پاک سعودی تناؤ کی حقیقت

ہمارے خطے میں تیزی سے جاری تبدیلیاں اس بات کی نویدسنارہی ہیں کہ سردجنگ کومزیدہوادینے کیلئےنئے بلاکس وجودمیں آرہے ہیں اورقیام پاکستان کے بعدپہلی مرتبہ سعودی عرب اورپاکستان کی خارجہ پالیسی میں خاصابڑایوٹرن آیاہے۔ اس تبدیلی کا آغازسعودی ایران کے درمیان یمن کے معاملہ پرجاری جنگ کے بعداس وقت کھل کرسامنے آیاجب سعودی عرب نے پاکستان سے عسکری اعانت کامطالبہ کیاجوپاکستانی حکومت کیلئے اس لئے ایک بڑی آزمائش تھی کہ زمینی حقائق کے مطابق پاکستان پہلے ہی اپنی مشرقی سرحدوں پربھارت جیسے مکاردشمن کی بڑھتی ہوئی دہشتگردی کامقابلہ کررہاہے اوردوسری جانب امریکا نےپاکستان پردباؤبڑھانے کیلئے افغان سرزمین پربھارت کودہشتگردی کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے،اس لئے پاکستان کیلئے ممکن نہیں کہ مزیدتیسری سرحدکوبھی گرم کرنے کی اجازت دے جبکہ بھارت اورایران پہلے ہی گوادرکاناکام بنانے کیلئے چاہ بہارپراجیکٹ کے کئی معاہدوں میں شریک کاربنے ہوئے ہیں۔

نوازشریف کے دورِ حکومت میں دھرنے کے دوران شاہ محمودقریشی سے پاکستان میں ایرانی سفیر کی ملاقاتوں نے بھی خوب اثردکھایا جس کی بنا پرپاکستان کی پارلیمانی اجلاس میں عمران خان کی جماعت نے اپنے شدیدتحفظات کا اظہارکرتے ہوئے نہ صرف سخت تنقیدکی بلکہ دھرنے کے باوجودمظاہروں کی بھی دہمکی دے ڈالی۔پاکستان کی دیگرسیاسی جماعتوں نے بھی غیر جانبداررہنے کامشورہ دیاجس کی بنا پرپاکستان نے فریق بننے کی بجائے دومسلم ممالک میں مصالحتی کردارادا کرنے کاجب فیصلہ کیاتو سعودی عرب نے یواے ای کے وزیرخارجہ کی زبان سے اپنی شدید برہمی کااظہار کیا اور ردعمل کے طورپر مودی کونہ صرف سعودی عرب بلاکرتجارتی معاہدوں سے لاددیا(مغربی میڈیاکے مطابق” ایسے وقت میں جب ہندوستان کو معیشت میں کمی کاسامناکرنا پڑرہاہے،سعودی عرب ملک کے نموکی صلاحیت کودیکھتے ہوئے پیٹروکیمیکلز،انفراسٹرکچراور کان کنی کے شعبوں میں ایک سوارب ڈالرکی سرمایہ کاری کااعلان بھی کردیا”)بلکہ اپنے ملک کاسب سے بڑاسول اعزازخوداپنے ہاتھوں پہنا کر پاکستان کوایک واضح پیغام پہنچادیا ۔

اب ایک اطلاع کے مطابق سعودی عرب اوریواے ای سے کروناوباکی آڑمیں تیزی سے اب تک 45ہزارافراد پاکستانی ورکرزکو نکالاجاچکاہے اور مزید35 ہزارافرادکونکالاجارہاہے جبکہ اس کے مقابلے میں پانچ لاکھ ہندوستانی گھریلوملازمین جواپریل 2016ء میں سعودی عرب منتقل ہوئے تھے،ان میں سے صرف دو ہزارافرادواپس آئے ہیں۔یواے ای میں توسعودی عرب سے بھی دس قدم آگے بڑھ کرمودی کی قدم بوسی کے مناظردیکھنے کومل رہے ہیں۔یواے ای نے بھی اب تک 20ہزارسے زائدپاکستانی افرادکو ملک سے نکالاہے جبکہ خانہ پری کیلئے چندسو بھارتی افرادبھی واپس گئے ہیں۔

