قرآن کو تھام لو

کوئی اگرسوال کرے کہ وہ کون سی قوم ہے جس کے ساتھ پچھلے چودہ سوسال سے عالمِ اسلام کی مسلسل جنگ ہورہی ہے،بغیر اس کے کہ اس جنگ میں کوئی ایک دن کابھی وقفہ آپایاہو،تواس کے جواب میں”روم”کے علاوہ شایدآپ کسی بھی قوم کانام نہ لے سکیں!توپھرکیایہ ضروری نہیں کہ اس جنگ کانقشہ جوآج بھی نہیں رکی بلکہ ہمارے خلاف ان کی یہ جنگ آج ایک بھیانک ترین رخ اختیارکرچکی ہے،ملت کے کسی فردکی نگاہ سے روپوش نہ رہے؟ احادیث کے اندر”روم”کے کئی سینگ بتائے گئے ہیں،کہ جب ایک سینگ جھڑے توان کاایک اورسینگ کہیں سے برآمدہوجائے گا ۔دیکھنایہ ہے کہ اس وقت اقوامِ روم کاوہ کون سا”سینگ” ہے جوعالمِ اسلام کوپٹخ دینے کیلئے اس وقت”روم”کے سرپرلہرارہاہے اورقدسیانِ اسلام کی جان لینے کے درپے ہے؟

بنیادی طورپریورپ ایک بہت چھوٹاسابراعظم ہے،جوکہ بہت صدیاں پہلے وہاں بسنے والی گوری اقوام کیلئے تنگ پڑگیاتھا۔ طبعی بات تھی کہ یہ اقوام اپنے مسکن کیلئے نئے خطوں کی دریافت کیلئے اٹھ کھڑی ہوتیں….مگر سوال یہ ہے کہ یورپ سے نکل کر وہ جاتیں کہاں؟ کئی ایک مؤرخین نے سلطنتِ عثمانیہ کے جومحاسن بیان کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ عین اس وقت جب یورپی اقوام اپنے گھروں کی تنگی کے باعث نئے خطوں کی تلاش میں تھیں،جبکہ ان اقوام کوجوقریب ترین ہمسایہ پڑتاتھا وہ سب کی سب مسلم عرب اقوام تھیں جن کی زمینیں ہتھیانے کیلئے ان یورپی اقوام کو صرف بحرابیض پارکرکے آناپڑتا..اوربلا شبہہ یہ توسیع پسندقومیں اپنی بڑھتی ہوئی آبادیوں کیلئے شام،مصر،لیبیا،الجزائر، تیونس،مراکش اوران کے مابعدپائے جانے والے ان سب زرخیز وسیع وعریض خطوں پرللچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی بھی رہیں..ان زرخیز زمینوں پرچڑھ آنے کیلئے ان کوہمت مگر اسلئے نہیں پڑرہی تھی کہ ان کوماربگھانے کیلئے ایک مضبوط وتواناخلافت یہاں موجودتھی،جونہ صرف ان کو مشرقِ وسطیٰ اورشمالی افریقہ کی طرف میلی آنکھ اٹھاکردیکھنے نہ دیتی تھی بلکہ پورایورپ افواجِ خلافت کی دھمک سے لرزرہاتھابلکہ آدھایورپ تو اس کے ہاتھوں تاراج ہوچکاتھا۔

