بہار: خمار اترا تو جانا ابھی حصار میں ہوں

 آئی پی ایل کا مہورت اس بار ٹھیک نہیں نکلا اور اس کا ستارہ نتیش کمار و تیجسوی یادو سے بھی زیادہ گردش میں رہا۔ پہلے تو اس کے چینی اسپانسر پر ہنگامہ ہوا اور اجئے شاہ ابن امیت شاہ کو اس سے دامن چھڑانا پڑا۔ اس کے بعد کورونا کے سبب میچ دبئی چلے گئے۔ اس سے نہ صرف خرچ بڑھا بلکہ شائقین بھی غائب ہوگئے۔ ابھی یہ مصیبت کیا کم تھی کہ بہار کی دلچسپ انتخابی مہم نے عوام کرکٹ کے بجائے وہاں کی خبروں سے تفریح لینے پر مجبور کردیا۔ درمیان میں ارنب کی گرفتاری نے خبروں کے چینلس کو اور بھی پرکشش بنا دیا ۔ بالآخر آئی پی ایل کے فائنل والے دن بہار کے نتائج آنے لگے اور دن بھر اس میں ہونے والا اتار چڑھاو اتنا سنسنی خیز تھا کہ بہت کم لوگوں نے آئی پی ایل کا رخ کیا ہوگا۔ صبح میں پہلے این ڈی اے آگے تھی اس کے بعد مہا گٹھ بندھن نے بازی پلٹی اور 10 بجے سے 5 بجے تک و ہ چھائے رہے اور 40 رنوں کا سوری سیٹوں کا فرق ہوگیا لیکن پھر بازی پلٹی اور جب یہ مضمون روانہ کیا جارہا ہے دونوں میں صرف تین نشستوں کا فرق رہ گیا ہے اب یہ اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔
 
بہار کے رائے دہندگان نے پھر ایک ساری خبررساں ایجنسیوں کو چکما دے دیا اور دینک بھاسکر کے علاوہ سارے ماہرین انتخاب دھوکہ کھا گئے ۔ ان خبررسانوں کی بنیاد پر جو لو گ تبصرہ نگاری کرتے تھے وہ سب بھی چاروں خانے چت ہوگئے ۔ پچھلی بار وہ پہلا موقع تھا جبکہ این ڈی ٹی وی کے مالک ڈاکٹر پرنوئے رائے نے اپنے ناظرین سے معافی مانگی تھی اور آج میں بھی اپنے آپ کو اسی حالت میں پاتا ہوں ۔ ویسے تو ابھی تک 243 میں سے صرف 100نشستوں کا حتمی نتیجے آئے ہیں لیکن این ڈی اے 120میں آگے ہے اور مہاگٹھ بن 117 پر ہے ۔ کرکٹ میچ میں کہا جاتا ہے کہ آخری اوورس میں بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے لیکن صبح 10 بجے سے شام5 بجے تک مسلسل سبقت اس بات کا اشارہ کررہی ہے کہ بہار میں پھر ایک بار نتیش کمار کی سرکار کا قوی امکان ہے۔

