سوچ کے دھارے

پاکستان کی تخلیق اس برِ صغیر پاک و ہند سے سے ہوئی تھی جس پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی۔چودہ سو سال پہلے یہ خطہ شرک و بت پرستی کا مکمل نقشہ پیش کر رہا تھا جس میں انسان خود تراشیدہ مورتیوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے اور اپنی حاجات کی برومندی کیلئے ان کے سامنے گرگڑا کر مناجاتیں کرتے تھے۔صنم پرستی کی لت ہندوستانی قوم کے رگ و پہ میں سرائیت کئے ہوئے تھی جو ربِ کعبہ سے صریحا بغاوت تھی۔اس تاریک اور مشرکانہ سوچ میں ہندوستان پر مسلمانوں کی آمد نے ایک نئی سوچ کو جنم دیا جس میں اولیاء اﷲ ، صوفیاء اکرام اور مومنین نے اپنے اعلی کردار سے اسلام کی شمعیں روشن کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہندوستان میں کروڑ وں انسان مشرف بہ اسلام ہو کر اپنے دامن کو نور سے بھر چکے ہیں۔ مورتیوں کی پرستش کرنے والی قوم کی جگہ ایک ایسی قوم ظہور پذیر ہو گئی جو خدائے واحد کی پرستار تھی ۔ جن کے اعمال اور زندگیاں ایک علیحدہ روش کی نشاندہی کرتی تھیں اور ہندووانہ سوچ سے بالکل مختلف تھیں ۔یہ قوم بعد میں پاکستان کے نام سے ایک علیحدہ مملکت کی حامل بنی اورواحدانہ سوچ کی حامل ہونے کی جہت سے ربِ کعبہ کے سامنے سرنگوں ہو کر اس کی عظمت کا علم بلند کرنے کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے ۔قیا مِ پاکستان کے بعد سے ہی بھارت اور پاکستان میں مذہب کی یہی سوچ نزا ع کا باعث بن گئی ۔ بھارت خدائے واحد کی پرستش کرنے والی قوم کی آفا قی سوچ کو ملیا میٹ کر کے اسی قدیم مشرکانہ سوچ کا ڈنکہ بجانا چاہتا ہے جس کی بیخ کنی ہمارے اسلاف نے صدیوں پہلے کردی تھی۔بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی ہندووانہ سوچ کا نمائیندہ بن کر اسلام کی اعلی روایات کی جگہ اصنا م پرستی کی جاہلانہ رسموں کا دوبارہ احیاء چاہتا ہے ۔ایک جنگ ہے جو دو سوچوں کے درمیان برپا ہے۔ایک طرفہ توحید کے علمبردار کھڑے ہیں جبکہ دوسری جانب شرک و بت پرستی کے ماننے والے ہیں۔توحیدی سوچ کے علمبردار بظاہر تعداد میں کم ہیں،فوجی لحاظ سے کمزور ہیں،مالی حیثیت میں نحیف ہیں،معاشی طور پر دگرگوں ہیں لہذا مورتیوں والے ان پر ہر روز کسی نہ کسی بہانے حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔پچھلے ستر سالوں میں یہی ہو رہا ہے جبکہ ان دونوں سوچوں پر کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں جس میں ہندوترا کے پجاری فتح حاصل نہیں کر پائے۔پاکستان کو مہا بھارت کا حصہ بنانے کی خاطر ستمبر ۱۹۶۵؁ میں پاکستان پر ایک یلغار کر دی گئی لیکن وطن کے سر فروشوں اور جانبازوں نے قربانیوں کی ایسی لازوال داستان رقم کی کہ دنیا ورطہ ِ حیرت میں گم ہو گئی۔دشمن کو منہ کی کھانی پڑی اور اس کے سارے خواب چکنا چور ہو گے۔جانثاروں کو فتح نصیب ہوئی اور دشمن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔دنیاوی لحاظ سے طاقتور ہونے کی جہت سے اپنے سے چھ گنا چھوٹے ملک کو ہڑپ کر لینے میں بھارت کو کچھ بھی مانع نہیں ہو نا چائیے تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔پاکستان آج بھی پہلے دن کی طرح قائم و دائم ہے اور پورے جوش و جذبہ سے دشمن کو للکار رہا ہے۔اس کی فوج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھارتی عزائم کی راہ میں کھڑی ہے۔اس کے جوانوں کے حوصلے ،بسالتیں،جوانمردی اورشجاعت دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لئے کافی ہیں۔جو فوج موت کی تمنا میں محاذِ جنگ پر جاتی ہو اسے دنیا کی کوئی فوج شکست نہیں دے سکتی۔جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبِ دروں سے لڑی جاتی ہیں۔جو قوم موت کے خوف سے باتر ہو جائے اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست سے ہمکنار نہیں کر سکتی۔پاکستان کا بچہ بچہ بھارتی جارحیت کے خلاف سر بکف نظر آتا ہے لہذا بھارت کے لئے پاکستان کو ہڑپ کرنا ناممکنات میں سے ہے۔

