آذربائیجان ۔ صلیبی جنگ میں فتح یاب

آخر کار آذربائیجان نے اپنے قارا باغ پہاڑی علاقہ کو فتح کرہی لیا۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیےف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کے ملک نے روس کی وساطت سے آرمینیا کے ساتھ قارا باغ میں جنگ بندی کے جس معاہدے پر دستخط کئے ہیں وہ ہتھیار ڈالنے کی دستاویز ہے جس نے آرمینیائی حکومت کو تقریباً دیڑھ ماہ سے زائد معرکہ آرائی کے بعد دستخط کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ الہام علیےف نے مزید کہاکہ’ میں نے کہا تھاکہ ہم انہیں نکال باہر کرینگے اور ہم نے ایسا کردکھایا‘۔ادھر آرمینیا کے دارالحکومت یرے وان میں آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشنیان نے اعلان کیاکہ انہوں نے جنگ کے خاتمہ کے لئے روس اور آذربائیجان کی قیادت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں ۔انہوں نے اپنے اس فیصلہ پر کہاکہ یہ فیصلہ دشوار گزار ہے اور یہ عسکری صورتحال کے گہرے تجزیہ اور ان افراد کی جانب سے جائزے کے بعد کیا گیا ہے جو موجودہ صورتحال کو بہتر طور پر جانتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ آرمینیا کی حکومت نے اپنی فوجی طاقت کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے روس کے جنگ بندی منصوبہ کو تسلیم کرلیا ورنہ مزید جنگ کی وجہ سے آرمینیا کو کافی نقصان اٹھانا پڑتا ۔ آرمینیا کی عوام نے اس فیصلہ پر شدید غم و غصہ کا اظہارکیا اور مشتعل مظاہرین نے حکومتی صدر دفتر پردھاوا بول دیا اور دیگر حکومتی دفاتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور متعدد کھڑکیوں کے شیشے بھی توڑڈالے۔اس طرح آرمینیائی عوام نے حکومت اور فوج کی نااہلی اور جنگ میں ناکامی پر اپنے غصے کا اظہار کیا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتین کے مطابق آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لئے معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں ممالک کی افواج اپنے موجودہ ٹھکانوں پر ٹھہر گئی ہے ۔ آذربائیجان کی کامیابی اور پھر دونوں ممالک کے درمیان طے پائے معاہدے کے بعد صدر ترکی رجب اردغان نے آذربائیجان کے صدر الہام علیےف کو ٹیلی فون پر مبارکباد پیش کی۔ آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ کے دوران ترکی نے جس طرح آذربائیجان کا ساتھ دیتے ہوئے تعاون کیا اس پر آذربائیجان کے صدر الہام علیےف نے ترک صدر اردغان کا شکریہ ادا کیا ۔ دونوں سربراہان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دوست اور برادر ملک ترکی اور آذربائیجان کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔ سمجھا جارہا ہے کہ جنگ بندی کی مانیٹرنگ کیلئے متوقع ترک ۔روس فورس علاقے میں پائیدار امن کے قیام میں اہم کردار ادا کرے گی۔