بحرابیض جس کومؤرخ”وہ حوض جس کےگردتہذیب گھومتی رہی”کانام دیتاہے،گویااس وقت خلافت کی جاگیرتھی اوراس میں کوئی اس کی اجازت کے بغیرپرنہ مارسکتاتھا۔دنیاکے سب آبادخطوں تک یورپ کاراستہ اسی بحرابیض سے گزرتاتھایاپھرایشیائے کوچک کی خشکی(حالیہ ترکی )سے جس پرکہ عثمانیوں کی اپنی خلافت قائم تھی۔تیسراراستہ بحراوقیانوسکاہوسکتاتھاجس میں جہاز رانی کرتے ہوئے پورے براعظم افریقہ کے اوپرسے ہزاروں میل کاایک طویل چکرکاٹناپڑتاتھااورجہاں سے فوجی مہمات گزارناتو قریب قریب ناممکنات میں تھا۔ نتییجتاًیورپ اتنی صدیاں پوری دنیاسے کٹ کراپنے اسی چھوٹے سے خطے میں دبک کرپڑا رہا۔ کسی کے ہنستے بستے گھرپرقبضہ کرناتب بڑے ہی جان جوکھوں کاکام تھا۔ آخر کارمغربی اقوام کو”نئی دنیا”کارخ کرنا پڑاجوکہ اُس وقت کے بیابان کہلاسکتے تھے آج کابراعظم شمالی امریکا،براعظم آسٹریلیا،جزائرنیوزی لینڈ اورکئی دیگر خطے جن اقوام کامسکن ہیں وہ یہی یورپی اقوام ہیں جوہمارے اسلامی مصادرمیں”روم”یا”بنی الاصفر”کے نام سے جانی جاتی رہی ہیں اورجوکہ یورپی تاریخ،یورپی نفسیات،یورپی عصبیت اوریورپی روایات لئے،بمع بائبل وصلیب،آج یہاں مالکوں کی طرح براجمان ہیں!
خداکاشکرکیجئے کہ تب خلافت تھی اوراسی وجہ سے ہماراذکرتاریخ کے اندر”ریڈانڈین اقوام”کی طرزپرنہیں ہوتاالبتہ”تہذیب”کی دعویداران اقوام کی نظر میں کوئی بھی غیرقوم،جوایک زرخیزملک رکھتی ہواورقدرتی وسائل سے لبریزسرزمین کی مالک ہو، صرف اورصرف”ریڈ انڈین”کے طورپر دیکھی جاتی ہے!اپنے گھروں کے پھاٹک کھولنے والوں کو”تہذیب”کے ان نام لیواؤں کی خیرسگالی بالآخرکتنی مہنگی پڑتی ہے،اس کیلئے ان اقوام کی تاریخ پڑھیے جوبڑی حدتک اب صرف”تاریخ”میں ہی ملتی ہیں اورخاصی حد تک اب صرف”انتھروپالوجی”کا موضوع ہیں۔ایک باعزت تاریخ رکھنے کیلئے آپ کوایسے آباءسے نسبت چاہیے جواپنی آئندہ نسلوں کیلئے اپنی میراث کاتحفظ یقینی بنانے کے معاملہ میں آخری حد تک بے لحاظ ہوں اورجوکسی کی”آؤ بھگت ” میں فراخدلی کی اس حد تک چلے جانے کے روادارنہ ہوں کہ بالآخراپناگھربھی باہروالوں کے حوالے کربیٹھیں،جہاں ان کی اپنی نسلیں پھراگررہنے کی اجازت پائیں بھی تو”کرایہ دار”بن کر۔

البتہ آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کیلئے کس قسم کے”آباء”ثابت ہورہے ہیں اوراپنی نسلوں تک ان کی امانت بحفاظت پہنچانے کاکیا انتظام کررہے ہیں، جہاں ہمارے روشن خیال اس حد تک چلے جانے پرتیارہیں کہ ان بن بلائے مہمانوں کیلئے ملکوں کے نہیں ذہنوں کے پھاٹک تک چوپٹ کھول دیں…. آج کی اس جنگ میں،جس کوتہذیبوں کی جنگ کہاجاتاہے،ہم اپنے وجودکے تحفظ کیلئے کیا پوزیشن لیتے ہیں،ریڈ انڈینزکی تاریخ خصوصاً ریڈانڈینزکے گورے مہمانوں کی تاریخ پڑھتے ہوئے،ایک نظراس پہلوسے ڈالنابھی ہرگزنہ بھولئے گا۔ پس”اقوامِ روم“کوان کے دین،تاریخ اورتہذیب سمیت شناخت کرنا ہوتوآج وہ”یورپ”تک محدودنہیں۔”ملتِ روم” یقیناًاس سے بڑھ کر اب امریکاسے آسٹریلیا تک جاتی ہے۔

