بہار کے انتخاب میں وہ نہیں ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی
لیکن تیجسوی یادو کا سب سے بڑی پارٹی کامیابی یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر
مودی اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی ڈبل انجن ریل گاڑی بھی ان کو روند نہیں
سکی ۔ یہ دونوں نام نہاد طاقتور رہنما بھی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اس
کو سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے سے نہیں روک سکے ۔ تیجسوی یادو دو کمزور
سہاروں کی مدد سے منزل کو پا تو نہیں سکے لیکن بہت قریب آگئے ۔ یہ کیسے
ہوا؟ اس سوال کا سب سے بنیادی جواب یہ ہے کہ سیاسی حکمت عملی عوام کی نبض
شناسی کا دوسرا نام ہے ۔ ویسے کبھی کبھار اندھیرے میں تکاّ بھی لگ جاتا ہے
مثلا ً 2014 میں مودی جی نے نعرہ لگایا ’اچھے دن آنے والے ہیں‘۔ اُس وقت
عوام کے اندر ایک یک گونہ مایوسی تھی۔ لوگ چاہتے تھے کہ اچھے دن آئیں لیکن
انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا کم از کم منموہن
سنگھ کے بس کی بات نہیں ہے ۔ اس لیے نوجوانوں نے سوچا کیوں نہ مودی جی کو
موقع دیا جائے ۔ مودی جی بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ان کو دیئے 60سال تو مجھے
کم ازکم 60ماہ تو دو ۔
عوام نے سوچا ٹھیک ہے ، ممکن ہے کہ وہ بھی اچھے دن نہیں لاسکیں تب بھی کوئی
نقصان تو ہے نہیں اس لیے کیا حرج ہے ؟کیوں نہ آزما کر دیکھا جائے ، اس طرح
مودی جی کی لاٹری لگ گئی اور وہ وزیر اعظم بن گئے۔ اسی طرح کی صورتحال اب
کی بہار میں بن گئی۔ منموہن سنگھ اور مودی کی عمر میں جتنا فرق تھا اس سے
بڑا فرق نتیش کمار اور تیجسوی یادو کے درمیان تھا اس لیے انہیں کم دقت پیش
آئی اور نوجوانوں کو اپنا ہمنوا بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔تیجسوی
یادو نے بہاری عوام کو اپنے ساتھ لینے کے لیے کسی غیر سے ڈرانے یا دوسروں
سے متنفر کرنےکے بجائے کچھ خواب جگائے ۔ بہار کے نوجوانوں کے سامنے پہلی
بار یہ سوال آیا کہ آخر انہیں باہر کیوں جانا پڑتا ہے؟ یہ سوال بھی پوچھا
گیا کہ باہر کے لوگ تعلیم اور روزگار کے لیے بہار میں کیوں نہیں آتے؟ یعنی
بہار کا صوبہ آتم نربھر ( خودکفیل) کیوں نہیں ہے؟ وزیر اعظم چونکہ آتم
نربھرتا کی بات بار بار کہتے ہیں۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ اس کے جواب میں
بہاری نوجوانوں کے سامنے اپنا منصوبہ رکھتے کہ وہ کس طرح بہاریوں کو اپنے
پیروں پر کھڑا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ مودی ایسا نہیں کرسکے کیونکہ ان کے
پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی تو ہے نہیں بس جملہ بازی ہے اور آج نوجوان اس
سے بہلنے والا نہیں ہے۔
اس بار انتخابی مہم کے دوران پھر سے مودی جی نے حسبِ توقع کشمیر سے بات
شروع کی اور پھر لداخ و چین چلے گئے ۔ آگے چل کر وہ ایودھیا لوٹے اور
پھرلالو کے جنگل راج کی سیر کی ۔ اس سے بات نہیں بنی تو تیجسوی اور راہل کو
شہزادہ بناکر خوفزدہ کیا اور پھر بھارت ماتا کی جئے کہہ کر لوٹ گئے ۔ نہ وہ
