ایک جلیبی تیل میں ، ارنب گیا جیل میں

ارنب کوپہلے جیل کے بجائے ایک اسکول میں قرنطینہ کیا گیا تھا ؟ وہاں پر پولس نے اس سے موبائل کا موبائل ضبط کرلیا تھا لیکن پھر پتہ چلا کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی اور کے موبائل سے سوشیل میڈیا پر مصروف عمل ہوگیا ہے ۔ اس لیے پولس نے اسے اتوار کے دن باقائدہ تلوجہ جیل میں منتقل کردیا۔ اپنے چینل پر شیر کی مانند دہاڑنے والے ارنب کو جب جیل لے جایا جارہا تھا تو اس نے الزام لگایا کہ سنیچر کو شام میں علی باغ جیل کے جیلر نے اس کے ساتھ مارپیٹ کی ۔ ارنب ٹیلی ویژن پر اتنا جھوٹ بول چکا ہے کہ اس کے اوپر سے عوام کا اعتماد ہی اٹھ چکا ہے ۔ اب اگر وہ سچ بھی بولے تب بھی یقین نہیں ہوتا ۔ ویسے یہ امکان بھی ہے کہ اپنے پینل میں موجود لوگوں کی طرح اس نےپولس سے بدتمیزی کی ہو ؟ پولس بھلا اپنی بے عزتی کیوں برداشت کرے گی ؟ خیر ارنب کا دعویٰ ہے کہ اس کی زندگی خطرے میں ہےلیکن عدالتی تحویل میں کیسے ہوسکتا ہے ؟ یعنی جیل میں بھی جھوٹ۔

ٹیلی ویژن کو حکومت ا پنی تشہیر اور مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے استعمال تو کرتی تھی لیکن باقائدہ سیاسی مفاد کاآلۂ کار بنانے کی سعی مودی یگ میں شروع ہوئی ۔ اس کو سپاری صحافتکہنا چاہیے ۔ انڈر ورلڈ میں سپاری روپیوں کے عوض قتل کے ٹھیکے کو کہتے ہیں۔ فی الحال ارنب کے پاس مہاراشٹر کی حکومت کو غیر مستحکم کرکے گرانے کی سپاری ہے اور گزشتہ کئی ماہ سے وہ اس کام میں جٹا ہوا ہے ۔ کورونا کے لاک ڈاون میں جب پالگھر کے اندر دوسادھو اور اس کے ڈرائیور کی ہجوم کے ہاتھوں موت ہوگئی تو ارنب گوسوامی نے اس کو خوب اچھالا۔ اس معاملے میں اس کا ارادہ ایسے حالات پیدا کرنے کا تھا کہ مرکز کے لیے صوبائی حکومت کو برخواست کرکے صدر راج نافذ کرنا سہل ہوجائے۔ بہ صورتِ دیگر انتخاب بھی کروانے پڑیں تو پالگھر کے نام پر ہندو سماج کی ہمدردیاں بٹوری جائیں ۔ ارنب کو اس میں کوئی ہندومسلم زاویہ نہیں ملا تو اس نے ہندو عیسائی زاویہ تلاش کرلیا اور سونیا گاندھی کو روم کے ویٹیکن سٹی اور پوپ تک پہنچا دیا نیز جوش میں آکر انہیں مسلمانوں کی اولاد بتا دیا۔

