جنوبی پنجاب صوبہ وہ خواب جو شاید اب شرمندہ تعبیر نہیں
ہوسکے گا؟ جی ہاں یہ وہ خواب ہے جو آج تک ہر آنے والے حکمران عوام کو
دیکھاتے تو آئے ہیں لیکن اس کیلئے عمل درآمد کی رفتار اونٹ کے منہ میں زیرہ
کے برابر رہی ہے۔اور یہ کمزور امید اس وقت دم توڑ گئی جب گزشتہ دنوں لاہور
میں ہونے والے پی ایم سی افسران کے ہنگامی اجلاس میں جنوبی پنجاب سکریٹریٹ
کے لیے موجودہ پنجاب سکریٹریٹ کی پوسٹس کے خاتمہ پر لائحہ عمل کا جائزہ لیا
گیا اور حکومت کے اس اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا گیا، اجلاس میں پی ایم
سی افسران نے انکشاف کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ موجودہ پنجاب سکریٹریٹ کی
پوسٹس کے خاتمہ سے قانونی، مالی اور انتظامی مسائل کھڑے ہونگے جس سے جنوبی
پنجاب سیکریٹریٹ اور موجودہ پنجاب سکریٹریٹ دونوں ناکام ہو جائیں گے؟ یہاں
یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب جنوبی پنجاب سکریٹریٹ ایک صوبے کی بنیاد
پر قائم کیا جا رہا ہے تو موجودہ پنجاب سے عہدوں کا خاتمہ انتہائی زیادتی
ہے جس سے موجودہ پنجاب کی گورننس کمپرومائز ہو جائے گی۔ موجودہ پنجاب کی
آبادی سات کروڑ سے زائد ہے اورپنجاب پہلے ہی انتظامی عہدوں کی کمی کا
شکارہے۔ پنجاب کی پوسٹس کے خاتمہ سے سات کروڑ لوگوں کی گورننس کا ایشو کھڑا
ہو جائے گا۔ اور ان کے لئے مسائل پیدا ہوں گے، پی ایم سی افسران کے اجلاس
میں اس بات کا خاص طور پر اعادہ کیا گیا کہ موجودہ چیف سیکریٹری پنجاب اور
ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب ڈی ایم جی گروپ سے ہیں اور ڈی ایم جی گروپ کی
لابی سازش کے تحت پی ایم ایس افسران کے کیریئر کو تباہ کرنے کے لیے انہیں
استعمال کر رہی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں پنجاب میں ڈی
ایم جی گروپ اور پی ایم ایس افسران میں تناؤ ہے۔اورپنجاب کی پوسٹس کو ساوتھ
پنجاب سکریٹریٹ کے لیے ختم کرنے پر پی ایم ایس افسران باقاعدہ احتجاج شروع
کر نے جارہے ہیں؟ اجلاس میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے کہا گیا ہے
کہ وہ اس غیر قانونی طریقہ کار کو روکیں اور قانون اور ہیومن ریسورس
مینجمنٹ کے اصولوں کے مطابق پہلے کیڈر مینجمنٹ پر عملدرآمد کروائیں اور بعد
میں پوسٹس کو مالی اور انتظامی قانون کے تحت لاگو کریں۔
یہ تو ہے پنجاب کی بیوروکریسی اور ایوان اقتدار کے اندر کی بات۔اب اگر
پنجاب کے نئے صوبوں کے مطالبے اور تحاریک کی بات کی جائے تو سب سے پہلے
نمبر آتا ہے بہاولپور صوبہ بحالی تحریک ، ون یونٹ کے خاتمہ کے فوری بعد
بہاولپور صوبہ بحالی کا مطالبہ بہاولپور کی عوام نے کیا تھا اور بہاولپور
صوبہ بنانے کیلئے باقاعدہ تحریک چلائی گئی جو 1970 اور 1971 میں اتنی شدت
اختیار کر گئی کہ بہاولپور کے فرید گیٹ میں ہونے والے بڑے عوامی اجتماع پر
حکومت کو لاٹھی چارج کرنا پڑا اور گولی بھی چلانی پڑی، جسکے نتیجہ میں 1
شخص جاں بحق ہوگیا اور کئی شہری زخمی ہوگئے۔ متحدہ محاذ بحالی صوبہ
بہاولپور نے ملکی تاریخ میں اسوقت ذولفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز
پارٹی کو بہاولپور ڈویژن میں بری طرح سے شکست دی جب پاکستان پیپلز پارٹی
پورے پاکستان سے جیت گئی تھی اس وقت بحالی صوبہ بہاولپور کے اراکین قومی
اسمبلی نے بہاولپور صوبہ بحال نہ کرنے پر 1973 کے آئین پر دستخط تک نہیں
کئے تھے، اسی بناء پر بہاولپور صوبہ بحالی محاذ کے قائدین و ارکان اسمبلی
کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، گو کہ اب حکومت نے جنوبی
پنجاب کا الگ سکریٹریٹ قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن بہاولپور صوبہ