آذربائیجان کے مقبوضہ علاقے پہاڑی قارا باغ کے مرکزی حیثیت کے حامل علاقے شُوشا کی 28سال بعد آرمینیائی قبضے سے رہائی پر ترکی کی جانب سے بھی بھرپور مسرت کا اظہار کیاجارہا ہے۔ ترکی قومی اسمبلی کے اسپیکر مصطفی شن توپ نے شُوشا کی فتح پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’شوشا آذربائیجان کو ہے۔ اﷲ مبارک کرے‘‘۔ انہوں نے اپنے بیان میں صدر آزربائیجان الہام علیےف کے اس بیان پر یادہانی کروائی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 28سال بعد شُوشا میں اذان کی آواز گونجے گی۔ ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے بھی شوشا کی فتح پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’’آذربائیجان کے ثقافتی مرکز اور تاریخی شہر شوشا کی فتح مبارک ہو‘‘۔انہوں نے کہا کہ آذربائیجان کا عظیم پرچم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شوشا میں لہراتا رہے گا۔ترک وزیر مواصلات فخر الدین آلتن نے آذربائیجان کے نائب صدر حکمت حاجیےف کے بیان ’’شکریہ برادر ملک ترکی‘‘ کے حوالے سے جاری کردہ اپنے بیان میں کہاکہ ’’ہمارے پرچم آسمانوں پر تاابد لہراتے رہیں گے۔ اﷲ ہمارے اخوت و بھائی چارے کو دائم کرے‘‘۔اس طرح ترکی کے رہنماؤں نے آذربائیجان کی آرمینیاسے کامیابی پرجس طرح خوشی کا اظہار کیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ آذربائیجان کی کامیابی ترکی کی کامیابی ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ میں سینکڑوں عام افراد جاں بحق اور ہلاک ہوئے۔ آرمینیا نے جس طرح آذربائیجان کے علاقوں پر قبضہ کررکھا تھا اسے آزاد کرانے کیلئے آذربائیجان نے جو جدوجہد کی اور اپنی فوجی طاقت کے ذریعہ اسے حاصل کرلیا یہ دشمنانِ اسلام کے لئے سیاہ باب ہے کیونکہ ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی تائید و حمایت پر کئی عالمی ممالک خصوصی طور پر یوروپی ممالک نے ترکی کے خلاف بیانات جاری کئے تھے اور ترکی کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکی دے رہے تھے لیکن ترک صدر رجب طیب اردغان نے دشمنانِ اسلام کے سامنے جس طرح ایک مردِ مجاہد کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہے اسی کا نتیجہ ہیکہ روس جیسے سوپر پاور ملک نے بھی ترکی کے سامنے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کو اہمیت دی تاکہ آرمینیا کو آذربائیجان کے حملوں اورمزید جنگی نقصانات سے روکا جاسکے۔ ترک صدر اردغان نے اس بات کی تائید کی کہ بالائی قارا باغ کے حوالے سے پائیدار امن کے سلسلے میں اٹھایا جانے والا قدم صحیح سمت کی جانب ہے، ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی اور روس مل کر اپنی کوششوں سے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے میں امن و استحکام کے قیام کو ممکن بنانے میں مددگار ہوسکتے ہیں، روس جنگ بندی کے حامل علاقے کی نگرانی پر مامور ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آرمینیا اس جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے گا۔ ترک صدر نے جنگ بندی کے بعد کہاکہ قاراباغ میں اپنا گھر بار ترک کرنے والے آذری خاندانوں کی دوبارہ آباری کیلئے ایک راہداری کاقیام اہم ہوگا۔ رجب طیب اردغان نے اپنے ہم منصب روسی صدر ولادیمیر پوتین سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور بالائی قاراباغ اور دیگر علاقائی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ اب دیکھنا ہیکہ آرمینیا میں حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کیا شکل اختیار کرتا ہے ۰۰۰

ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران نے بھی آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو قارا باغ کی سرحد پر اپنی فوج تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر میزائل بیٹریاں نصب کردی ہیں۔ ایران کی جانب سے یہ اقدام روس اور ترکی و دیگر ممالک کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کے دوران کیا گیا ہے ۔ایرانی عہدیدار کا کہنا ہیکہ تہران نے آذر اور آرمینی فریقوں کو متنبہ کیا ہے کہ بغیر اطلاع کے ان کا کوئی بھی جنگی طیارہ یا ڈرون ایران کی حدود میں داخل ہوتا ہے کہ تو ایران اس کا سخت جواب دے گا۔اس طرح ایرانی مسلح افواج مکمل چوکسی اختیار کئے ہوئے ہے اور قارا باغ کی چوبیس گھنٹے نگرانی کررہی ہے۔اب دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے بعد ہوسکتا ہیکہ ایران اپنے فیصلہ میں ردِوبدل کرے۔