نتیش کمار نے انتخابی مہم کےاپنے آخری خطاب میں کہا تھا ’انت بھلا تو سب بھلا ‘ لیکن افسوس کہ جس نوجوان نے ان کی سیاست کا انتم سنسکار کیا اس کا بھلا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ ویسے فرق تو کم ہورہا ہے ۔ دل کو بہلانے کے لیے یار دوست دیہات سے امیدیں بھی وابستہ کیے ہوئے ہیں اس کے باوجود مہم کے دوران دکھائی دینے والی سونامی لگتا ہے کسی اور جانب نکل گئی ہے ۔ پانچ سال کے اندر تاریخ نے اپنے آپ کو دوہرا دیا ہے اور 2015 کی مانند سارے سیاسی مبصر اپنا سر پیٹ رہے ہیں ۔ اس وقت کے سبھی سروے متحدہ قومی محاذ کے حق میں تھے ۔ ابتدائی نتائج اس کے مطابق آئے تو زعفرانی مٹھائیاں بٹنے لگیں اور پٹاخے بجنے لگے لیکن پھر مہاگٹھ بندھن کو زبردست فتح حاصل ہوگئی اور بی جے پی 53پر سمٹ گئی ۔ دیکھتے دیکھتے سیاسی افق کا زعفرانی رنگ کالا پڑ گیا ۔ لوگ باگ امیت شاہ کو ڈھونڈنے لگے کہ جنھوں نے بھوشیہ وانی (پیشنگوئی ) کی تھی کہ 9 بجے پہلا رحجان آئے گا ۔ 11 بجے تک صورتحال واضح ہوجائے گی اور 12بجے نتیش کمار اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اس بار ہوا کا رخ بدلا تو تیجسوی یادو نے اعلان کیا کہ 9 نومبر کو میری سالگرہ ہے 10 کو ہم جیت جائیں گے اور لالو جی چھوٹ کر آجائیں گے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا ۔تیجسوی کے سارے خواب ٹوٹ کر بکھر گئے اس باران کے ساتھ وہی ہوا جو پچھلی بار امیت شاہ کے ساتھ ہوا تھا۔ بہار کے رائے دہندگان کو شاید پیشنگوئی سے پرانی پرخاش ہے۔ بہا ر سماجی انصاف کی تحریک کا منبع ہے۔ منڈل کمیشن کے جنک بی پی منڈل ۶ ماہ کے لیے سہی بہار کے وزیر اعلیٰ بھی تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہار میں سیاست جہاں سے بھی شروع ہو اس کا خاتمہ ذات پات کی جوڑ توڑ پر ہوتا ہے۔ اس سیاسی رحجان پندرہ سال تک لالو پرشاد یادو نے فائدہ اٹھایا اور راج کیا ۔ اس کے بعد نتیش کمار نے ایک الگ انداز میں اسے آگے بڑھایا اور پندرہ سال حکومت کی ۔

اب کی بار یہ کہا جارہا تھا کہ لالو کے بیٹے تیجسوی یادو نے سماجی انصاف کو معاشی انصاف سے بدل دیا ہے ۔ بہار کا ووٹر اب ذات پات کے بجائے پڑھائی، دوائی ، کمائی اور سینچائی جیسے مسائل کی بات کررہا ہے ۔ وہ بجلی سڑک اور پانی سے بھی بہلنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے لیکن انتخابی نتائج نے ثابت کردیا کہ ایسا نہیں ہے۔ انتخابی جلسوں میں ان مسائل پر تالیاں تو خوب پٹتی ہیں۔ کیمرے کے سامنے اس باتیں بھی بہت ہوتی ہیں لیکن ووٹ دیتے وقت رائے دہندہ اپنی ذات دکھا دیتا ہے اس لیے تیجسوی کا براہمن ، بنیا اور ٹھاکر کو ٹکٹ دینا بھی ان کے کام نہیں آیا ۔ اس بار اگر کوئی چمتکار تیجسوی یادو کو کامیاب بھی کردے تب بھی ذات پات کی دیوار گرانے کے لیے انہیں بہت محنت کرنی پڑے گی۔

حرکت و ذہانت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دوست اور دشمن دونوں کی ذہانت میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ بہار میں اس بار بی جے پی اور اس کے ہمنوا ذرائع ابلاغ نے نتیش کمار کا استعمال جس خوبی سے کیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اپنے داخلی حریف کو ساتھ رکھ کر کس طرح کمزور کیا جاتا ہےاس کا بہترین نمونہ سیاست کے طلباء نے دیکھا۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ بہار کے سیاسی مثلث میں نتیش کمار کو ایک ایسا مقام حاصل ہوگیا ہے کہ وہ کمزور ہونے کے باوجود کسی ایک فریق کو مضبوط تر اور دوسرے کو نحیف تر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تمام سیاسی فریقوں میں نتیش کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ وہ دونوں حریفوں کے ساتھ جانے کی حالت میں ہو تے ہیں ۔ ایسا کسی اور کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ نتیش کمار اگر الیکشن سے قبل پھر ایک بار پلٹی مار کر مہا گٹھ بندھن میں چلے جاتے تو یہ الزام لگاتے نظر آتے کہ وہ تو دس لاکھ ملازمت دینا چاہتا تھا مگر مرکزی حکومت نے روک دیا۔

