یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حکیم محمد سعید اگر نہ
ہوتے تو پاکستان میں طب کا وجود ختم ہوچکا ہوتا۔ترقی و فروغ اور اطباء کو
تسلیم کیا جانا، پھر طب کو علمی وعالمی سطح پر موضوع فکرو تحقیق بنانا حکیم
محمد سعید کا ایسا کارنامہ ہے جس پر بجا طورپر انہیں شعبہ طب کا مجدد قرار
دیاجاسکتا ہے۔نہ صرف میدان طب میں ان کی خدمات قابل فخر ہیں بلکہ تعلیمی
فروغ کے حوالے سے بھی ان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا
۔تعمیرواستحکام وطن اور تعمیر اذہان ملت، نو نہالوں کی تعلیم و تربیت ،حفظ
صحت کا شعور بیدار کرنے اور دیگر ملی شعبوں میں انہوں نے جو کارہائے نمایاں
انجام دیئے ،مستقبل کا مورخ ان سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔آپ ؒ کے آباؤ اجداد
کا تعلق چینی شہر سنکیانگ سے تھا۔ اڑھائی سوسال قبل آپؒ کا خاندان ہجرت
کرکے پہلے پشاور ،پھر ملتان اور بعد ازاں دہلی جا بسا۔دہلی میں آپ کا مسکن
کوچہ کاشغری میں تھا۔1883ء میں عبدالمجید پیدا ہوئے جنہوں نے 1906ء میں
دہلی شہر میں ایک سو روپے مالیت سے ادارہ "ہمدرد " کی بنیاد رکھی ۔9جنوری
1920ء کو ان کے گھر ایک نومولد بچے کی پیدائش ہوئی جس کا نام محمد سعید
رکھا گیا ۔ابھی آپ دو سال ہی کے تھے کہ والد گرامی کا انتقال ہوگیا اب آپ
کی پرورش کی ذمہ داری بڑے بھائی عبدالحمید کے سر آن پڑی 9سال کی عمر میں آپ
نے قرآن حفظ کرلیا،ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رہا ۔حکمت
کی تعلیم طیبہ کالج دہلی سے حاصل کی ۔پاکستان ابھی معرض وجود میں نہیں آیا
تھا کہ حکیم محمد سعیدکو عالم غیب سے خوشخبری مل گئی کہ بہت جلد دنیا کے
نقشے پر اسلامی دنیا کا عظیم ملک "پاکستان " ابھر رہا ہے ۔آپ نے اس لیے
دہلی سے ہجرت کرکے کراچی آنے کا فیصلہ کیا کہ آپ مزاجاً ہندوستانی حکومت کے
وفا دار نہیں رہ سکتے تواصولاً آپ کو وہاں رہنا بھی نہیں چاہیے تھا ۔ایک
جگہ آپ لکھتے ہیں کہ تمام دوستوں اور عزیزواقارب کے علاوہ مولانا ابوالکلام
آزاد ، خواجہ حسن نظامی نے بھی مجھے پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا۔9جنوری
1947ء کو جب میں پالم ایئرپورٹ پر جہاز میں سوار ہونے کے لیے پہنچا تو میرے
استاد مولانا قاضی سجاد حسین میرے بھائی کو کہہ رہے تھی آپ فکر نہ کریں
،پاکستان کے تلخ حالات کا سامناکرناپڑیگا اور تابڑتوڑ ناکامیوں کے حملے
ہونگے تو محمد سعید چند دنوں ہی میں پریشان ہوکر واپس لوٹ آئیں گے۔حکیم
محمد سعید پاکستان پہنچے ،نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے چہار جہتوں
پرکام شروع کیا ،طبی دواسازی کوجدید سائنسی خطوط پر استوار کرکے فروغ دینا،
طبی تعلیم کو میعاری بنانا ، مطب کے ذریعے طب کو رواج دینا، اطباء کومتحدو
منظم کرکے طب کو اسکا حقیقی مقام دلانا،سب سے پہلے طبی دواساز ی کا ادارہ
ہمدرد قائم کیا۔پھر مطب ہمدرد بنائے ، انجمن ترقی طب ،موجودہ پاکستان