نوجوانوں کی ضروروتوں اور ترجیحات کو سمجھ سکے اور نہ نوجوانوں کو ان اوٹ
پٹانگ باتیں سمجھ میں آئیں اس کے باوجود وہ این ڈی اے حکومت بنانے میں
کامیاب ہوگئے۔ نتیش کمار کی کبر سنی نے بھی تیجسوی یادو کی مدد کی اور وہ
دوسرے سے تیسرے نمبر پر آگئے۔ تیجسوی نے جب سوال کیا کہ بہار کے اندر
سرمایہ کاری کیوں نہیں ہوتی اور یہاں صنعتی ترقی کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے؟
تو نتیش کمار نے جواب دیا ہم لوگ سمندر کے ساحل پر نہیں ہیں اور ہماری زر
خیز زمین پر صنعت لگانا مناسب نہیں ہے وہ بنجر علاقوں میں لگائی جاتی ہے۔
یہ اس قدر خودکش جواب تھا کہ بہار میں قدرتی وجوہات کی بناء پر صنعت کا
آنا ممکن نہیں ہے اور بہ فرض محال کوئی بھولا بھٹکا سرمایہ دار آجائے تب
بھی اس کو پیر جمانے کے لیے زمین تک نہیں دی جائے گی۔ تیجسوی نے کہا ہم دس
لاکھ ملازمت دیں گے تو نتیش نے کہہ دیا اس کے لیے روپیہ کہاں سے لائیں گے ؟
یعنی ہم تو ملازمت نہیں دیں گے ۔ نتیش کے ان مایوس کن جوابات نے ےتیجسوی کی
آرزو مند آگ پر تیل کا کام کیا اور وہ مہاگٹھ بندھن کے 110 نشستیں جیتنے
میں کامیاب ہوگئے۔
قومی جمہوری محاذ سے نوجوانوں کی بیزاری کا راز انڈیا ٹوڈے کے ایکزٹ پول نے
واضح کردیا۔ اس کے مطابق جہاں ۴۴ فیصد لوگوں نے تیجسوی یادو کو وزارت اعلیٰ
کے عہدے کے لیے اپنی پسند بتایا وہیں صرف ۳۳ فیصد لوگوں نے نتیش کمار کو
وزارت اعلیٰ کے عہدے کی خاطر مناسب بتایا حالانکہ وزیر اعظم سے لے کر بی جے
پی کا معمولی چپراسی بھی نتیش کمار کی وکالت کررہا تھا ۔ ان دونوں کے علاوہ
دو اور دعویدار تھے ان میں کم عمر چراغ پاسوان کے ساتھ ۷ فیصد لوگ تھے تو
دوسری جانب معمر اوپندرکشواہا کے حامی صرف ۴ فیصد عوام تھے ۔ رائے دہندگان
کے اندر بھی عمر کی تقسیم بہت واضح تھی۔ 18-25کے درمیانی عمر کے نوجوانوں
میں 47 فیصد مہا گٹھ بندھن کے ساتھ تھے جبکہ 34 فیصد نے این ڈی اے کی حمایت
کی تھی۔ اس کے بعد 26-35 سے کے درمیان کے لوگوں میں 47 فیصد تیجسوی کے حامی
تھے جبکہ صرف 36 فیصد نتیش کمار کے ہمنوا تھے۔ یہاں جو 2 فیصد کا اضافہ ہوا
ہے وہ دیگر جماعتوں کی جیب سے آتا ہے۔
36-50 کے درمیانی عمر کے ادھیڑ لوگوں مہاگٹھ بندھن کے حامی 6 فیصد کم
ہوکر41 فیصد پر آجاتاہے اور این ڈی اے کے حق میں یہ اضافہ ہوجاتا جو 42
فیصد تک جا پہنچتا ہے۔ اس سے اوپر والے 51-60 کی عمر کے بزرگوں مہاگٹھ
بندھن کے اندر ایک فیصد کی کمی کے ساتھ 40 فیصد کی حمایت باقی رہتی ہے جبکہ
دیگر جماعتوں سے 2 فیصد ووٹ اپنی جانب لے کر این ڈی اے 45 فیصد پر پہنچ
جاتا ہے۔ اب 61 سے اوپر والوں کی بات کریں تو ان میں مہا گٹھ بندھن کے 38
فیصد اور این ڈی اے کے حامی 48 فیصد دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے
کہ بہار میں ابھرتی ہوئی نسل ابھرتے ہوئے تیجسوی؍راہل کے ساتھ گزرتی ہوئی
نسل ڈوبتے ہوئے نتیش ؍مودی کے ساتھ ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ
ہندوستان میں نوجوان 65 فیصد ہیں اور بزرگ صرف 35 ہیں اس لیے ان میں زیادہ
فیصد کی تعداد بھی کم ہی ہوتی ہے۔ ایک فرق یہ بھی نوجوانوں میں توانائی اور