پاکستان ایک پر امن ملک ہے جو جنگ کے خلاف ہے اور جارحیت کا مخالف ہے۔وہ کسی ملک کو فتح نہیں کرنا چاہتا ۔اس کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں۔وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن اور محبت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے لیکن بھارتی قیادت ان کی اس خواہش کو ان کی کمزوری سمجھ کر ان پر جارحیت کا ارتکاب کرتی رہتی ہے ۔بھارت کی طرف سے ہر روز جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہو تی ہیں لیکن پاکستان اپنے دفاعی مورچے میں ڈٹے رہنے کو اولیت دیتا ہے کیونکہ وہ اس خطہ میں جنگ کے بھڑکتے شعلے نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ امن و آشتی کو فروغ دینے کا متمنی ہے۔ہمیں ذولفقار علی بھٹو کا احسان مند ہو نا چائیے کہ انھوں نے بھارتی عزائم کو بھانپتے ہوئے ایٹمی صلاحیت کی بنیاد رکھی اور میاں محمد نواز شریف کا مشکور ہو نا چائیے کہ انھوں نے امریکی دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکہ کرنے کو ترجیح دی۔کون نہیں جانتا کہ ایٹمی قوت کے بغیر بھارت ہمارے ساتھ کیا سلوک روا رکھتا؟۵ اگست ۲۰۱۹؁ کا دن تاریخ ِ عالم میں ہمیشہ سیاہ دن کے نام سے یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس دن بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی قوت، گولہ بارود،سنگینوں، شمشیروں اور توپوں کی مدد سے کرفیو نافذ کرکے نہتے کشمیریوں سے ان کی آزادی چھین لی۔یہ دنیا کا طویل ترین کرفیو ہے جس میں کشمیریوں کی جان و مال کی کوئی گارنٹی نہیں ہے لیکن عالمی رائے عامہ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے تیار نہیں ہے۔امریکہ بہادر اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے کر اس سے دامن کش ہو گیا ہے جبکہ اسلامی دنیا کے سارے سر خیل کشمیر کے مسئلہ پر کسی بھی قسم کی پیش رفت سے خود کو علیحدہ رکھے ہوئے ہیں۔وہ بھارت کی مذمت کرنے کی بجائے اسے دوستی کے ہار پہناتے ہیں۔کوئی ایک توانا آواز ایسی نہیں جو کہ کشمیریوں کی ڈھارس بندھا سکے۔پاکستان دو راہے پر کھڑا ہے۔اس کے لئے اس کی شہ رگ دشمن کے قبضہ میں ہے لیکن وہ اسے چھڑانے کے لئے کوئی بھی پیشقدمی کرنے سے گریزاں ہے۔کشمیریوں کی نظریں پاکستان پرجمی ہوئی ہیں اور وہ ان سے مددکے طلبگار ہیں لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں۔ہمیں سوچنا ہو گا کہ کشمیر کی مائیں بہنیں بیٹیاں اور بیٹے کب تک لہو کا خراج دیتے رہیں گے؟وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بھارت کو للکار کر اس کے سامنے کھڑا ہو جائے اور کشمیر کو خالی کرنے کے لئے کسی تاریخ کا ایلٹی میٹم دے دے۔قوموں پر ایک ایسا وقت آتا ہے جب انھیں زندگی اور آبرو میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو تا ہے۔آزادی ایک نعمت ہے اور یہ کشمیریوں کا بھی حق ہے ۔ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی موجودگی میں پاکستان کا مقدمہ انتہائی توانا ہے لہذا حکومتِ وقت کو خائف نہیں ہونا چائیے۔وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن کو ملیا میٹ کرنے کے لئے تو بڑے بے تاب نظر آتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنے منہ پرہاتھ پھیر کر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو للکارتے اور انھیں کشمیر خالی کرنے کا حکم دیتے تو پو ری قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجاتی۔پاکستان کا بچہ بچہ کشمیر کی خاطر کٹ مرنے کو تیار ہے لیکن حکمران مصلحت کوشی کا شکار ہوجائیں تو قوموں کی تقدیر سنواری نہیں جا سکتی۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضہ جمایا ہوا ہے جو عالمی قوانین کی صریحا خلاف ورزی ہے ۔ہماری خا موشی بھارت کو شہ دے رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی نظریں آزاد کشمیر پر جمی ہوئی ہیں۔وہ اسے بھی ہڑپ کرنے کے لئے بے تاب ہے لیکن ایٹم بم کی موجودگی اس کی راہ کی زنجیر بنی ہوئی ہے ۔میں تو اسے ستم ظریفی کی انتہا کہوں گا کہ پاکستان کی وہ لیڈر شپ جس نے ایٹمی قوت کا عظیم الشان کارنامہ سر انجام دیا تھا حکومت انھیں ہی غدارِ وطن بنا کر پیش کر رہی ہے۔ کوئی ہے جو حکومت کو سمجھائے کہ ریاستیں اس طرح نہیں چلا کرتیں۔جو قومیں اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہیں ایک دن مٹ جاتی ہیں۔،۔


 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.