یہ ایسی احمقانہ کوشش تھی کہ جس مثال نہیں مل سکتی ۔ مہاراشٹر میں ترقی پسند محاذ کی حکومت ہے جس کے وزیر اعلیٰ شیوسینا رہنما ادھو ٹھاکرے ہیں ۔ یہ جماعت 35سالوں تک بی جے پی کے ساتھ رہی ہے اور ہندوتوا کے معاملے میں اس سے زیادہ شدت پسند ہے ۔ مہاراشٹر پولس وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے۔ این سی پی کے انل دیشمکھ فی الحال وزیر داخلہ ہیں ۔ ایسے مذکورہ ہجومی تشدد کو کانگریس سے جوڑنا بالکل بے سرپیر کی بات تھی ۔ اس پر وزیر داخلہ امیت شاہ اور یوگی ا دیتیہ ناتھ جیسوں کی حمایت بھی ارنب کو مل رہی تھی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اس ماحول سازی کے دوران بلند شہر میں ایک ہندو نے دو سادھووں کا قتل کردیا ۔ اس قاتل نے گرفتاری کے بعد اعتراف جرم کرلیا اور یہ سب یوگی راج میں ہوگیا ۔ اتر پردیش کے س سانحہ پر سارے میڈیا چینلس کو سانپ سونگھ گیا ۔ ادھو نے یوگی کو فون کرکے اپنا حساب کتاب چکتا کرلیا لیکن مہاراشٹر کی حکومت کو اس وقت اندازہ ہوگیا کہ اگر ارنب یا اس جیسے زرخرید چینلس پر لگام نہیں کسی جائے تو معاملہ کبھی بھی بگڑ سکتا ہے ۔

اس سے پہلے کہ مہاراشٹر حکومت اس بابت کوئی اقدام کرتی ارنب نے سشانت سنگھ راجپوت کا مسئلہ چھیڑ دیا ۔ بی جے پی چونکہ اس کی بنیاد پر بہار کا الیکشن جیتنا چاہتی تھی اس لیے مہاراشٹر کی حکومت کو تختۂ مشق بنایا گیا۔ مقصود یہ تھا مہاراشٹر کی حکومت کو سشانت کا یعنی بہاریوں کا دشمن بناکر پیش کیا جائے ۔ کانگریس چونکہ اس میں شامل ہے اس لیے اسے بہاریوں کا دشمن بتا کر آر جے ڈی کے مہاگٹھن بندھن کو بہاری عوام کا قاتل بناکر پیش کیا جائے ۔ ایسی اوچھی حرکتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو عوامی فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں کرتے ۔ بہار میں پچھلے پندرہ سال سے این ڈی اے میں شریک جے ڈی یو کی حکومت ہے۔ بی جے پی مرکزمیں ساڑھے ۶ سال حکومت کرچکی ہے لیکن چونکہ وہ دونوں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتے اس لیے ایسے جذباتی موضوعات کو اچھالا جاتا ہے ۔ سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے معاملے ارنب نے ہنگامہ کوجو طول دیا اس کے لیے تو اسے گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کی لپیٹ میں کانگریس، شیوسینا اور پھر ممبئی پولس کمشنر اور محکمہ کی شبیہ بھی آگئی۔

حکومت مہاراشٹر نے اس کا فائدہ اٹھاکر ریپبلک ٹی وی کے خلاف خود میدان میں آنے کے بجائے اپنی پولس کو اس کے پیچھے لگا دیا۔ ممبئی کے اے سی پی سدھیر جامباؤڈیکر نے اشتعال انگیز ی کے الزام میں ارنب کو نوٹس بھیج کر پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا ۔ ورلی ڈویڑن کے اے سی پی نے انھیں سی آر پی سی سیکشن 108(1) (اے) کے تحت نوٹس بھیجا ۔ سیکشن چیپٹر پروسیڈنگ میں اے سی پی رینک کے افسر کے پاس مجسٹریٹ کے اختیار ہوتے ہیں۔ ارنب پر پولیس کا الزام ہے کہ انھوں نے پال گھر میں سنتوں کے قتل پر اپنے پروگرام میں مذہبی جذبات مشتعل کرنے کا کام کیا تھا۔ دوسرا معاملہ باندرا میں جمع ہونے والی بھیڑ کا تھا جسے مسجد سے جوڑ کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سعی کی گئی تھی ۔ نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ان نشریات کے وقت لاک ڈاؤن نہ ہوتا تو فساد بھڑک جاتا ۔ اس طرح گویا کورونا کی بندی نےا سے ٹال دیا۔