اس تمام سفارتی مناقشے کی روشنی میں پاکستان اورسعودی عرب اپنی اپنی خارجہ پالیسی پرنظرثانی کررہے ہیں۔(مقبوضہ)جموں وکشمیرمیں گزشتہ برس5 ؍اگست کوبھارت کے غیرقانونی اقدام کے بعدپاکستان اورسعودی عرب کے درمیان اختلافات ابھرے ہیں۔ جموں وکشمیرکی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعدپاکستان نے چاہاکہ اسلامی دنیااس کاساتھ دے۔ اس نے جموں وکشمیرکی صورتِ حال پراسلامی کانفرنس کی تنظیم(اوآئی سی) کی سربراہ کانفرنس بلانے پرزوردیامگرسعودی عرب اس کیلئے راضی نہ ہوا۔جب او آئی سی کااجلاس بلانے کی کوشش ناکام رہی توشاہ محمود قریشی نے اگست2020ءکے اوائل میں سعودی عرب کے خلاف زبان کھولی اورساتھ ہی ساتھ انتباہ بھی کیاکہ اگرسعودی عرب نے جموں وکشمیر کی صورتِ حال پراوآئی سی کااجلاس طلب نہ کیاتو پاکستان ہم خیال مسلم ممالک کااجلاس طلب کرے گاتاکہ کشمیریوں پرڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کے خلاف آوازاٹھائی جا سکے۔

پاکستان(مقبوضہ)کشمیرکے مسئلے پرسعودی عرب سے اپنی بات منواناچاہتا تھامگراسے شدید ناکامی کامنہ دیکھناپڑا۔سعودی عرب نے3/ارب ڈالر کاقرضہ فوری اداکرنے کیلئےپاکستان پردباؤڈالااورساتھ ہی ساتھ 3/ارب20کروڑڈالرکاتیل ادھارفراہم کرنے سے معذوری ظاہرکردی۔شاہ محمودقریشی کے بیان کے فوراًبعد جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے معاملات درست کرنے کیلئےسعودی عرب کادورہ کیاتوسعودی ولی عہدان سے ملنے پرراضی نہ ہوئے۔شاہ محمودقریشی نے سعودی عرب پرتنقیدکرتے ہوئے جوبیان دیاتھااس پرملک میں خاصاہنگامہ برپاہواتاہم فوج نے ان کے بیان کی کھل کر مذمت سے گریزکیاجس پرسیاسی جماعتوں نے یہ بھی الزام لگایاکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ شاہ محمودقریشی نے جوکچھ کہا اُس کیلئے انہیں فوج کی حمایت حاصل نہ ہویامنظوری نہ ملی ہو۔

اسٹریٹجک معاملات میں سعودی عرب اورپاکستان کے درمیان اختلافات کچھ مدت سے پنپ رہے ہیں۔پاکستان کی طرف سے اختلافات کی تردید کی جا رہی ہے۔عمران خان نے اپنے ایک حالیہ انٹرویومیں کہاکہ’’ہماری طرح سعودی عرب کی بھی اپنی خارجہ پالیسی ہے۔ضروری تونہیں کہ سعودی عرب وہی کہے اورکرے جوہم چاہتے ہیں۔‘‘قریشی نے جوکچھ بھی کہاوہ راتوں رات ابھرنے والے جذبات کااظہارنہیں تھا۔(مقبوضہ)کشمیر کی صورت حال پرسعودی عرب کی طرف سے کچھ نہ کیے جانے کایہی نتیجہ نکل سکتاتھا۔