اپنے بہت سے تاریخی خصائص،اپنی تاریخی وابستگی اوراپنی تاریخی دشمنی ان اقوام کوآج تک نہیں بھولی۔افغانستان میں ہم پر چڑھ آنے والی فوجوں میں “ملتِ روم”کی کسی قوم کاجھنڈاآج آپ مفقودنہ پائیں گے چاہےعلامتی طورپرچندفوجی بھیجے مگر” مقدس جنگوں”میں شمولیت کے تمغہ سے محروم رہ جانا”بنی الاصفر”کی کسی قوم کوآج اس”سیکولر”دورمیں بھی قبول نہیں(“سیکولرازم”کی یہ احمقانہ قسم صرف ہمارے لئے ہے)البتہ ان کی ان”مقدس جنگوں”جن کادوسرانام صلیبی جنگیں ہیں،کے بالمقابل کتنے”مسلم ملک”ہیں جو”علامتی طورپر”ہی یہاں اپنے پائے جانے کاثبوت دے لیں؟ان صلیبی پھریروں کے مد مقابل آناتو خیردل گردے کی بات ہے،کتنے مسلم ملک ہیں جواپنی”اللہ اکبر“کی نعرہ بردارافواج کوان صلیبیوں کے شانہ بشانہ”مسلم باغیوں” کی گوشمالی کیلئے چاک وچوبند رکھے ہوئے نہیں؟

معززمہمانوں کااتناخیرمقدم توہمارے ایمان فروش پہلی صلیبی جنگوں کے موقعہ پرنہ کرپائے تھے۔کہاں خلافت جوان اچکوں کو دورسے ماربھگایا کرتی تھی اورکہاں آج کے یہ قومی راجواڑے جوان صلیبی پھریروں کے نیچ پیادوں میں نام درج کروانے کیلئے اوران کے رتھوں کی راہ سے”رکاوٹیں” ہٹانے کیلئے کسی بھی قربانی سے ہرگزدریغ نہ کرنے کاعزم بارباریوں دہراتے ہیں جیسے ایک مخلص عبادت گزاراپنے صبح شام کے اذکارکرتاہے!دینِ محمد کے خلاف صلیب کی جنگ کو”اپنی جنگ”کہتے ہوئے کیسایہ ایک”تحفظ”محسوس کرتے ہیں اورایمان کی سرحدوں کی حفاظت پہ آمادہ مجاہدوں کوبرے سے برے القاب دینے میں اپنے آقاؤں تک کوپیچھے چھوڑدینے کیلئے کس قدربے چین نظرآتے ہیں۔ابھی ہمارے کچھ نکتہ وروں کو اصرار ہے کہ ان راجواڑوں کواب”خلافت”اور”دارالاسلام اورالجماعۃ”ہی کاقائم مقام جاناجائے اورامتِ اسلام کوبقیہ عمربس اب اسی”یواین”سے منظوریافتہ”آئی ایم ایف”کے باجگزارانتظام پرقناعت کروائی جائے کہ ان کے خیال میں اللہ کااس امت کے ساتھ وعدۂ نصرت(اس شرط پرکہ خودیہ اللہ کی نصرت پہ آمادہ ہو)بس ایک ہی بارکیلئے تھا،جس کی میعادان کے بقول اب ہمیشہ کیلئے ختم ہوچکی ہے۔

وہ سب کینہ وبغض جوتاریخی طورپرملتِ روم ہمارے ساتھ رکھے رہی ہے اورجس کوکہ وہ اپنامقدس ترین ورثہ جانتی ہے اوراس کے نام پراپنی”مقدس جنگیں”کھڑی کرتی آئی ہے….مغرب کی سیادت کاپرچم یورپ سے امریکامنتقل ہواتواس کے ساتھ ہی وہ سب کا سب کینہ وبغض بھی”یورپ” سے قیادت ہائے متحدہ امریکاکومنتقل ہوگیاجومغرب کے ہاں نسل درنسل چلاآتارہاتھا۔ریاست ہائے متحدہ امریکا……ملتِ روم کایہ وہ فرزندہے جس سے کوئی اورچوک ہویانہ ہو،مسلمانوں کے ہردشمن کودوست اورہر دوست کودشمن سمجھنے میں کبھی ایک باربھی چوک نہیں ہوپاتی۔ مسلمانوں کاکوئی ایک مفادایسانہ ہوگاجس کوزک پہنچانامغرب کے اس”پرچم بردار”کوکبھی بھول گیاہو۔جنرل اسمبلی سے لیکرسلامتی کونسل تک اورنیٹوسے لیکرورلڈبینک اورآئی ایم ایف تک،ہرجگہ اورہرفورم پرمسلمانوں کی تباہی کاہرمنصوبہ اورہرسارش اس کی کھلی تائیداورحمایت پاتی ہے۔