جذبۂ عمل ہوتا ہے ساتھ ہی بزرگوں میں مایوسی اور چل چلاو کا عالم ہوتا ہے
اس لیے جس کے ساتھ کم عمر دستہ ہو اس کا غلبہ سہل تر اور دیر پا ہوتا ہے۔
اس لیے اب کی بار نہ سہی تو اگلی بار ان شاء اللہ اس کے اثرات نظر آئیں
گے۔
اس انتخابی مہم کے دوران بہار میں بی جے پی کی تشہیر کے لیے جو30 ہیلی
کاپٹر محوِ پرواز تھے ان میں سے ایک کے اندر بھوجپوری فلموں کے امیتابھ بچن
منوج تیواری بھی سوارتھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہی ایک زعفرانی رہنما ایسے تھے
جنھوں نےبہار کے نوجوانوں کو دلوں دھڑکن کو سمجھتے ہوئے کہا کہ ممبئی اور
دہلی میں جاکر بہاری نوجوان اپنا نام روشن کرتا ہے مگر اس کے ساتھ انصاف
نہیں ہوتا ۔ تیواری نے وعدہ کیا کہ ان کی پارٹی بہاریوں کو انصاف دلائے گی
۔ یہ بات تو درست ہے منوج تیواری کو بی جے پی اپنی دہلی یونٹ کی صدارت سے
ہٹا چکی ہے ۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ کی کرسی کا خواب دیکھنے والے یہ احمق
رہنما ’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘ کا نعرہ لگوایا کرتا تھا ۔
تیواری ووٹنگ کے بعد دہلی کے سارے ایکزٹ پول کو مسترد کرتے ہوئے بی جے پی
کے لیے ۴۸ نشستوں پر کامیاب ہو نے کا دعویٰ کررہے تھے ۔ خیر منوج تیواری کو
ان کی شرمناک شکست کے بعد ہٹا دیا گیا ان کی جگہ آدیش کمار اگروال کو صدر
بنادیا گیا ۔ جو منوج تیواری خود کو پارٹی کے اندر ناانصافی سے نہیں بچا
سکا وہ بھلا دوسرے بہاری نوجوانوں کو کیا خاک انصاف دلائے گا؟
دہلی میں رہنے والے شمالی ہند کی آبادی کو لبھانے کے لیے بی جے پی نے منوج
تیواری کو دہلی پردیش کا صدر بنایا ۔ انہوں اپنی پارٹی کے آقاوں کو خوش
کرکے اپنا مستقبل سنوارنے کی خاطر خوب اشتعال انگیزی کی لیکن جب ناکام رہے
تو چار ماہ بعد پارٹی نے انہیں دودھ سے مکھی کی مانند نکال کر پھینک دیا
اور ایک بنیا کو صدر بناکر کیجریوال سے بھڑا دیا۔آدیش کمار چونکہ بھوجپوری
میں تقریر نہیں کرسکتے اس لیے تیواری کو اسٹار بناکر ان سے نوٹنکی کرائی
گئی۔مہم کے دوران تیواری کا ہیلی کاپٹر چار گھنٹوں تک غائب رہا اور موت کے
منہ سے لوٹنے کے بعد سوشانت سنگھ راجپوت کی یاد آگئی اور ا نہوں سشانت کو
انصاف دلانے کا راگ چھیڑ دیا ۔ منوج تیواری کی تقریر سے شئے پاکر وزیر اعظم
کی پٹنہ ریلی میں بی جے پی کچھ خواتین نے سشانت سنگھ کے لیے انصاف کے پوسٹر
اٹھا کر نعرے بازی شروع کردی ۔ اِدھر مودی جی کی تقریر چل رہی تھی اور اس
کے سامنے نعرے بازی ہورہی تھی ۔ اس ہڑبونگ کو منتظمین نے بڑی مشکل سے قابو
میں کیا اورسشانت کی آتما کے ساتھ ان کے ہمدردوں کو وہاں سے نکال باہر
کیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ بہار مہم کے دوران اول تو مودی کی کوئی خبر نہیں
بنی اور بنی بھی ہے تو وہ منفی خبر بنی اس کے باوجود مودی جی مہاراشٹر ،
ہریانہ ، جھارکھنڈ اور دہلی کے بعد بہار میں امیت شاہ کی مدد کے بغیر
کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس لیے مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
|