بی جے پی کے سامنے سب سے بڑا ہدف یہ تھا کہ کسی طرح انہیں این ڈی اے میں روکے رکھا جائے ۔ اس مقصد کی خاطر فروری سے ہی ان کو این ڈی اے کا چہرہ بنادیا گیا اور آخری دن تک برداشت کیا گیا ۔ بی جے پی کے سامنے دوسرا ہدف یہ تھا کہ نتیش کے تئیں پائی جانے والی عوامی ناراضگی کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیا جائے۔ اس کے لیے بی جے پی نے اپنے پوسٹر سے ان کی تصویر غائب کردی ۔ بی جے پی کو یہ پتہ تھا کہ جے ڈی یو کی مدد کے بغیر اس کا وجود خطرے میں ہے لیکن وہ اس کی بیساکھی بننے کے بجائے نتیش کو اپنی بیساکھی بنانا چاہتی تھی اس لیے اپنے حلیف کو کمزور کرنا بھی ضروری تھا۔ اس مقصد کے لیے چراغ پاسوان کو این ڈی اے سے نکال کر جے ڈی یو سے بھڑا دیا گیا ۔ ایسا کرنے سے یہ ہوا کہ جے ڈی یو کا ووٹ تو بی جے پی کو ملا لیکن بی جے پی کا ووٹ ایل جے پی کو چلا گیا۔

یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف جے ڈی یو کی ووٹ کا تناسب کم ہوگیا بلکہ اس کی سیٹیں بھی گھٹ گئیں۔ بی جے پی نے جے ڈی یو کی مدد سے اپنی سیٹیں بڑھا لیں۔ جے ڈی یو کو ساتھ رکھنے سے آر جے ڈی کو جو فائدہ ہوا تھا اور وہ اس بار نہیں ہوسکا لیکن جے ڈی یو کو بھی بی جے پی سے فائدہ نہیں ہوا ۔ اس لیے اب یہ صورتحال ہے کہ بی جے پی اور آر جے ڈی برابر ہوگئے اور نتیش کمار تیسرے نمبر پر پہنچ گئے ہیں ۔

کانگریس اپنی تمام تر کوشش کے باوجود جے ڈی یو کے خلاء کو پر نہیں کرسکی ۔ وہ اگر بی جے پی کی مانند اپنی کچھ نشستیں وی آئی پی کو دے دیتی تو مہا گٹھ بندھن کا فائدہ ہوسکتا تھا لیکن اس معاملے میں بڑی چوک ہوگئی ۔ نتائج یہ بھی بتا رہے ہیں کہ سی پی ایم ( مالے) بھی زیادہ نشستوں کی حقدار تھی ۔ اس جماعت کی کامیابی میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ نظریات ، محنت کے ساتھ کیڈر کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ ان کے پاس کنہیا کمار جیسا مقرر نہیں ہے لیکن زمینی سطح پر کام اور عوام کا اعتماد اپنا رنگ دکھاتا ہے اس لیے تمام سیاسی جماعتوں اس جانب خاص توجہ دینی چاہیے ۔ ایک زمانے تک بی جے پی کے پاس کیڈر ہوا کرتا تھا لیکن روپیوں کی ریل پیل نے انہیں آرام پسند بنادیا ہے اور جذباتی ایشوز کے ذریعہ انتخاب جیتنے کی حکمت عملی نے کیڈر کے بجائے لیڈر کو سب کچھ بنا دیا ہے۔ بہار میں اب بھی امکان ہے کہ تیجسوی یادو ملک کے سب سے کم عمر وزیر اعلیٰ بن جائیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں مزید پانچ سال انتظار کرنا پڑے لیکن پچھلی بار اور اس مرتبہ میں یہ فرق ضرورہے کہ اب وہ اپنے دم رہنما بن کر ابھرے ہیں۔ وہ بی جے پی کی مانند نتیش کمار کے آگے لاچار نہیں ہیں ۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ایک نہ دن وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر ضرور فائز ہوں گے ۔تیجسوی یادو اگر اس بار ہار بھی جاتے ہیں تو فیض کا یہ شعر انہیں یاد رکھنا چاہیے؎
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہی
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223551 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.