اسرائیل سے لیکربھارت تک اوراتھیوپیاوجنوبی سوڈان سے لیکرفلپائن کے صلیبیوں اورمشرقی تیمورکے باغیوں تک مسلمانوں سے برسرِپیکارہر سرکش اورہرغاصب اس کومظلومیت کی داستان نظرآتارہااورفلسطین سے کشمیرتک اورارٹیریاوصومالیہ سے چیچنیا،مسلم تھائی لینڈاورمسلم فلپائن تک ہرنہتی مسلم قوم اس کو”دہشتگرد”اور”عالمی امن کیلئے شدیدخطرہ”دکھائی دیتی رہی۔ملتِ روم کے اس حالیہ”نقیب”کی حقیقتِ حال ہماری آنکھوں سے اوجھل رہی توکچھ اس لئے بھی کہ اس کی اصل حقیقت پر “کمیونزم کے خلاف جنگ”نے ایک وقتی ساپردہ تان دیاتھاالبتہ اس کااصل چہرہ کوئی ہے تووہی جس سے دنیا کمیونزم کے سقوط کے بعد اب واقف ہورہی ہے،اورجس میں،سوائے اسلام کے خلاف اندھی نفرت اور بغض کے،کوئی دوسرا نقش نظرتک نہیں آتا ۔بے شک کمیونزم ایک بڑااورفوری خطرہ تھااوراس کے خلاف عالم اسلام نے جواقدام کیاوہ بے حد ضروری تھا،اوربے شک”روس”بھی اصل میں تو ملتِ روم کے ہاں سے ہی ابھرآنے والاایک”سینگ”رہاہے،اس کے باوجود”بنی الاصفر”(گوری اقوام) کاتاریخی ورثہ سارے کاسارابلاکم وکاست” امیریکن ایمپائر”ہی کومنتقل ہواہےاورملتِ روم کے سب تاریخی خصائص بدرجۂ اتم اسی عالمی طاقت کے حصے میں آئے ہیں،جوکہ جغرافیائی طورپر ضرور بحراوقیانوس کے پاربیٹھی ہے مگرعملاًاس کی فوجیں اورطیارہ ومیزائل برداربحری بیڑے اس وقت سات سمندروں اورسات براعظموں کاگشت کرتے پھر رہے ہیں اورپوری دنیا خصوصاً عالم اسلام کواپنی جکڑمیں رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگائے ہوئے ہیں۔

چنانچہ یہ ایک طبعی بات تھی کہ کمیونزم سے نمٹنے کاعبوری دورگزارتے ہی یہ معاملہ وہیں پرآرہتاجہاں پریہ پچھلے چودہ سو سال سے ہے اوریہ کہ جس جگہ پریہ لوگ”عالمی جنگوں”کے چھڑجانے کے باعث ہمیں چھوڑکرگھرجانے پرمجبورہوئے تھے اوراس کے ساتھ ہی پھرروس کے ساتھ چھڑ جانے والی ان کی سردجنگ نے ہمارے کچھ عشرے نکلوادئیے تھے،جس سے ہمیں اپنی صفیں درست کرلینے کاکچھ تھوڑاساموقعہ ہاتھ آگیاتھا طبعی بات تھی کہ “روس”وغیرہ سے فارغ ہوتے ہی یہ ہمیں وہیں سے آکرپھردبوچ لیں اورعالم اسلام کے اندراپنے اسی ایجنڈے کی تکمیل پرازسرنوجت جائیں جس میں کچھ “مجبوریوں”کے باعث کوئی صدی بھرکاتعطل آگیاتھااورجس میں سرفہرست اس بات کویقینی بناناہے کہ ہمارے تہذیبی خدو خال مسخ ہوکررہ جائیں ، اپنی فکری اورتاریخی بنیادوں کے ساتھ ہمارارشتہ نام کوبھی باقی نہ رہے اورپھرخصوصاًیہ کہ خلافت“کاامکان اس امت کے اندراب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے کیونکہ”خلافت”ایک ڈراؤناخواب ہے جوآج اگرقائم ہوجاتی ہے توان کوڈرہے کہ کمزورقوموں کے وسائل ہڑپ کرنے اور”تیسری دنیا” کے اندرلوٹ مچانےکی آزادیاں تورہ گئیں ایک طرف،یہ(خلافت)ان کوبحراوقیانوس کے دوسرے پار چھوڑکرآئے گی،وہ بھی اگریہ ان کے ساتھ “پوراپوراحساب کرنے پرنہ آئی ورنہ”خطرہ”اس سے بھی کہیں بڑاہے۔

