بی جے پی کیوں بہار میں ،کنفیوژن کا شکار

بی جے پی کو انتخاب جیتنے کی بہترین مشین کہا جاتا ہے۔ امیت شاہ چناو کےچانکیہ کہلا تے ہیں لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ چانکیہ کی دھرتی بہار میں یہ بیچارہ جعلی چانکیہ کنفیوژ ہوگیا ہے اور مشین فیل ہورہی ہے۔اس کی تازہ مثال نرملا سیتا رامن کو انتخابی منشور جاری کرنے کے لیے بھیجنا ہے جو ٹھیک سے ہندی تک بول نہیں سکتیں ۔ مینی فیسٹو کوئی بجٹ تو ہے نہیں کہ وزیر خزانہ کے لیے اس کا پیش کرنا ضروری ہو۔ بی جے پی کے قومی صدر جگت پرشاد نڈا کا آبائی وطن ویسے تو ہماچل پر دیش ہے مگر ان پیدائش اور کالج تک کی تعلیم بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ہوئی ہے۔ اسی شہر کے اندر وہ سنگھ کی شاکھا میں خاکی نیکر پہن کر شامل ہوئے اور تربیت حاصل کی ۔ آگے چل کر پٹنہ کالج میں سنگھ کی طلبا تنظیم اے بی وی پی سے وابستہ ہوئےاوراب کے صدرنشین ہیں، اس لیے منشور جاری کرناانہیں کا حق تھا لیکن شاید امیت شاہ نہیں چاہتے کہ نڈا کی مقبولیت میں اضافہ ہو اس لیے سیتارامن کو بھیج دیا ۔

12اکتوبر کو بی جے پی نے بہار کی انتخابی مہم کے لیے اپنی اسٹار پرچارکوں کی ایک فہرست شائع کی تھی ۔ اس میں وزیر اعظم مودیکے علاوہ جے پی نڈا کا نام سرِ فہرست تھا ۔ ان کے ساتھ راجناتھ سنگھ ، امیت شاہ ، دیویندر فردنویس ، رادھا موہن سنگھ ، روی شنکر پرساد ، گری راج سنگھ ، اسمرتی ایرانی ، اشونی چوبے ، نتیانند رائے ، آر کے سنگھ ، دھرمیندر پردھان ، رگھوبر داس ، منوج تیواری ، بابولال مرانڈی ، نند کشور یادو ، منگل پانڈے ، رام کرپال یادو ، سشیل سنگھ ، چھیدی پاسوان ، سنجے پاسوان ، جنک چمار ، سمراٹ چودھری ، ویویک ٹھاکر ،یوگی ادیتیہ ناتھاور نویدیتا سنگھ کا نام شامل تھا ۔ یہ سب بہترین ہندی میں فن خطابت سے واقف ہیں اس کے باوجود انہیں درکنار کرکے نرملا کا بھیجا جانا بی جے پی کا کنفیوژن نہیں تو اورکیا ہے؟ کچھ نیا کرنے کے چکر میں عجیب و غریب حماقت کر گزرنا اس حکومت کا شعار بن گیا ہے۔

بی جے پی نے جو انتخابی منشور پیش کیا اس میں فضول کی بے شمار بکواس کےساتھ دواہم نکات ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ بہاری عوام اگر بی جے پی کو ووٹ دیں گے تو وہ انہیں مفت میں کورونا کا ویکسین دے گی۔ یہ اس بے انتہا احمقانہ اعلان ہے کیونکہ اس میں وباء کی روک تھام کو انتخاب سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ ایسا کرتے وقت نرملا سیتا رامن یہ بھول گئیں کہ وہ پورے ملک کی وزیر خزانہ ہیں اس لیے صرف بہار کے رائے دہندگان کو ووٹ کے بدلے ویکسین کا وعدہ نہیں کرسکتیں ۔انہیں یہ دھمکی دینا زیب نہیں دیتا کہ اگر این ڈی اے کو ووٹ نہیں دیا گیا ویکسین کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن صوبوں بی جے پی کی ریاستی حکومت نہیں ہے وہاں کے لوگوں کو ووٹ نہیں دینے کی سزا کے طور پر مفت ویکسین کی سہولت سے محروم کردیئے جائیں گے؟اور اگر سبھی کو مفت ویکسین ملنے والی ہے تو بہار کے منشور میں سب سے اوپر اس کا ذکر کس کو بیوقوف بنانے کے لیے کیا گیا ہے؟