ایسوسی ایشن فار ایسٹرن میڈیسن قائم کرکے اس کے زیر انتظام جامعہ طبیہ
شرقیہ قائم کیا۔جب ہمدرد ایک مستحکم ادارہ بن گیا تو اسے وقف کردیا اور خود
مقاصد ہمدرد کے وقف ہوگئے ، ہمدرد جلد ہی صنعت کے ساتھ ساتھ ایک قومی و طبی
تحریک بنتا چلا گیا ۔طب پر علمی، عالمی کانگریسوں کا اہتمام ، نادر و نایاب
طبی کتب کے تراجم ،طبی جرائد کا اجراء کیا۔اس طرح ہمدرد کی شناخت ایک طبی
تحریک کے طورپر ہوئی اور پوری دنیا میں آواز طب بن گیا ۔اس جدوجہد کی وجہ
سے طب کو بہ نگاہ حقارت دیکھنے کا دور ختم ہوا۔طب کی نشائستہ ثانیہ کا جو
سلسلہ پاکستان سے شروع ہوا وہ پوری دنیا کا محبوب ٹھہرا ۔دواسازی کا کام
جدید سائنسی انداز سے ہورہا ہے ۔ہمدرد کے بعد دوسرے اداروں کے لیے بھی
راہیں ہموار ہوئیں۔آپ کو لکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا ،آپ نے طب ،صحت کے
علاوہ اسلام اور تاریخ پربھی کتابیں لکھیں ۔جس کے تراجم انگریزی ، پشتو،کے
علاوہ پنجابی اور سندھی میں بھی ہوئے ۔1978ء میں شاہ فیصل نے مکۃ المکرمہ
میں ایک عالمی تعلیمی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں دنیا بھر کے ماہرین
شریک ہوئے ان میں حکیم محمد سعید کو بھی مدعو کیا گیا ۔حکیم صاحب ایک جگہ
لکھتے ہیں کہ سار دن ہم سب کانفرنس میں مصروف رہتے جب نماز عشا کا وقت ہوتا
تو خانہ کعبہ میں پہنچ جاتے ،ساری رات مصروف عباد ت ،طواف و سعی کرتے
،نمازفجر ادا کرکے واپس ہوٹل میں آجاتے۔آپ کہاکرتے تھے کہ انسان سونے کے
لیے دنیا میں نہیں آیا۔مقام ابراہیم پر بیٹھ کر میں سوچ رہاتھا کہ کوئی بڑا
کام کرنا چاہیئے وہیں پر مدینہ الحکمت کا نام ذہن میں آیا ۔ان میں نونہالوں
کے لیے تعلیم کا مرکز ہمدرد ویلج اسکول، ہمدرد پبلک سکول نوجوانوں کے لیے
کالجز،ہمدرد یونیورسٹی ہیں ہمدرد یونیورسٹی کے تحت ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف
انفارمیشن ٹیکنالوجی ،ہمدرد کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینڈسٹری ؟ہمدرد المجید
کالج آف ایسٹرن میڈیسن ،ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز،ہمدرد اسکول آف
لاء ، ڈاکٹر حافظ محمد الیاس انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل سائنسز،فیکلٹی آف
انجیئرنگ سائنسزاینڈ ٹیکنالوجی ،فیکلٹی آف فارمیسی شامل ہیں ۔بیت الحکمہ
میں مختلف موضوعات پر اس وقت پانچ لاکھ سے زائد کتب موجود ہیں۔بچوں کے دینی
کتابیں لکھیں ،نقوش سیرت کے نام سے رسول ﷺ کی پاک زندگی کے سبق آموز واقعات
تحریرکیے۔احادیث مبارکہ پر مشتمل کتاب "خوب سیرت"شائع کی۔آپؒ گورنر سندھ
بھی رہے اور وفاقی وزیر بھی ۔لیکن کسی بھی حالت میں مطب سے دورنہ ہوئے۔حکیم
محمد سعید کراچی سے اٹھنے والی ایک لسانی تنظیم کے خلاف چٹان بن کے کھڑے
تھے کہ 17اکتوبر 1998ء کی صبح آپ شہید کردیا گیا ۔بیشک ایسے عظیم لوگ صدیوں
میں پیدا ہوتے ہیں ۔
|