“خلافت”چونکہ ایک ایساادارہ ہے جوایمان اورجہادکی ایک خاص فضامیں قائم ہوتاہے اورمسلم معاشروں کے،اسلامی تربیت اور تہذیبی پختگی کی ایک خاص سطح کوپہنچاہونے کی عکاسی کرتاہے،لہٰذا”خلافت“کے قیام کاامکان ختم کردینے کاراستہ صرف اور صرف یہاں سے گزرتاہے کہ اس امت کے اندرایمان،عقیدہ،علم اورتربیت کے سب سوتے خشک کردئیے جائیں،اس امت کوقرآن کا نام تک بھول جائے اور”جہاد” کالفظ تو مسلمانوں کی قاموس سے ہی خارج کردیاجائے کیونکہ جب بھی ایمان،عقیدہ،علم اورتربیت“ کے عمل نے”جہاد“کوجنم دیا اور یہ واقعہ امت میں کسی بڑی سطح پررونماہونے لگا”خلافت“کے سوا اس کی طبعی منزل تب کوئی ہوسکتی ہے اورنہ کسی مسلمان کے ذہن میں اس کے سواکوئی بات فٹ بیٹھتی ہے۔کیایہ بات ان کیلئے پریشان کن نہیں کہ دین کی طرف آنے والاایک معمولی فہم کامالک مسلمان بھی”خلافت“کے سوال پربہت جلد پہنچ جاتاہے اور”تاریخ“ پڑھنے والاتو ہرشخض یہ پوچھنے بیٹھ جاتاہے کہ آخریہ”خلافت”کیاچیزتھی؟

آج ہمارے مدرسوں اورتعلیمی نظاموں کی بابت اس قدرگہری تشویش اسی”خوف”کی علامت ہے اوراس کوکسی چھوٹے سیاق میں لیناہماری ایک بڑی غلطی ہوگی۔بعیدنہیں ہمارے”تعلیمی نصاب”کسی وقت ان کی جنگوں یاکم ازکم ان کی پابندیوں کی بنیاد بن جائیں۔علاوہ ازیں میڈیاخصوصا ٹی وی کے نجی چینل اپنی تہذیبی جہتوں کے لحاظ سے قریب قریب آج یہاں یہودی ایجنڈے کا ہی دوسرانام ہیں،جس پران کی محنت اس وقت دیدنی ہے۔یہاں تک کہ یہاں کے زیادہ مقبول چینلوں پر”اسلام”کے نام پردی جانے والی تفیہم بڑی حدتک انہی کے مقاصدپورے کرتی ہے،خواہ وہ حقیقتِ دین کومسخ کرنے اوراس امت کواس کے علمی وفکری مسلمات سے محروم اورقرونِ سلف سے برگشتہ کرنے کے معاملہ میں ہو،خواہ بے دینی کواسلام کے”دلائل”سے لیس کرنے کے معاملے میں،خواہ مسلمانوں کے اندر”امت“کاتصورختم کرنے کے موضوع پر،خواہ رواداری کے باطل مفہومات پڑھانے ولاءوبراءکے عقیدہ کاخاتمہ کروانے بلکہ وحدتِ ادیان کی راہ ہموارکرنے کے معاملہ میں،اورخواہ”جہاد“کواسلام سے انحراف ثابت کرنے کے “شرعی دلائل” دلوانے کے معاملہ میں اسلام کایہ “جدیدایڈیشن”عین وہ مقاصدپورے کرتاہے جومسلمانوں کواپنی ایک اجتماعی قوت وجود میں لانے سے ہرقیمت پرروک دینے کاعمل یقینی بنائیں۔سب جانتے ہیں مسلمانوں کی ایک اجتماعی قوت کے وجودمیں آنے کاہی دوسرانام”خلافت”ہے۔