کشمیرکے معاملے میں بھارت کےخلاف سعودی عرب کی طرف سے ایک لفظ بھی نہ بولاجاناایسی بات نہیں جسے سمجھنازیادہ دشوارہو۔بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔وہ سرمائے کے حوالے سے بھی پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ کچھ دے سکتاہے۔سعودی عرب اوربھارت کی باہمی تجارت 33/ارب ڈالرکی ہے۔پاکستان اورسعودی عرب کی باہمی تجارت سے یہ کم وبیش دس گناہے۔ محض اسلام آباد کوخوش کرنے کی خاطرریاض ایسی کوئی بھی بات نہیں کرناچاہتاجونئی دہلی کوناراض کردے۔یہ حقیقت بھی نظراندازنہیں کی جاسکتی کہ کشمیرکی صورتِ حال پراختلافات کے باوجود پاکستان کی قیادت سعودی عرب سے تعلقات زیادہ بگاڑنا نہیں چاہتی۔پاکستان کی سعودی پالیسی میں بھی راتوں رات کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے۔قریشی کے بیان کے بعدآرمی چیف کاسعودی عرب کادورہ اوراس کے بعدپاکستانی وزارتِ خارجہ کی طرف سے کشمیرپر سعودی عرب اوراوآئی سی کی سابقہ خدمات کاسراہا جانا ناقابلِ فہم نہیں۔
بہت سے مواقع پرسعودی عرب نے پاکستان کی مددکرکے اُسے شدید اقتصادی بحران سے بچانے میں کلیدی کرداراداکیاہے۔سعودی حکمران پاکستان کوبہت بڑے پیمانے پرتیل بھی ادھاردیتے رہے ہیں۔پاکستان کومالیاتی سطح پربھی شدیدنقصان سے بچانے کیلئے سعودی عرب کئی بارمیدان میں آیا ہے ۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی کماکرجوکچھ گھربھیجتے ہیں وہ پاکستان کی ترسیلاتِ زرکاایک چوتھائی ہے۔اب ایسالگتاہے کہ پاکستانی قیادت سعودی عرب پرانحصارکم کرنا چاہتی ہے۔سعودی عرب پرانحصاربڑھنے سے داخلہ اورخارجہ پالیسی پراس کااثرونفوذبھی بڑھ گیاتھا ۔سعودی عرب پرانحصارنہ کرنے کاعمل مرحلہ وارہے۔راتوں رات کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ خیر ، یہ عمل اب شروع کیاجاچکاہے۔

دسمبر2019ءمیں ملائیشیاکے دارالحکومت کوالالمپورمیں ایک نئے اسلامی بلاک کی بنیادپڑی۔ترکی،ایران،قطراورملائیشیانے مل کرسربراہ اجلاس منعقد کیا،جس میں کشمیرکامسئلہ بھی اٹھایاگیا۔اس حوالے سے ترکی اورایران نے واضح موقف اختیارکیا۔دونوں کا یہ کہناتھا کہ بھارت نے کشمیریوں پرظلم ڈھایا ہے اس لیے اس کے خلاف متحدہونے کی ضرورت ہے۔اس اجلاس میں پاکستان کو بھی شریک ہوناتھا۔اسے دعوت نامہ بھیجا گیاتھاتاہم آخری لمحات میں اس نے،بظاہرسعودی عرب کے دباؤپر،کوالا لمپورسربراہ اجلاس میں شریک ہونے سے گریزکیا۔بعدمیں عمران خان خصوصی طورپرکوالالمپورگئے اور ملائیشین ہم منصب مہاترمحمدسے ملے۔انہوں نے ترکی کے کردارکوبھی سراہااوریہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی کہ ترک صدراردگان ان کے ہیروہیں۔ ہوسکتاہے پاکستان کسی نئے اسلامی بلاک کی تشکیل میں حصہ نہ لے مگریہ بھی طے ہے کہ سعودی عرب کے مقابلے میں ایران اورترکی سے اپنے تعلقات پاکستان بلندسطح پرہی پررکھناپسندکرے گا۔

