لوگوں نے بھت جودوسخا کی بناء پر سخی جان سے
مشھور کیا. دل غنی رہا.. خود دار ہو... ملنسار ہو... ھر وقت زبان پر بے
انتھا تشکر وامتنان کے الفاظ.. بے حد تکلیف... بیماری کے باوجود.. کسی کو
تکلیف و بیماری کا پتہ نہ چلے.. جو بیماری پر بھی خوش رھتا ہو.. تکلیف میں
بھی مسکراتا ہو... چھرے پر بشاشت ھو.. دل میں اللہ سے رابطہ ھو... تو ایسا
استاد بھت کم اور خوش قسمت لوگو کو نصیب ھوتا ھے.. آج غم بالائے غم یہ ہے..
درد ھے... دکھ ہے تو یہ ہے... کہ میں تو کمزور ہوں.. کم ہمت ہوں.. اسکی کس
نصیحت پر عمل کروں.. اسکی وصیت کو پورا نہیں کرسکتا ہوں..
...یا اللہ..... میرا تو آج دل پھٹ رہا ہے... پھوٹ پھوٹ کر.. چیخ چیخ کر
رونے کو دل چاھتا ہے.... کیوں اسکی وصیتیں پورا نہیں کرسکتا... میں گُم سُم....
پیر نہیں چل رہے... کیسے صلہ رحمی کروں... کہ اسکو قبر میں راحت پہنچاؤں..
میری تو زبان نھی چل رہی... بوجھل ہے.. کس سے اظھار ھمدردی کروں... کس
بھائی کی مدد کروں... بُخل آڑے آتی ھے...
یا اللہ تو مجھے حوصلہ دیدے.. توفیق دیدے.. ہمت دیدے... اسکی نصیحتوں پر
عمل کرنے..... اسکی وصیتوں کو پورا کرنے کی.... اسکی روح کو سکون پھنچانے
کی.... آمین یا رب العالمین |