چنداچھی کوششوں کوچھوڑکر،باقی سب کچھ جو”میڈیا”کے نرسنگے میں اس وقت پھونکاجارہاہے وہ اسی ایجنڈے کاحصہ ہے جو ایک خاص شیطانی منصوبہ بندی اورکمال تیزرفتاری کے ساتھ یہاں آگے بڑھایاجارہاہے۔جتناان لوگوں کے پاس وقت کم ہے،اس کے پیشِ نظریہ کہاجاسکتاہے کہ عنقریب یہاں بڑے انقلابی لئے جائیں گے۔اب وہ وقت نہیں کہ مسلمانوں کے”جذبات”کاخیال کرتے ہوئے اپنے کام کویہ بلاضرورت مؤخرکرتے جائیں اور عشروں کے حساب سے وقت مزید”ضائع”کریں۔بہرحال میڈیاکے اندراگرہماری اسلامی قوتیں ایک بھرپورایجنڈالے کرآگے آتی ہیں تویہ ایک زبردست اوربروقت کام ہوگا، خصوصاًجبکہ ان کوسننے کیلئے زمین آج جس قدرتیارہے اتنی اس سے پہلے شایدکبھی نہ تھی۔حقیقت تویہ ہے دنیاآج امریکاکو سننے کیلئے نہیں بیٹھی بلکہ اسلام کوسننے کی منتظرہے۔

امریکاکے معروف مفکرفرانسس فوکویامانے کمیونزم کے سقوط پربغلیں بجاتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب” تاریخ کا اختتام”شائع کی تھی ۔ سیموئیل ہنٹگٹن کی کتاب””تہذیبوں کا تصادم”کے بعدشایدیہ دوسری کتاب تھی جس کومغرب میں اس موضوع پرایک غیرمعمولی مقبولیت ملی۔ فرانسس فوکویاما نے سوویت یونین کے بالمقابل امریکی جیت پرجوشیخی بگھاری،اس کالب لباب کچھ یوں تھا:مغربی جمہوریت جیت چکی ہے۔اس کی جیت کے ساتھ دراصل امریکااورمغرب کی جیت ہوئی ہے۔دنیاکے پاس مزید انتظارکیلئے اب اورکچھ نہیں رہ گیا۔دنیاکوجوکچھ “نیا” دیکھناتھاوہ دیکھ چکی یعنی مارکسزم کا خاتمہ،سوویت یونین کاٹوٹ کر بکھرنا اورآزادلبرل ڈیموکریسی کادنیا میں چہاروانگ شہرہ۔ یعنی یہ ڈیموکریسی اب مشرقی بلاک کے ان ملکوں میں بھی اپنالوہامنوارہی ہے جوکمیونزم کے نظام میں جکڑے ہوئے تھے چنانچہ اب تاریخ کادروازہ بند ہوتاہے آج کے بعد اب اورکچھ”نیا”نہیں ہونے والا۔ اگرکچھ ہوگاتویہی کہ اسی نظام میں کہیں کہیں معمولی اصلاحات اورتبدیلیاں کی جاتی رہیں ۔