ایران۔ امریکہ کے درمیان تعلقات اور نئے امریکی صدر
نئے امریکی صدر کی حیثیت سے جوبائیڈن کے منتخب ہونے کے بعد دیکھنا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری پیدا ہوتی ہے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں ایران کیلئے امریکی ایلچی ایلیٹ ابرامس کا کہنا ہیکہ ٹرمپ انتظامیہ ایران پر جوہری معاہدے کے حوالے سے دباؤ مہم برقرار رکھے ہوئے تھی اور انہیں توقع ہے کہ مستقبل کے صدر جوبائیڈن کیلئے امریکہ کو 2015کے جوہری معاہدے میں واپس لانا مشکل ہوگا۔ انہوں نے یہ بات اسرائیل کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کی۔ ایلیٹ ابرامس کا کہنا ہیکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ 20؍ جنوری کو امریکہ کا صدر کون ہوگا اس معنی میں کہ ایران کے ساتھ بہرحال بات چیت ہورہی ہے۔انہوں نے یہ بات پیر 9؍ نومبر کو کی تھی۔ امریکہ کے نومنتخب صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کو عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے پر واپس لانے کی امید کرتے ہیں جس میں ایران نے بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018میں امریکہ کو ایران جوہری معاہدے سے دستبردار کرکے ایران پر معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں ۔ ایلیٹ ابرامس کا کہنا ہیکہ انسانی حقوق سے متعلق امور اور علاقائی عسکریت پسند گروہوں کیلئے ایران کی حمایت سے متعلق تمام امریکی پابندیاں 20؍ جنوری 2021تک عائد رہینگی۔ اب دیکھنا ہیکہ جوبائیڈن اپنے صدارتی عہدہ کا جائزہ لینے کے بعد ایران کے تعلق سے کس قسم کی پالیسی کا اعلان کرتے ہیں۔

افغانستان میں خاتون پولیس افسر بینائی سے محروم
افغانستان میں طالبان اور داعش کا ڈر و خوف عوام کے دلوں سے نکلنا مشکل اور ناممکن ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ اگر کوئی مرد و خاتون ہمت کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں نام نہاد اسلامی تنظیمیں یا افراد ظلم و بربریت کا شکار بنادیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ دنوں ایک 33سالہ افغان خاتون کے ساتھ ہوا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق تین حملہ آوروں نے صوبہ غزنی میں خاطرہ نامی خاتون پر فائرنگ کی اور پھر چھری سے ان کی آنکھوں کو نقصان پہنچایا۔ خاطرہ جو تین ماہ قبل غزنی پولیس کی کرائم برانچ میں بطور افسر کام شروع کیا تھا انہیں اس پولیس میں نوکری کرنا مہنگا ثابت ہوا۔ خاطرہ کے مطابق جب وہ پولیس اسٹیشن سے نکلی تو دیکھا کہ تین آدمی موٹر سائیکل پر سوا تھے جنہوں نے ان پر حملہ کردیا۔خاطرہ اس حملہ میں اپنی دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئیں۔ اور انکا وہ خواب بھی چکنا چور ہوگیا جس کے حصول کے لئے انہوں نے جدوجہد کی تھی۔انکا کہنا ہیکہ ’’کاش میں ایک سال تک پولیس میں کام کرتی۔ اگر یہ اس کے بعد بھی ہوتا تو یہ میرے لئے کم تکلیف دہ ہوتا۔ یہ واقعہ بہت جلد ہوگیا۔ میں نے صرف تین ماہ ہی کام کیا‘‘۔ خاطرہ کے مطابق یہ حملہ انکے والد کی جانب سے بھی کرایا جاسکتا ہے کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو باہر کام کرنے منع کرچکے تھے۔ جبکہ خاطرہ نے اپنے شوہر کو منوالیا تھا۔ اب اپنے خاندان اور پانچ بچوں سمیت کابل میں ہیں جہاں انکا علاج جاری ہے۔ خاطرہ کے والد کو حراست میں لے لیا گیا ہے البتہ غزنی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہیکہ ان کو یقین ہے کہ طالبان اس حملہ میں ملوث ہیں جبکہ طالبان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں نے ان کے والد کی اطلاع پر کارروائی کی ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ افغان حکومت اس مظلوم خاتون پولیس افسر پر کئے جانے والے ظالموں تک پہنچ پاتی ہے یا نہیں۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.