ایکناتھ نے بی جے پی کو اناتھ کیوں کیا؟

خاندیش میں40 سال قبل جن سنگھ کا چراغ جلا کر30سالوں تک رکن اسمبلی کی حیثیت سے کمل نما ترشول کے ذریعہ این سی پی کی گھڑی توڑنے والے والے ایکناتھ کھڑسے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور ان آنکھیں نم ہوگئیں۔ اس موقع پر انہوں نے پارٹی کیلئے اپنی خدمات بیان کرنے کے بعداپنے ساتھ وقفے وقفے سے ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ سابق وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس کو استعفیٰ کا ذمہ دار ٹھہرا تے ہوئے انہوں نے کہا کہ فردنویس نے ان کا سیاسی کریئر تباہ کردیا ہے۔ اپنے مکان پر پریس کانفرنس میں وہ بولے ’’ پارٹی سے میری ناراضگی نہیں ہے، ناراضگی صرف ایک شخص سے ہے اور وہ دیویندر فردنویس ہےکیونکہ سانتاکروز پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف انجلی دمانیہ نے جو شکایت درج کرائی تھی اس کو ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے پولیس درج نہیں کررہی تھی مگر فردنویس نے پولیس کو فون کر کے جھوٹا مقدمہ درج کروایا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ جذباتی ہو گئے اورکہاکہ ’’پورے مہاراشٹر نے دیکھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ‘‘۔

جمہوریت کا عام دستور یہ ہے کہ جب کوئی پارٹی اقتدار سنبھالتی ہے تو قانون کو بالائے طاق رکھ کر اس جماعت کے مجرموں کو بچا لیا جاتا ہے۔ اس کا تازہ ثبوت ہریانہ میں دیکھنے کو ملا کہ جب دشینت چوٹالا کے نائب وزیر اعلیٰ بنتے ہی اوم پرکاش چوٹالا جیل سے باہر آگئے ۔ اسی طرح قانون کی حکمرانی کے نام پر مخالفین کو پھنسا دیا جاتا ہے جیسے کہ لالو یادو کے خلاف بدعنوانی کے سارے ثبوت مل گئے اور نتیش کے سرجن والے شواہد چھپ گئے ۔ اس ضابطے پر عمل کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے امیت شاہ سمیت گجرات فساد کے سارے مجرموں کو نہ صرف بچایا بلکہ خوب دل کھول کر نوازہ ۔ بابری مسجد کو شہید کرنے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کروادیا لیکن مہاراشٹر کے اندر 2016 میں ایکناتھ کھڑسے کے ساتھ اس کا الٹا ہوگیا ۔

کھڑسے جب سرکاری عتاب کا شکار ہوئے تو اس وقت صوبے میں کانگریس نہیں بلکہ بی جے پی برسرِ اقتدار تھی۔ ایسے میں کھڑسے پر سرکاری عتاب کی ابتدا اس طرح ہوئی جب ان کے ایک حامی گجانن پاٹل کو اینٹی کرپشن بیورو نے ایک زمین کے معاملے میں ۳۰ کروڈ کی رشوت کا مطالبہ کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ اس طرح کھڑسے کی بدنامی شروع ہوئی ان پر الزام لگا کہ وہ پاکستان میں مقیم داود ابراہیم سے رابطے میں ہیں۔ اس کے بعد کھڑسے کی بیوی اور داماد پر بھوسری کی ایک زمین خریدنے میں بدعنوانی کا الزام لگایا گیا ۔ یہ بہت دلچسپ الزام تھا جس میں کہا گیا ایم آئی ڈی سی اس زمین کو خریدتے وقت کسانوں کو معاوضہ نہیں دیا ۔ ایم آئی ڈی سی چونکہ محصول کی وزارت کے تحت آتا ہے اس لیے کھڑسے ملزم ٹھہرے ۔ ایک ماہ کے اندر یہ سارے معاملات اٹھے اور استعفیٰ کے بعد ٹھنڈے بستے میں چلے گئے ۔