ایران اورترکی مل کرپاکستان کوبھارت کے خلاف اتحاد بنانے کی پیشکش کررہے ہیں۔بھارت کوایک خاص حدتک رکھناپاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ایسے میں ایران اورترکی ساتھ مل جائیں تواس کیلئےمعاملات بہت بہترہوجائیں۔سعودی عرب نے کشمیرکی صورتِ حال کے حوالے سے بھارت کے خلاف جانے سے اب تک گریزکیاہے۔اس کی طرف سے مودی کی کشمیرپالیسی پراب تک کوئی بیان جاری نہیں کیاگیا۔دوسری طرف ایران اور ترکی نے کشمیرکی صورتِ حال پربھارت سے تعلقات بگاڑنے سے بھی گریزنہیں کیا۔انہوں نے نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی کاروائیوں اور مودی کی مسلم دشمن پالیسی پرشدیدتنقیدکی ہے۔ دونوں ممالک نے بھارت کی طرف سے شدید ردعمل کی بھی پروانہیں کی۔اردگان نے چند برسوں کے دوران خودکواسلامی دنیا کے ہربڑے کازکاچیمپین ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔انہوں نے بھارت کوکشمیرکے حوالے سے نشانہ بنانے میں بھی تساہل کامظاہرہ نہیں کیا۔بھارت کومزیدبرہم کرنے کیلئےترک صدرنے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی کشمیر کامسئلہ اٹھایا اوردنیاکوبتایاکہ یہ معاملہ ابھی سردنہیں پڑا۔

چین اب تک پاکستان کیلئےہرمشکل گھڑی کاساتھی ثابت ہواہے۔یہی سبب ہے کہ اب سعودی عرب کی ناراضی کی بھی پروانہیں کی جارہی۔ چین نے بہت سے معاشی ومالیاتی اورسیاسی معاملات میں پاکستان کی اس قدرمددکی ہے کہ اب اُسے سعودی عرب سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔چین کوبھی برصغیرکے خطے میں بھارت جیسے بڑے حریف کوقابو میں رکھنے کیلئےمضبوط پاکستان درکارہے۔یہی سبب ہے کہ چین نے چند برسوں کے دوران کشمیرکے معاملے میں پاکستان کی غیر معمولی حمایت ومعاونت کی ہے۔ہربڑے بین الاقوامی فورم میں چین نے کشمیر کے مسئلے پرپاکستان کاکھل کرساتھ دیاہے۔سرحدی تنازعات کے حوالے سے چین اوربھارت کے تعلقات کشیدہ ترہوتے جارہے ہیں۔ایسے میں پاکستان کوچین کی طرف سے مزید حمایت وتعاون کی توقع رکھنی ہی چاہیے۔باخبر ذرائع کاکہناہے کہ چین نے کشمیرکی بدلی ہوئی صورتِ حال کے تناظرمیں عمران خان کی حکومت کوگلگت بلتستان کومکمل صوبے کادرجہ دینے کی صورت میں بھرپورحمایت کایقین دلایاہے۔

جب سعودی عرب سے سفارتی معاملات خراب چل رہے تھے اورسعودی عرب نے پاکستان سے تین ارب کاقرضہ فوری چکانے کی بات کہی تب چین نے پاکستان کوایک ارب ڈالردیے تاکہ وہ سعودی عرب کوقرضہ اداکرسکے۔چین پہلے بھی اس نوعیت کی مددکرتارہاہے۔عمران خان بھی دوٹوک انداز سے کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کامستقبل اب چین سے وابستہ ہے۔چین کے بیلٹ اینڈروڈ انشئیٹیومیں شامل سی پیک(چائناپاکستان اکنامک کوریڈور) بھی پاکستان کیلئےانتہائی اہم منصوبہ ہے۔

چین جتنی بھی معاشی یامالیاتی امداددیتاہے،اس میں بیشترامدادبنیادی طورپرآسان قرضے کی شکل میں ہوتی ہے۔پاکستانی قیادت بھی اس حقیقت سے باخبر ہے مگرپھربھی عمران خان یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کیلئےچین بہت اہم ہے اورسی پیک بھی کم اہم نہیں۔ان کاکہناہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کیلئےبہت سے معاشی مواقع پیداہوں گے۔حال ہی میں چند اہم منصوبوں پرکام شروع ہواہے۔فوج نے بھی آگے بڑھ کراپناکرداراداکرنے کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ یہ منصوبے بروقت مکمل ہوں۔چین کی طرف سے ملنے والی مالی امدادکے ساتھ اگرچند پیچیدگیاں بھی ہیں توپاکستان ان کاسامناکرنے کیلئےتیارہے کیونکہ اسے فی الحال سعودی عرب سے تعلقات میں پیداہونے والی کشیدگی کاسامنا کرناہے۔
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 318781 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.