فوکویاماکی اس تصنیف کے جواب میں،آج سے کوئی ایک عشرہ پیشترڈاکٹرسلمان العودۃ نے اسی عنوان سے ایک رسالہ” تاریخ کااختتام”قلمبندکیا تھا۔ یہاں اس رسالہ کے چنداقتباسات نقل کررہاہوں:
٭کمیونزم کو70سال سے زیادہ عمربھی نصیب نہ ہوئی۔70سال،جوکہ ایک عام انسان کیلئے تومناسب عمرہے مگرایک ملک یا ایک امت یاایک نظریے کیلئے ہرگزنہیں!ویسے ہی شفلنجرکی مغرب کے انحطاط کی پیشین گوئی ہے:”امریکاعالمی منظرنامے پر دوسری عالمی جنگ کے بعدایک غیرمعمولی سرعت سے بطورعالمی طاقت اورعالمی قیادت متعارف ہواہے یعنی اس لحاظ سے اس کی عمرابھی پچاس ساٹھ سال سے زیادہ نہیں بنتی جس کے دوران یہ عالمی پولیس مین بن بیٹھا ہے۔ اس لیے یہ حیرت انگیز نہ ہوگاکہ یہ نیچے بھی اسی تیزی سے جائے جیساکہ بعض تحقیقات اور تجزیے یہ امکان ظاہرکربھی رہے ہیں ” مزید برآں کمیونزم کے دریابردہوجانے کے ساتھ ہی عالم اسلام میں کمیونزم کی دم چھلہ حکومتیں بھی دھڑام سے گرگئی تھیں۔ کمیونسٹ پاریٹاں، کمیونسٹ مفکر،کمیونسٹ عناصرسب روپوش ہوئے اوراکثرتومغرب کی جھولی میں جاگرے تھے چنانچہ آج ان سب لوگوں کوخبردارکرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپناوجودمغرب کے وجودسے وابستہ کرلیاہے،جن کی سیاست کی سب گرہیں اب مغرب سے کھلتی ہیں،جن کی اقتصادکی سب تاریں اب مغرب سے ہلتی ہیں،جن کے سب فیصلے مغرب کے فیصلوں کے زیرنگیں بلکہ مغرب کے زیرفرمائش ہوتے ہیں اورجوکہ مغرب سے بھی بڑھ کرمغربی ہیں اورجوکہ عالم اسلام اوراقوام اسلام پرخودمغرب سے بھی بڑھ کربوجھ بن چکے ہیں۔ان سب کوربّ ذوالجلال کایہ فرمان سناکرخبردارکرناچاہتاہوں:
“پس تم دیکھتے ہووہ لوگ جن کے دلوں میں(نفاق کا)مرض ہے آج وہ اُن(یہودونصاریٰ)سے(تعلقات بنانے) میں دوڑدوپ کرتے پھرتے ہیں،کہتے ہیں ہمیں خدشہ ہے ہم پرکوئی براوقت نہ آن پڑے۔مگربعیدنہیں کہ اللہ جب(مسلمانوں کو)فیصلہ کن فتح بخشے گا یااپنی طرف سے کوئی اوربات ظاہر کرے گاتویہ لوگ اپنی اس(سازباز)پرجسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں،نادم ہوں گے”۔( المائدۃ: 52)

ان سبھی لوگوں کوبلکہ سب مسلمانوں کوخبردارکردینے کی ضرورت ہے کہ انسانیت کے سامنے اللہ کی پناہ میں آجانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیااوریہ کہ انسانیت کے سامنے اس”اسلامی حل”اور”اسلامی متبادل”میں پناہ پالینے کے سواکوئی جائے فرار نہیں جورب العالمین نے واجب ٹھہرایا ہے اوریہ کہ اس سے افراد کیلئے کوئی جائے رفتن ہے اورنہ حکومتوں کیلئے۔

٭روئے زمین پرایک مسلمان ہی ہیں جودنیاکومتبادل دینے پرقدرت رکھتے ہیں..اوروہ اس دین اومنہج کی صورت میں جواللہ کے ہاں سے نازل شدہ (قرآن)ہے۔چنانچہ ایک مسلمان ہی ہیں جواسلامی عدل کی بنیادپراقوام عالم کاایک نظام قائم کرسکتے ہیں،اقتصادکی الجھی گتھیاں صرف مسلمان سلجھاسکتے ہیں، سودکا شرعی متبادل صرف انہی کے پاس ہے،مشرق اورمغرب کے سب معاشرے جس ہولناک فساداور انحطاط کاشکارہوچکے ہیں اسلام کے پیروکارہی انہیں اس سے نجات دلاسکتے ہیں،خانگی نظام کی تباہی کاحل صرف ان کے پاس ہے،نوجوان جس طرح تباہ ہورہے ہیں ان کوراہ راست پر لے آناصرف اہل اسلام کیلئے ممکن ہے اورپھرسب سے بڑھ کریہ کہ مسلمانوں کے پاس وہ نظریہ ہے جوانسان کے قلب وذہن اورفکرو شعورکویقین اوراطمینان سے سرشارکرتاہے اورجس سے انحراف اختیارکرلینے پرانسانی ذہن کرب واندیشہ اورسرگردانی کاشکارہوجاتاہے۔

