جب بیوی شوہر کی اطاعت گذارہو، فرمابردارہو، محبت سے پیش
آتی ہو تو شوہر بھی اسکے ساتھ محبت سے پیش آتا ہے، اسکی ضرورتوں کو پورا
کرتا ہے ،یہی زمانے سے چلا آیا ہے۔ اگر بیوی خوامخوہ شوہرکی نافرمانی کرنے
لگےاورشوہر کے حقوق اداکرنے میں کوتاہی کرتی رہے تو شوہر بھی اسکا ردعمل
منفی طور پر پیش کرتا ہے۔ دراصل آج یہ مثال ہم اس لئے پیش کررہے ہیں کہ
بہار میں پچھلے دنوں انتخابی نتائج کے بعد اسدالدین اویسی کو لیکر جس طرح
سے مسلمان اورکانگریسی مسلمان اپنی منفی رائے پیش کررہے ہیں وہ ناقابل قبول
ہے۔ سوال یہ ہے جن علاقوں میں اسدالدین اویسی نے اپنی پارٹی کے امیدواروں
کو نہیں اتار تھا وہاں شکست کے اسباب کیا ہیں کیا اویسی کا بھوت جاکر آرجے
ڈی اورکانگریس کے امیدواروں کو ہرانے کا کام کررہا تھا؟ ، اگرجمہوریت کی
بقاء کے تعلق سے سوچنا ہی ہے ، جمہوریت کو بچانا ہی ہے تو تھالی ایک ہاتھ
سے نہیں بجتی ، ویسے بھی کانگریس پارٹی آہستہ ، آہستہ اپنا رسوخ کھورہی
ہے۔ ایم آئی ایم وایس ڈی پی آئی جیسی پارٹیوں میں وہی لوگ ہیں جو کانگریس
کی بیوفائیوں سے تنگ آکر تیسری راہ اختیار کی ہے۔ مشہور سائنسدان نیوٹنس
کاقانون ہے کہ کسی بھی عمل کا ردعمل اسکے برابر یا اسکے برعکس ہوتا ہے۔
بالکل اسی طرح سے آزادی کے بعد سے جسطرح ہندوستانی مسلمانوں کوووٹ بینک
بنارکھا انکے حقوق کو سلب کرنے کا کام کیا ۔ اسی وجہ سے کانگریس کو چھوڑ کر
ہندوستانی مسلمان دوسری سیاسی جماعتوں سے جڑنے لگے ہیں۔ اب رہی بات ایم
آئی ایم کو جو لوگ بی جے پی کی Bٹیم سمجھ رہے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہئے
کہ یہ بی جے پی کی بی ٹیم نہیں کانگریس کی بی ٹیم ہے۔ جس میں کانگریس بی جے
پی کے سافٹ (نرم) ہندوتوا پالیسی کو اپنارہی ہے۔ وہیں ایم آئی ایم کانگریس
کی سافٹ سیکولرزم کو مذہب یا قومیت کے ساتھ ساتھ اپنا رہے ہیں۔آخر وہ
کونسی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو علیحدہ سیاسی جماعتیں قائم کرنے یا مسلم
سیاستدانوں کا ساتھ دینے سے روکا جارہا ہے۔ یہاں دیکھا جائےتو پل پل
ہندوستانی مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روندھا جارہا ہے۔ ایسے مسلمان
اپنے بل بوتے پر اپنے وجود کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہے ہیںتو اس میں بری
بات کیا ہے؟۔ مان لیتے ہیں تو اسدالدین اویسی کی وجہ سے یوپی کے سیمانچل کے
علاقوں میں آرجے ڈی اورکانگریسیوں کو بہت نقصان پہنچا ،لیکن باقی 200 سے
زائد علاقوں میں آرجے ڈی اورکانگریس کو جو نقصان پہنچا ہے اسکے ذمہ دار
کون ہیں؟ یوں بھی ایم آئی ایم کی 19 میں سے 5 مزید ایسے امیدوار شکست
کھائے ہیں جنہوں نے دوسرے نمبر پر شکست حاصل کی ہے۔ جبکہ انکے مقابلے میں 6
سے 10 مسلم امیدوار کھڑے ہوئےتھے جن کی وجہ سے ایم آئی ایم کے امیدواروں
کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔ تو کیا یہ لوگ پیٹ کو کھانا نہیں کھاتے جو ایم
آئی ایم کے ایک مسلم امیدوار کو ہرانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔ بعض
علاقوں میں جہاں ایم آئی ایم کا امیدوار نہیں بھی تھا وہاں پر ایک عاد
درجن تو مسلمان ایک ہندو کے مقابلے میں امیدوار بن کھڑے ہوئے تھے جس سے کم
از کم 20 مقامات پر شکست کا تھپڑ ملا۔ اسکے علاوہ مسلکی بنیادوں پر بھی
مسلمانوں نے امیدوار اتارنےکی اطلاعات ہیں۔ اندازہ لگائے کہ صرف اویسی ہی
بی ٹیم نہیں ہیں بلکہ سارے سے سارے امیدوار انا نیت اورمفاد پرستی کے
دعویدار ہیں۔ اگر مسلمانوں نے گلی گلی سے امیدوار اسمبلی کیلئے ٹہرانے کے
بجائے ہوش سے کام لیا ہوتاتو یقیناً کچھ اور تبدیلیاں آتیں۔ وہیں قوم کی
کچھ ایسی پارٹیاں بھی رہیں جنہوں نے 700 سے 3ہزار تک کے ووٹ کا
ریکارڈبنایا۔ حالانکہ یہ اسمبلی انتخابات تھے لیکن کچھ لوگ اسے گرام پنچایت
کے الیکشن سمجھ کر اپنے امیدوار اتارے تھے۔ سکیولرزم کو بچانے کا ٹھیکا صرف
مسلمانوں نے نہیں لے رکھا ہے۔ اسکی ذمہ داری تو تمام لوگوں کی بنتی ہے۔
|