بی جے پی کے منشور میں ملازمت کی بابت کی دوسری بڑی حماقت ہے۔ پچھلے ہفتے تیجسوی یادو نے یہ اعلان کیا کہ وہ دس لاکھ لوگوں کو روزگار دیں گے۔ اس پر نتیش کمار نے مذاق اڑاتے ہوئے سوال کیا کہ اس کے لیے روپیہ کہاں سے لائیں گے ؟ ان کے نائب سشیل کمارمودی تو دو قدم آگے بڑھ گئے اور انہوں نے حساب کتاب لگا کر بتا دیا کہ فی الحال کتنی رقم سرکاری ملازمین پر خرچ ہورہی ہے ؟ اس فیصلے کے بعد مزید کتنا خرچ کرنا پڑے گا اور اگر سارا بجٹ تنخواہوں کی نظر ہوجائے گا تو دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے کیا بچے گا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سارے اعدادو شمار بتاتے وقت سشیل کمار مودی کو اندازہ نہیں تھا کہ پارٹی کے منشور میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ ۱۰ لاکھ ملازمتوں کو ناممکن بتانے والی پارٹی نے ۱۹ لاکھ ملازمتوں کا وعدہ کرکے خود اپنا مذاق بنالیا۔ سشیل مودی کے لیے جب اس زبردست سبکی کو سہنامشکل ہو گیا تو وہ بھی شہنواز حسین کی طرح کورونا کا بہانہ بناکر انتخابی کوروکشیتر سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ویسے اگر یہ دونوں حضرات واقعی کورونا سے متاثر ہیں تو ان کی صحت کے لیے دعا کی جانی چاہیے۔

بی جے پی نے بہار کا انتخاب جیتنے کے لیے ایودھیا میں پھر سے شیلا نیاس کی نوٹنکی کی۔ جگت پرشاد نڈا نے دیکھا کہ اس سے دال نہیں گل رہی ہے تو این آر سی کا شوشہ چھوڑ دیا لیکن اب اس کی سمجھ میں آگیا فی الحال بہار کے نوجوان کو نہ تو رام مندر یا این آر سی میں دلچسپی نہیںہے ۔اب انہیں وزیر اعظم کے دفع ۳۷۰، پلوامہ اور گلوان گھاٹی کے نام پر بہلانا پھسلانا ممکن نہیں ہے حالانکہ مرکزی حکومت اس محاذ پر بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔نئی نسل کے نوجوان کو پندرہ سال پرانے لالو یادو کے جنگل راج سے ڈرایا بھی نہیں جاسکتا اس لیے اس نے تو وہ دیکھا ہی نہیں ہے۔ اس نے تو یہ دیکھا ہے کہ کورونا لاک ڈاون کے بعد جب وہ لوگ ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے اپنے گھروں کو آرہے تھے تو اترپردیش اور بہار کی پولس ان پر ڈنڈے برسا رہی تھی ۔ مودی جی آنکھیں موند کر کمبھ کرن کی نیند سورہے تھے ۔ کبھی تالی، تھالی بجوا رہے تھے تو کبھی دیا بتی جلوا رہے تھے ۔

بہار میں بیروزگاری کی شرح قومی اعدادوشمار کے مقابلے تقریباً دوگنی ہے یعنی اگر قومی سطح پر یہ 5.8 فیصد ہے تو بہار میں اس کا تناسب 10.2 فیصد ہے۔ اسی لیے جب تیجسوی یادو بیروزگاری کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں تو نوجوان اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو اپنے منشور میں 19 نوکریوں کا وعدہ کرنے کے لیے پر مجبور ہونا پڑا لیکن اگر غور سے دیکھا جائے براہ راست ملازمت صرف چار لاکھ لوگوں کو ملے گی باقی سب بالواسطہ ملنے والا روزگار ہے یعنی انتخابی جملہ بازی ہے۔ جی ڈی پی کے معاملے میں بہار کی کارکردگی قومی اوسط سے بہتر ہے یعنی ملک گیر سطح پر یہ شرح اگر 10 فیصد ہے تو بہار میں یہ عدد 11.1 فیصد پر ہے لیکن اس کا فائدہ عام لوگوں کو نہیں مل رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک عام بہاری کی اوسط سالانہ آمدنی صرف 44 ہزار ہے جبکہ قومی سطح پر اوسط آمدنی اس سے تین گنا سے بھی زیادہ 1.35 لاکھ ہے ۔ اسی طرح بہار کی آبادی ملک کی جملہ آبادی کا 11فیصد ہے جبکہ قومی بجٹ سے صوبائی بجٹ کا موازنہ کریں تو وہ 6 فیصدی ہے۔ نتیش کے ۱۵ سالہ سوشاسن کے باوجود یہ حالت ہے ۔

نتیش کمار کے خلاف فی الحال عوام میں عام طور پر اور نوجوانوں میںخصوصاً شدید ناراضگی ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم نتیش کمار کے 15سالوں کا کارنامہ بتانے کے بجائے صرف اپنے 4سال کے ساتھ کی بات کرتے ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نتیش کمار کے یہی 4 سال سب سے زیادہ مایوس کن تھے۔ بی جے پی کو بار بار محسوس ہوتا ہے نتیش کمار فی الحال سرمایہ نہیں بلکہ بوجھ بن گئے ہیں اس لیے وزیر اعلیٰ کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے ۔ ایسادوسری بار ہورہا ہے۔ پچھلے پارلیمانی الیکشن (2014) میں بی جے پی نے 22 نشستیں جیت کرسوچ لیا تھا کہ اسے نتیش کمار کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انہیں صرف 2پر کامیابی ملی تھی۔ 2015 میں بی جے پی نے جے ڈی یو کے بغیر صرف ایل جے پی کے ساتھ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ نتیش کمار اس کے خلاف عظیم اتحاد میں شامل ہوگئے ۔ انتخابی نتائج نے امیت شاہ کے ہوش اڑا دیئے۔ بی جے پی تیسرےنمبر پر پہنچ گئی اور اس کی نشستیں 95سے گھٹ کر 56 پر آگئی ۔ اس کراری ہار نے امیت شاہ کواپنی کم مائیگی کا احساس دلا کر حقیقت پسند بنا دیا ۔

بی جے پی نے اپنی رسوائی کے بعد دو سال کے اندر نتیش کمار کو بلیک میل کرکے اپنے ساتھ ملا لیا۔ نتیش نے اس بار کےقومی انتخاب(2019) میں بلیک میلنگ کے جواب میں بلیک میلنگ کرکے 2 کے مقابلہ 17 سیٹیں جھٹک لیں اور بی جے پی کو 22 سے 17 پر اتار لیا ۔ 2019 کے قومی انتخاب میں جب بی جے پی کی 100 فیصد تھی تو جے ڈی یو کی صرف ۹۴ فیصد۔ اس وقت بی جے پی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ اس بار اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے کوشش کی کہ نتیش کو کم نشستوں پر انتخاب لڑنے کا مجبور کیا جائے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکی تو معاملہ برابری پر چھوٹا یعنی 123نشستیں جے ڈی یو تو اس سے ایک کم 121بی جے پی حصے میں آئیں۔ جے ڈی یو نے اپنے حصے میں سے ۷ مانجھی کی ہم پارٹی کو دے دیں اور بی جے پی نے اپنی جیب سے 11نشستیں وی آئی پی کو دے دیں اس طرح فی الحال بی جے پی 210 اور جے ڈی یو 215 پر لڑ رہی ہے۔ چراغ پاسوان کو الگ کرکےفائدہ اٹھانا بی جے پی کو مہنگا پڑا کیونکہ اس کےبعد نتیش نے اسے یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا کہ اگر بی جے پی زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوجائے تو بھی وزیر اعلیٰ وہی ہوں گے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449577 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.