ارنب گوسوامی نے پالگھر میں سادھووں اور ڈرائیورکو ہجومی تشدد میں قتل کئے جانے کے بعد فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کے لیے جس زبان کا استعمال کیا تھا اس کا ایک نمونہ دیکھیں:’’ سب ہندو ایک ساتھ رہو ، ۴ تاریخ کو ہم بتائیں گے کہ ہندو کیا چیز ہے؟ اور یہ کہ ہیجڑوں کی اولاد تو تم ہو ، جو سینکڑوں نے مل کر مارا ہے ، ویشواس گھاتیوں کا سمئے(بدعہدو ں کا وقت ) نزدیک آرہا ہے۔ بھاگنے کیلئے تیار رہنا۔ اب سونیا گاندھی ، راہل اور پرینکا گاندھی کہاں ہیں؟ اور مسلمانوں کی اولاد ہو تم ۔‘‘ اے سی پی نے ارنب کو مذکورہ نوٹس میں 2؍ دنوں کا وقت دے کردفتر حاضر ہونے کا حکم دیا تھا اورپوچھا تھا کہ کیوں نہانہیں گرفتار کیا جائے۔ نوٹس میں گرفتاری سے بچنے کے لیے۱۰؍ لاکھ روپے کا بانڈ اور۲؍ ضمانت داروں کو پیش کرنے کا راستہ بھی سجھایا گیا تھا۔

اس معاملے میں آگے چل کر ممبئی پولس نے ریپبلک ٹی وی کے ایگزیکٹو ایڈیٹر نرنجن نارائن سوامی، ڈپٹی نیوز ایڈیٹر ساگریکرا میترا، اینکر / سینئر ایسوسی ایٹ ایڈیٹر، شیوانی گپتا اور ڈپٹی ایڈیٹر شون سین گویا کہ ادارتی عملہ کو بھی تفتیش میں شاملکرلیا ۔ ان کے خلاف اشتعال انگیزی کے علاوہ جان بوجھ کر ممبئی پولیس فورس اور اس کے سربراہ، پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ کو بدنام کرکے ممبئی پولیس کی شبیہ کو داغدار کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا گیا۔ ارنب کے خلاف یہ شکنجہ ایک ایسے وقت میں کسا جارہا تھا جبکہ فرضی ٹی آر پی کے معاملے میں ریپبلک ٹی وی کے اہلکاروں سے دستاویزات کی روشنی میں سخت تفتیش جاری تھی ۔ ارنب گوسوامی نے اس کے خلاف پھر سے سپریم کورٹ میں گہار لگائی مگر وہ درخواست مسترد ہوگئی ۔ عدالت عظمیٰ نے ارنب کو ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دے دیا ۔

ممبئی ہائی کورٹ میں پہلے سے میڈیا ٹرائل اور ارنب گوسوامی کے خلاف بہت سی پٹیشنز پر سماعت چل ہی رہی تھی ۔ اس میں ممبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دیپانکر دتا نے ارنب گوسوامی پر زبردست لعن طعن کرتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ اور زہریلی رپورٹنگ و میڈیا ٹرائل کے روز افزوں رجحان پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ارنب گوسوامی کی وکیل مالویکا ترویدی نے جب عدالت سے کہا کہ ”ہمارا چینل تو انویسٹی گیٹو جرنلزم (تفتیشی صحافت) کر رہا ہے اور سرکاری تفتیش میں نقائص کی نشاندہی کر رہا ہے۔“ تو اس پر بنچ نے جواب دیا ’’ اگر آپ ہیتفتیش کار، آپ ہیاستغاثہ اور آپ ہیجج بن جائیں تو پھر ہماری کیا ضرورت ہے؟ آخر ہم کیوںیہاں بیٹھے ہیں؟آپ کو اپنی حدود کا علم ہونا چاہیے۔اپنی حدود کے اندر رہ کر آپ کو سب کچھ کرنے کی اجازت ہے۔ حد سے باہر مت نکلیے۔‘‘ اس طرح گویا ریپبلک ٹی وی کی بدولت ساری صحافتی برادی کو عدالت کی پھٹکار سننی پڑی۔