آگے چل کر صوبائی حکومت نے بامبے ہائی کورٹ کے جج دنکر زوٹنگ کی سربراہی میں تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیٹی تشکیل دی اور اس نےالزامات کو بے بنیاد پایا ۔ اینٹی کرپشن بیورو نے بھی اس کی تصدیق کردی اور وزیر اعلیٰ نے دوسال بعد انہیں کلین چٹ دے دی مگر ان کی وزارت بحال نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ مجرم ہیں تو کوئی ثبوت کیوں نہیں ملا اور نہیں تو ان کا کھویا ہوا وقار بحال کیوں نہیں کیا گیا؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے اپنے حریف کا خاتمہ کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ نے ایک گھناونی سازش رچی اور ۳۵ سالوں تک اپنی پارٹی کی خدمت کرنے والے کارکن کا سیاسی مستقبل برباد کردیا۔ ایکناتھ کھڑسے پر گھریلو دباو بنانے کے لیے پہلے تو بہو سُرکشا کورکن پارلیمان بنا یا گیا اور پھر بیٹی کو اسمبلی کا ٹکٹ دے کر ہروایا گیا ۔ ان کےاثرات کو زائل کرنے کے لیے خاندیش میں ایک متوازی پسماندہ رہنما گریش مہاجن کو آگے بڑھایا گیا ۔

دیویندر فردنویس نے صرف ایکناتھ کھڑسے کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا بلکہ وہ اپنے سارے حریفوں کو لہولہان کرکے سیاسی دنگل سے باہر کر چکے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰکے ابتدا میں جملہ چار حریف تھے ۔ گوپی ناتھ منڈے کی بیٹی پنکجا منڈے کے علاوہ نتن گڈکری کے منظورِ نظر سدھیر منگٹیوار تھے اور ممبئی کے مراٹھا رہنما ونود تاوڑے بھی دوڑ میں موجود تھے ۔ ان میں سے پنکجا کو چکی بدعنوانی کے ذریعہ رسوا کیا گیا ۔ ان کو اسمبلی کا ٹکٹ نہ دینا مہنگا پڑ سکتا تھا اس لیے امیدوار تو بنایا گیا لیکن ایسے حالات بنائے گئے کہ وہ اپنے چچا زاد بھائی دھننجے منڈے سےہار گئیں۔ ونود تاوڑے اور سدھیر منگٹیوار کو ٹکٹ ہی نہیں دیا گیا جبکہ کانگریس اور این سی پی سے آنے والے سارے باغیوں کو نوازہ گیا ۔

اس سازشی سیاست کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار سے محرومی اور شیوسینا سے الحاق کے بغیر ۲۰۱۴ میں بی جے پی اپنے بل بوتے پر ۱۲۳ نشستیں جیت گئی۔ اس کے برعکس ۲۰۱۹ میں اقتدار اور شیوسینا کی حمایت کے باوجود اسے ۱۰۵ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ اس سے بڑہ شرم کی بات کیا ہوسکتی ہے سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی بی جے پی حکومت سازی میں ناکام رہی۔ اجیت پوار کو ساتھ لے کر دھوکہ دینے والے شردپوار کے جال میں پھنس گئے۔ اقتدار سے محروم فردنویس حزب اختلاف کے رہنما کی حیثیت سے بہار کی نگرانی کررہے ہیں ۔ ایک ایسا شخص جو اپنے صوبے میں قدیم ترین حلیف شیوسینا کو ساتھ نہیں رکھ سکا وہ بھلا ایل جے پی کو کیسے مناتا؟ دیکھنا یہ ہے کہ نگراں کی حیثیت سے فردنویس بہار میں بی جے پی کا کیا حال بناتے ہیں ۔