بناؤ تحریک آج بھی کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہے اور 1970 سے آج تک تمام برسر
اقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں بہاولپور صوبہ بحالی کا چورن بیچ کر اس
علاقہ سے کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ 2008 کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی
کامیاب ہو کر وزیر اعظم بنے تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے جنوبی پنجاب صوبہ
بنانے کے عزم کا اظہار کیا تو اس وقت مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت نے 2 قرار
دادیں منظور کیں جن کے مطابق بہاولپور صوبہ کی فوری بحالی اور جنوبی پنجاب
صوبہ کے قیام کی قانون سازی کو بھاری اکثریت سے منظور کرلیا گیا ، تاہم
وفاق پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اس وقت کے
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بہاولپور صوبہ کی بجائے جنوبی پنجاب صوبہ کے حق
میں تھے اس لئے پنجاب اسمبلی کی ان قرار دادوں پر کوئی عمل درآمد نہ ہوسکا
تھا۔ 2013 کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر اعظم محمد نواز
شریف (جو کہ اب نا اہل ہیں) نے بہاولپور کو صوبہ بنانے کے بلند و بانگ دعوے
کیے، جس کے نتیجہ میں 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو بہاولپور صوبہ
بنانے کا نام لینے پر ان علاقوں سے بھاری اکثریت ملی لیکن اقتدار میں آنے
کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی بہاولپور صوبہ بنانے کا وعدہ وفا نہ کیا 2018 کی
انتخابی مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے
دورہ بہاولپور میں ایک جلسہ میں نواب صلاح الدین عباسی کیساتھ کھڑے ہوکر
بہاولپور کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر بہاولپور سمیت جہاں
جہاں ضرورت ہے نئے صوبے بنائیں گے ، پی ٹی آئی کے قائد نے مخالف سیاسی
جماعتوں جو ماضی میں اقتدار میں رہیں اور بہاولپور کو صوبہ بنانے کا چورن
بیچ کر ووٹ حاصل کیا کے بارے میں کہا تھا کہ وہ جھوٹے سیاست دان تھے۔
پی ٹی آئی حکومت کو برسر اقتدار آئے 2 سال 4 ماہ گزر چکے ہیں، لیکن کپتان
نے اقتدار ملنے کے بعد بہاولپور صوبہ بحال کرنے کی بجائے بہاولپور، ملتان،
ڈیرہ غازی خان کے ڈویڑنز پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان کیا اور
اسکے ملتان اور بھاولپور میں صوبائی سکریٹریٹ بنانے کے احکامات جاری کئے،
جن پر دھیرے دھیرے عملدرآمد ہو رہا ہے، لیکن ملتان اور بہاولپور کی عوام
کپتان کے اس حکم کو مسترد کرچکے ہیں، اب بیوروکریسی اور حکومتی ایوان
اقتدار کے اندر جو کھچڑی پکی ہے اور ڈی ایم جی اور پی ایم ایس افسران کے
گروپس میں جو تناؤ ہے یہ برملا کہہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ ان حالات
میں کامیاب نہیں ہو پائے گا؟ جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبوں کے مطالبے اور
تحاریک تو ایک طرف رہیں، دوسری طرف ہزارہ کے عوام ہزارہ صوبہ بنانے، ایم
کیو ایم کراچی کو صوبہ بنانے اور اٹک چکوال، جہلم راولپنڈی کے عوام پوٹھو
ہار صوبہ بنانے کا مطالبہ بھی زبان زد عام ہے، پی ٹی آئی کے کپتان اپنی
سیاسی جدوجہد میں طویل عرصہ سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ ملک میں جہاں صوبوں کی
ضرورت ہو وہاں صوبے بنائے جانے چاہئیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان صوبہ
جنوبی پنجاب کی بیوروکریسی میں پائے جانے والے تناؤ کا کیا حل نکالتے ہیں؟
اور ملک میں کہاں کہاں نئے صوبوں کا اعلان کب کرتے ہیں؟
|