بلوچستان رقبے کے لحاظ سے
پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ جو کہ معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔
اس کے دارالحکومت کوئٹہ کو انواع و اقسام کے درختوں اور جنگلی حیات کی
بہتات کے باعث ”پاکستان کا فروٹ گارڈن“ کہا جاتا ہے۔ ملک کا یہ حصہ انتہائی
اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم اپنی اہمیت کے باوجود اسے کئی عشروں سے
بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔
بلوچستان محبت اور امن کی سرزمین ہے، مگر ریاست یا سماج دشمن عناصر کی
سرگرمیوں اور حکومت کی ناقص کارکردگی نے صوبہ کی خوب صورتی اور معیشت کو
تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ ہر حکومت اپنے آغاز کے وقت بلوچ عوام کی فلاح
بہبود کے عزائم ظاہر کرتی ہے۔ سیاسی رہنما بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں جب کہ
بعدازاں اپنے وعدوں کے ساتھ رخصت ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ سفید جھوٹ ثابت
ہوتے ہیں، جن کا بلوچ عوام کے حقیقی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تاہم
اس وقت جب ہمیں ان کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے کیوں کہ پورا
صوبہ ہمہ جہت مسائل بہ شمول ٹارگٹ کلنگ، سیلاب سے ہونے والی وسیع پیمانے
پرتباہی، سیاسی عدم استحکام اور اسی طرز کے دیگر مسائل کا سامنا ہے۔
آج صوبہ بلوچستان بالخصوص اس کے دارالحکومت کوئٹہ کو متعدد چیلنجوں کا
سامنا ہے، تاہم سب سے اہم مسائل کی شکل میں قدرتی آفت سے ہونے والی تباہی
اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہیں۔ صوبہ بھر میں سیلاب سے ہونے والی تباہی نے
لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا ہے۔ جب کہ ڈیرہ مراد جمالی، تمبو، لونی، قلعہ
سیف اللہ، کوہلو، بارکھان، موسیٰ خیل اور بلوچستان کے جنوبی اور شمالی
علاقوں میں لوگ اب تک سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری جانب نصیرآباد کی اوچ
شاخ اور دیگر کئی دیہات پانی اور ہوا کے عمل سے زمین گھسنے کے باعث مکمل
طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔
سیلاب متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت اب تک ان دُور دراز علاقوں تک نہیں
پہنچی ہے، جہاں لوگوں کو کھانے کی اشیاءکی قلت کے باعث انتہائی مشکلات کا
سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بڑا زرعی علاقہ بہ شمول کھڑی فصلیں زیرِ آباد آگئی
ہیں۔ حکومت امداد کی فراہمی کے ضمن میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ دوسری
جانب وفاقی اور صوبائی مشینری نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں انتہائی غفلت
کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈیرہ الٰہ یار، نصیرآباد کے ایک علاقے میں سیلابی پانی
اب تک کھڑا ہوا ہے جو کہ حکومت کی غفلت اور ناقص کارکردگی کی واضح عکاسی
کررہا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں شروع کی گئی امدادی
سرگرمیاں بڑے پیمانے پر تباہی کو دیکھتے ہوئے ناکافی ہیں۔
آج صوبہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتِ حال
دیکھ کر کوئی بھی بلوچستان میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا۔ یہ صورتِ حال
نہ صرف صوبہ کی معیشت تباہ ہونے کا سبب بن رہی ہے بلکہ بلوچ عوام کی
زندگیاں بھی متاثر ہورہی ہیں، ان میں بداعتمادی اور فرسٹریشن کے جذبات
پروان چڑھ رہے ہیں۔
وزیرِاعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں
کو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث افراد اور ریاست مخالف دیگر عناصر کے
خلاف سخت کارروائی کرنے کی واضح ہدایات کے باوجود قانون نافذ کرنے والے
ادارے صوبہ بھر میں ٹارگٹ کلنگ کی عفریت پر قابو پانے میں تاحال ناکام ہیں۔
یہ عناصر نہ صرف بلوچ اقدار بلکہ اسلامی اقدار اور روایات کے بھی دشمن ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وقت متحرک ہوجائیں جب
قوم ہمہ جہتی چیلنجوں کا سامنا کررہی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ صوبہ میں امن وامان کی صورتِ
حال سابق صدر پرویز مشرف حکومت کے دوران اُس وقت بگڑی جب انہوں نے بلوچستان
میں فوجی کیمپوں کی تعمیر کے احکامات دیے۔ اور اب جمہوری حکومت کے دَور میں
بھی صورتِ حال میںکوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جمہوری حکومت کے قیام کو ڈھائی
برس گزرنے کے باوجود امن وامان کی صورتِ حال اب تک بدترین ہے۔
حالاں کہ کئی انٹرنیشنل این جی اوز بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی
بحالی کے لیے کام کرنے کے خواہش مند ہیں تاہم امن و امان کی بدتر صورتِ حال
کے باعث کوئی ورکر یہاں کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ علاقہ میں ٹارگٹ کلنگ
کے واقعات سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی زیادہ اثر اندوز ہورہے ہیں۔ تاہم اس
کا خمیازہ بلوچ عوام کو بھگتنا ہوگا، جنہیں سیلاب کی تباہ کاریوں یا ٹارگٹ
کلنگ کے واقعات دونوں صورتوں میں نقصان برداشت کرنا ہوگا۔ صوبہ کی بگڑتی
ہوئی صورتِ حال کی وجہ حکومت کی معاملات کو سدھارنے میں ناکامی اور معاملات
میں عدم دلچسپی ہے۔
آج کل درپیش چیلنجز دیگر متعلقہ معاملات کا باعث بھی بن رہے ہیں، ان میں
سیاسی عدم استحکام، علیحدگی پسندی کے معاملات، فنڈز کی کمی اور بعدازاں ان
کی تقسیم، اقتصادی مسائل، سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے سست کارروائیاں اور
اغواءکے معاملات شامل ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بدترین صورتِ حال پر سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ
دہشت گردی کی حالیہ لہر پر کس طرح قابوپایا جاسکتا ہے۔ سیلاب متاثرین کو کس
طرح زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ بہ صورتِ دیگر ہم ملک اور
بالخصوص بلوچستان میں امن و امان کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ |