حکومت کے 800 دن مکمل، مہنگائی نےعوام کی چیخیں نکال دیں

عوام کے لیے بری خبر ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے 800 دن مکمل ھوگئے ہیں اور ان دنوں میں مہنگائی آٹھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ حکومت اپنا مہنگائی ہدف بڑھانے میں کامیاب ہوئی ھے جس نتیجے میں عوام کے لیے زندگی مشکل تر ہو گئی ہے شاید اسی ہدف کے ساتھ وزراء میدان میں نکلے تھے اور دو سال کی سر توڑ کوششوں کے بعد وہ یہ مشکل ہدف عمران خان کی خواھش پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے عوام کو سبق سکھا دیا ہے کہ وہ دوبارہ کبھی تبدیلی کا نام بھی نہیں لیں گے یہ مہنگائی کریڈٹ پی ٹی آئی حکومت کو جاتا ھے۔ ان 800 دنوں میں حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ اس نے عوام کیلئے ہر راستہ بند کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کی اقتدار کے حصول کی طویل جدوجہد کے باوجود آج لوگ پھر اپوزیشن جماعتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کیا عوام نے اس مہنگائی کیلئے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا؟ کیا عوام نے اس لیے موسموں کی سختیاں برداشت کی تھیں کہ ان کی زندگی ہی مشکل ہو جائے؟ عمران خان اپنی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وزیراعظم تو بن گئے لیکن اس جدوجہد میں جو ان کے ساتھ تھے، وہ ووٹرز جو سڑکوں پر دھکے کھاتے رہے، ڈنڈے کھاتے رہے، بینر و پوسٹر لگاتے رہے وہ تو آج 2 وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ تحریکِ انصاف کے راہنماء یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مہنگائی مصنوعی ہے، مہنگائی پر قابو پا لیں گے، مہنگائی کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، وفاقی کابینہ کے اجلاس ہوتے ہیں، صوبائی کابینہ حرکت میں آتی ہے، چھاپے مارے جاتے ہیں۔ کمزور افراد پکڑے جاتے ہیں ان کے مال پر قبضہ ہوتا ہے۔ بڑے مگر مچھ عوام کو لوٹتے ہیں اور حکومت بے بسی سے سب کچھ دیکھتی رہتی ہے۔

ادارہ شماریات کی دستاویز کے مطابق حکومت کے 800 روز کے دوران چینی اوسط 45 روپے 88 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی۔ اگست 2018ء میں چینی کی اوسط قیمت 55روپے انسٹھ پیسے فی کلو تھی جو بڑھ کر 110 روپے فی کلو تک جا پہنچی ھے۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار میں بھی ہیر پھیر نظر آتا ھے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہی دیکھا گیا ہے۔ ادارہ شماریات کے ایسے اعداد و شمار مسلسل جاری ہوتے رہتے ہیں لیکن جب تک حکومت مصنوعی مہنگائی کی بیان بازی سے باہر نہیں نکلے گی اس وقت تک اسے سمجھ نہیں آئے گی کہ اصل میں کیا کرنا ہے۔ آج تک وزراء نے سوائے بیان بازی کے کچھ نہیں کیا اور وہ آئندہ بھی بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے کیونکہ انہیں اس کے سوا کچھ نہیں آتا۔ وہ 800 دنوں میں مسلسل بیان بازی کے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں اور اس مسلسل بیان بازی کے بعد تو یہ کہنا چاہیے کہ مہنگائی تو حقیقی ہے اسے روکنے کیلئے حکومتی اقدامات مصنوعی ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق اگست دو ہزار اٹھارہ تا نومبر دو ہزار بیس کے دوران دال ماش102 روپے، دال مسور 47 روپے، دال مونگ 119 روپے، دال چنا 26 روپے جبکہ بکرے کا گوشت 203 اور گائے کا گوشت 98 روپے فی کلو مہنگے ہوئے ہیں۔ ان قیمتوں میں بھی مزید اضافہ ھو سکتا ہے لیکن اگر صرف انہی قیمتوں پر بھی اکتفا کر لیں تو کیا حکومت کے پاس اس مہنگائی کی کوئی دلیل ہے؟ اگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، بجلی، پانی، گیس، ادویات، ٹرانسپورٹ، بچوں کی فیسیں، کتابیں مہنگی ہوئی ہیں تو کیا عام آدمی کی آمدن میں بھی اضافہ ہوا ہے ظاھر ھے کہ آمدن میں اضافہ نہیں ہوا البتہ مہنگائی میں سو فیصد سے زائد کا اضافہ ضرور ھوا ھے عام آدمی کی آمدن تو پہلے ہی نپی تلی تھی اگر وہ نہیں بڑھی اور ضروریات زندگی کی تمام اشیاء مہنگی ہو گئی ہیں تو پھر اس کا واضح مطلب مہنگائی کے ساتھ بیماریوں میں اضافہ ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کے دور حکومت میں میں اوسط مہنگائی 8 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے مالی سال دو ہزار انیس، بیس میں مہنگائی کی اوسط شرح دس اعشاریہ چوہتر فیصد زائد رہی جو سابقہ حکومتی اھداف سے بہت زیادہ ھے۔

حکومت کب تک تمام شعبوں میں مافیاز کے بیٹھنے کا راگ الاپتے رھے گی؟ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں بےبس کیوں؟ حکومت کب تک مہنگائی کا ملبہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ پر ڈالتی رھے گی؟

حکومت کے 800 میں آٹے کا بیس کلو کا تھیلا 771 روپے سے بڑھ کر 989 روپے کا ہو گیا ہے۔ ویسے اس قیمت پر آٹا ملنا ابھی بھی مشکل ہے لیکن ہو سکتا ہے کہیں مل رہا ہو۔ آٹا تو بیس کلو، سولہ سو سے اٹھارہ سو روپے کا بھی مل رہا ہے لیکن پھر بھی حکومت کے معاشی جادوگر یہی کہیں گے کہ مہنگائی مصنوعی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں بجلی تین روپے پچاسی پیسے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں تین سو چونتیس فیصد تک اضافہ ہوا ہے ان قیمتوں میں اضافے سے صارفین کو مجموعی طور پر 550 ارب روپے سے زائد کا اضافی برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود حکومت ڈنڈا اٹھا کر کسانوں کے پیچھے چڑھی ہوئی ہے جب لاگت میں اضافہ ہو گا تو چیزیں مہنگی ہوں گی یہ بنیادی فارمولا آج تک حکومت نہیں سمجھ سکی۔ ادارہ شماریات کے مطابق تازہ دودھ 20 روپے فی لیٹر، دہی 19 روپے فی کلو، آلو 40، پیاز 37، چاول 15، لہسن کی قیمت میں ایک سو 114 روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے۔ انڈوں کی قیمتوں میں 72روپے فی درجن اضافہ ہوا۔ یہ اعداد و شمار غریب ملک کے رہنے والوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ ادرک 800 روپے فی کلو فروخت ہوتا رہا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران لیموں 600 روپے کلو فروخت ہوتا رہا اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں گندم امپورٹ کرنا پڑی ہے۔ حکومت کے معاشی سوداگروں کی یہ غلطی کسی صورت معاف نہیں کی جا سکتی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے انہیں 2018ء پر واپس کیسے لایا جائے گا؟ حکمران عام آدمی کے مسائل کیسے تبدیل کرے اور وزیراعظم اپنے ریاست مدینہ کے فلسفے کو عملی جامہ کب اور کیسے پہنائے؟ ساری قوم عمران خان کے کئے گئے وعدوں پر انہیں کیطرف دیکھ رھی ھے۔
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334947 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More