مسلمان اِن سبھی خزانوں کے مالک ہیں اورانہی کایہ فرض بنتاہے کہ وہ ان کوعملی طورپراورواقعاتی انداز میں بھی دنیا کوپیش کرکے دکھائیں اور نظریاتی تحقیقات کی صورت میں بھی مگرصورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے عیوب نے اسلام کے ان سب حسین پہلوؤں کوچھپارکھاہے۔ مسلمانوں کی علمی پسماندگی،دینی غفلت،دعوت الی اللہ کے فریضہ کوطاق نسیاں میں رکھ دینا،آپس میں تفرقہ،اختلاف اورپھرمغرب کے پیچھے چل پڑنا..ان سب باتوں نے مغرب کویہ باورکرادیاہے کہ مسلمانوں کے پاس دنیاکو دینے کیلئے واقعی کچھ نہیں کیونکہ اگران کے اپنے پاس کچھ ہوتاتوآج یہ خودفکرمغرب کے ٹکروں پرنہ پل رہے ہوتے اورنہ ہی یہ سرتاپیرمغرب کے مقلداورمغربی تہذیب کے خوشہ چین ہوتے۔

٭اس موضوع پرلکھنااس لئے ضروری ہے تاکہ ان اسلامی مفادات کاتحفظ ممکن ہوسکے جوکسی وجہ سے مغرب کے ساتھ وابستہ کرادئیے گئے ہیں چاہے وہ مسلمانوں کے اقتصادی مفادات ہوں یاسیاسی یاانتظامی یاابلاغی یاتعلیمی۔مسلمانوں کوپور ی طرح اس گڑھے کاادراک ہوجاناچاہیے جس میں گرنے کیلئے مغرب سرپٹ بھاگ رہاہے۔یہ ادراک ہوگاتوہی وہ مغرب کے ساتھ بھاگتے رہنے یااس کے نرغے میں آئے رہنے سے چھٹکاراپاسکتے ہیں۔

٭اورآخر میں اس مضمون کواس لیے بھی چھورہاہوں کہ یہ اللہ کے اس فرمان کاتقاضاہے:
اورسچے مومنوں(کاحال اس وقت یہ تھاکہ) جب انہوں نے حملہ آورلشکروں کودیکھاتوپکاراٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کااللہ اور اس س کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا،اللہ اوراس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی۔(الاحزاب :22)

غزوۂ احزاب میں سچے مسلمانوں نے اپنے دین کی حقانیت اوراپنے روشن مستقبل پریقین کااظہاریونہی خطرات کی آندھیوں اور اندیشوں کے طوفان کے مد مقابل کھڑے ہوکرکیاتھا۔ہم بھی پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہناچاہتے ہیں کہ:امریکا یورپ اورمغرب بھی خدائی قانون کے نرغےاورفطری قانون کی زدمیں آئِیں گے جس طرح اورلوگ اس کی زدمیں آتے رہے ہیں اورایسا بہت جلدہونے والاہے۔اس سے یہ مطلب ہرگزنہ لیاجائے کہ مغرب کے اوندھا ہوکرگرپڑنے کی خبرسننے کیلئے آپ اپنے ریڈیوکی سوئی گھمانا شروع کردیں یاریموٹ پکڑکرٹی وی چینلزپرڈھونڈناشروع کردیں۔یاد رکھیں قوموں کی زندگی میں سال لمحوں کی طرح گزراکرتے ہیں۔

یہ لوگ عذاب کیلئے جلدی مچارہے ہیں۔ اللہ ہرگزاپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا، اور بےشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے(الحج:47)

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 356552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.