عدالت نے ارنب کی وکیل کو یہ پوچھ کر لاجواب کردیا کہ ”کیا فلاں معاملہ میں کس کو گرفتار کیا جانا چاہیے؟یہ سوال کرنا انویسٹی گیٹو جرنلزم کا حصہ ہے؟ سی آر پی سی کے تحت تفتیشکے اختیارات پولیس کو دیئے گئے ہیں ‘‘۔ سشانت کی رپورٹنگ کے اسلوب پر سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ’’ خودکشی کے معاملہ کی رپورٹنگ کےلیے متعدد رہ نما ضابطے موجود ہیں۔اس میں سنسنی خیز سرخیاں نہیں ہونی چاہئیں۔کیا آپ کو مرنے والے کا ذرا بھی احترام نہیں ہے؟یہ بہت ہی بدبختی کی بات ہے۔“ اسی طرح کے معاملہ میں دہلی ہائی کورٹ کییک رکنی بنچ نے بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کے الزام میں محصور آصف اقبال تنہا کے وکیل سے سوال کیا کہ پولیس نے تفتیش کے دوران جو معلومات میڈیا کو لیک کی ہیںان سے کس طرح نمٹا جائے؟ عدالت نے خلاف ورزی کرنے والے افسروں اور چینلوں کو اس طرح کی حرکت سے روکنے اور سزا دینے پر استفسار کیا ۔

ارنب گوسوامی کی گرفتاری کو اس تناظر سے کاٹ کر دیکھنا چاہیے۔ویسے یہ گرفتاری مذکورہ امور میں نہیں بلکہ 2018 میں اس کے خلاف درج کیے جانے والے 53 سالہ اونئے نائک نامی انٹیریئر ڈیزائنر اور ان کی والدہ کی خودکشی کا معاملہ میں ہوئی ہے۔ نائک کی سوسائڈ نوٹ میں ارنب پر بقایا جات کا الزام موجود ہے۔اونئے نائک کی بیٹی ادنیہ نائک نے مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ سے شکایت کی تھی کہ علی باغ پولیس اس کیس کی تحقیقات میں عدم توجہی کر رہی ہےاس لیے اسے سی آئی ڈی کے حوالے کیا گیا ۔ اس کے بعدہی مہاراشٹرا پولیس کی رائےگڑھ یونٹ نے ارنب کے گھر پر چھاپہ مارکر اسےگرفتار کرلیا۔ارنب نے پولیس وین میں اس پر حملہ اور بیٹے کو زدوکوب کرنے کا الزام لگایالیکن ساتھ میں جاری کردہ ویڈیو اس کی تردید کرتی ہے۔ ویڈیو میں ارنب گڑگڑاتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اب تو پولس نے ارنب اور اہل خانہ پرخواتین پولس اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی کا مقدمہ بھی درج کرلیا ہے۔

ارنب کو گرفتاری کے بعد پہلے تو علی باغ کی سیشن کورٹ میں حاضر کیا گیا جس نے اسے14؍ دنوں کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا ۔ارنب کو جیل بھیجنے کے بجائے ایک اسکول کے اندر قرنطینہ کیا گیا ۔ علی باغ پولیس ہر ملزم کو عدالتی تحویل میں بھیجے جانے کے بعد ضابطے کے مطابق اس اسکول میں رکھتی ہے اور اس کے بعد جیل منتقل کردیتی ہے۔ علی باغ جیل میں فی الحال 82؍ قیدی رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ 99موجودہیں اور اگر ارنب کو وہاں پہنچایا جائے تو وہ تعداد100 ہوجائے گی ۔ ارنب کے وکیل آباد پونڈا نے بامبے ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کرکے حراست اور گرفتار ی کو غیر قانونی قرار دینے یا عبوری راحت دینے کی اپیل کی ۔ بامبے ہائی کورٹ کی 2 رکنی بنچ نے عبوری راحت میں جلد بازی کی کوئی ضرورت سے انکار کردیا دیگر فریقوں کے دلائل سننے کے لیے اگلے دن کی تاریخ دے کر حکومت کےعلاوہ شکایت کنندگان کو نوٹس جاری کردیا ۔اگلے دن بھی بات ٹلی اور مزید ایک رات جیل نما اسکول میں گزارنے کا بندو بست ہوگیا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228091 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.