ویسے مرکزی حکومت کے عتاب سے بچنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر کھڑسے نے پہلے تو یہ وضاحت کی کہ وہ بی جے پی کی مرکزی قیادت سے ناراض نہیں ہیں۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ آج کل کوئی مرکزکی حکومت کے خلاف جائے تو اگلے دن اس کے خلاف کوئی پرانا کیس کھل جاتا ہے یا ای ڈی کا چھاپہ پڑ جاتا ہے۔ سنجیو بھٹ اور اعظم خان اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ اپنی دوسری پریس کانفرنس میں کھڑسے سےاحتیاط کادا من چھوٹ گیا اوروہ مرکز پر بھی حملہ کر گزرے ۔ انہوں نے کہا کئی وزراء پر الزام لگے لیکن استعفیٰ صرف انہیں سے لیا گیا یہ تفریق و امتیاز کا معاملہ تھا۔ اس ناانصافی کے ازالہ کی خاطر انہوں نے پارٹی کے صدر جے پی نڈا، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ، وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی تک سے ملاقات کی ۔ سب نے کہا کہ دیویندر فردنویس کے ساتھ آو ۔ مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرلیں گے لیکن فردنویس نے آئندہ ہفتہ اور آئندہ مہینہ کہہ کہہ کر ۴ سال ٹال دیئے۔بی جے پی کے مرکزی رہنما اگر اس بابت سنجیدہ ہوتے تو فردنویس بلوا بھیجتے۔

مرکزی قیادت کی سیاست بھی وہی ہے جو فردنویس کی ہے۔ وہاں پر نریندر مودی کے سب سے خطرناک حریف نتن گڈکری ہیں کیونکہ وہ آر ایس ایس کے بھی منظور نظر ہیں۔ ایسے میں ناگپور کے رہنے والے دیویندر فردنویس ان کا توڑ ہوسکتے ہیں اس لیے انہیں تمام تر ناکامیوں کے باوجود برداشت کیا جارہا ہے ۔ ایک طرف تو ایکناتھ کھڑسے کےساتھ ان کی اپنی پارٹی نے یہ معاندانہ سلوک کیا اور دوسری جانب اپنی پارٹی میں ان کا استقبال کرنے کے لیے خود شرد پوار بہ نفسِ نفیس حاضر ہیں ۔ اپنے اس اقدام سے گویا شرد پوار نے لیوا پاٹل سماج کا دل جیت کر ان سارے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہے جو دیویندر فردنویس دیتے رہے ہیں ۔ این سی پی بنیادی طور پر مراٹھوں کی پارٹی سمجھی جاتی ہے لیکن شرد پوار بڑی ہوشیاری کے ساتھ پسماندہ طبقات میں اپنا رسوخ بڑھا رہے ہیں ۔ ان کے ساتھ پہلے ہی سے دھنگر سماج کا ایک جانا پہچانا چہرہ دھننجے منڈے موجود ہے ۔ اس کے علاوہ مالی سماج کے چھگن بھجبل اور بنجارہ سماج کے جیتندر اوہاڑ خاص طور پر نمایاں کیا جارہا ہے۔ اس فہرست میں کھڑسے ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ اسی حکمت عملی کو اختیار کرکے پہلے کانگریس اور پھر بی جے پی نے مہاراشٹر کی سیاست میں اپنی جگہ بنائی تھی۔ صوبائی وزیر حسن مشرف نے اس موقع پر ایک نہایت دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے کہا کھڑسے تو بس جھانکی ہے آگے بہت کچھ باقی ہے ۔ اس بیان کاایک مطلب تو یہ ہے کہ بی جے پی سے فردنویس کےزخم خوردہ مزید لوگ نکلیں گے اور یہ بھی کہ جن دوسری پارٹیوں کے لوگوں کو دیویندر نے اغواء کرلیا تھا وہ لوٹیں گے۔ اس بیچ شیوسینا کے وزراء ارجن کھوتکر اور گلاب راو پاٹل نے پنکجا منڈے کو پیشکش کی ہے چونکہ کھڑسے این سی پی کی گھڑی باندھ چکے ہیں اس لیے انہیں بھی شیوبندھن باندھ لینا چاہیے۔
( ۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450643 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.