ارنب گوسوامی کو بالآخر سپریم کورٹ سے ضمانت مل ہی گئی
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ، لیکن اس سے قبل میڈیا کی غیر ذمہ داری
کے حوالے سے بامبے ہائی کورٹ نے جس طرح کا سخت رویہ اختیار کیا اس کا اعادہ
دہلی ہائی کورٹ میں بھی نظر آیا ۔ وہاں پر ریپبلک ٹی وی اور ٹائمز ناؤ کے
خلاف فلمی ہستیوں کی بابت رپورٹنگ پر لگام کسنے کے لیے داخل کردہ بالی ووڈ
ایسو سی ایشنز کی چار اور 34 فلمسازوں کے ذریعہ عرضی پرسماعت ہورہی تھی ۔
بالی ووڈ ایسو سی ایشنز نے دونوں چینلوں کے ذریعہ کی گئی رپورٹنگ اور
تبصروں کو غیر ذمہ دارانہ اور بے عزتی پر مبنی قرار دے کر عدالت سے رجوع
کیا ہے۔نیوز چینلوں پر خبروں کو سنسنی خیز انداز میں پیش کیے جانے پر دہلی
ہائی کورٹ نے خبر رسانی کے پیمانوں میں اصلاح کا حکم دیا ہے۔ جسٹس راجیو
شکدھر نے اس تعلق سے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ’’عوام کے اندر پریس کے بارے
میں ڈر پھیل گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر بڑی ہستیوں کے نجی معاملات میں کمزوری
تب بھی آپ (نیوز چینل) ان کی ذاتی زندگی کو عوام میں نہیں لا سکتے۔‘‘
عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’مجھے لگتا ہے بلیک اینڈ وہائٹ دوردرشن کا
دور بہت بہتر تھا۔‘‘ اس تبصرے نے فلم ’دور گگن کی چھاوں میں‘ کے مشہور نغمہ
کی یاد دلا دی ؎
کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن
بیتے ہوئے دن وہ میرے پیارے پل چھِن
دوردرشن کے تفریحی ، معلوماتی اور حالات حاضرہ کے مشترک پروگرام سے لے کر
کئی زبانوں میں پورے 24 گھنٹے تک خبریں نشر کرنے والے بے شمار چینلس
تکہندوستانی ٹیلی ویژن نے اپنی مختصر سی زندگی میں بڑے تجربات کیے ۔ ٹیلی
ویژن کی ڈھیلی ڈھالی خبروں میں پہلا موڑ اس وقت آیا جب تہلکہ نامی پورٹل
نے تفتیشی صحافت کا دروازہ کھولا۔ اس نے پوشیدہ کیمرے سے اسٹنگ آپریشن کیے
۔ گمان یہ ہے کہ لال کرشن اڈوانی نے پارٹی میں اپنے بڑے مخالف اور حکومت
میں اپنے اہم ترین حریف کو ٹھکانے لگانے کے لیے اس کا استعمال کیا۔ تہلکہ
کی مہربانی سے بی جے پی کے پہلے اور آخری دلت صدر بنگارو لکشمن کو جیل
جانا پڑا ۔ بظاہر بنگارو لکشمن کا قصور جعلی اسلحہ کے دلال سے نئے سال کا
تحفہ قبول کرنا تھا مگر اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ انہیں اٹل بہاری واجپائی
کے ایماء پر پارٹی کی صدارت سونپی گئی تھی اور پارٹی کے اندر وہ اڈوانی جی
کے لیے بہت بڑا چیلنج بن سکتے تھے اس لیے ان کا کانٹا نکالنا ضروری ہوگیا
تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب جارج فرنانڈیس نہ صرف حکومت میں وزیر دفاع تھے بلکہ
متحدہ قومی محاذ کی باگ ڈور بھی انہیں کے ہاتھوں میں تھی۔ اس لحاظ سے وہ
این ڈی اے میں وزیر داخلہ اڈوانی سے زیادہ طاقتور پوزیشن میں تھے اور حامی
جماعتیں انہیں کو اٹل جی کا جا نشین سمجھتی تھیں۔ پارٹی کے اندر دلت کارڈ
کھیلنے کے بعد این ڈی اے کی سربراہی ایک سابق سوشلسٹ اور عیسائی رہنما کے
حوالے کرکے اٹل جی نے مخالفین کو بھی اپنی وسعت قلبی کا قائل کرلیا ۔ یہ سب
اڈوانی جی کے سیاسی مستقبل کی خاطر زبردست خطرہ تھا۔ جارج فرنانڈیس کے خلاف
تہلکہ کی ویڈیو کے بعد تو انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ ان کی بحالی سے قبل
اڈوانی نے خود نائب وزیر اعظم بنوا کر اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ۔ فی الحال
جارج کی دست راست جیا جیٹلی کو بھی سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔ اس کے بعد
مبینہ طور پرراجدیپ سردیسائی نے ووٹ فار نوٹ کے معاملے میں ڈبل کراس
کرکےاڈوانی کو چت کردیا ۔
ہندوستان کے نجی چینلس پر معاشی دباو ہمیشہ سے رہا ہے اس لیے زی ٹیلی ویژن
والوں نے بلیک میلنگ کا دھندا شروع کیا۔ زی نیوز کے سربراہ سدھیر چودھری
اور زی کے بزنس منیجرسمیر اہلوواليا کو کانگریس رکن پارلیمان اور صنعت کار
نوین جندل سے رشوت لینے کے الزام میں گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ان دونوں پر
جندل کے گروپ سے سو کروڑ روپے لے کر کوئلہ گھپلے کے بارے میں رپورٹ نہکرنے
کی پیشکش کرنے کا الزام تھا۔ اس گفتگو کو فلمبند کر لیاگیا تھا۔ نوین جندل
نے زی کے اہلکاروں پرکے چار برسوں سے بیس کروڑ روپے مانگنے کے سبب یہ خفیہ
عکس بندی کی تھی۔ اس معاملہ میں الٹا چور کوتوال کی مصداق زی ٹی وی نے جندل
گروپ کے خلاف سو کروڑ روپے کی ہتک عزت کا دعویٰ کردیا تھا جبکہ جندل نے زی
کے خلاف دو سو کروڑ روپے کا دعویٰ پہلے ہی کر رکھا تھا ۔2012تک ہندوستانی
میڈیا اس سطح پر پہنچ گیا تھا جس فائدہ نریندر مودی نے 2013 سے شروع ہونے
والی انتخابی مہم کے دوران بڑھ چڑھ کراٹھایا ۔ انہوں نے اپنے دوست مکیش
امبانی کو آئی بی این خریدنے کا مشورہ دے کر اپنے سب سے بڑے مخالف کا گلا
گھونٹ دیا۔
نریندر مودی جب تک گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہیں میڈیا کے غیر موثر
استعمال کا بڑا افسوس تھا ۔ اس کا اعتراف انہوں نے ٹائم جریدے کو انٹرویو
دیتے ہوئے کیا تھا ۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہیں گجرات فساد پر افسوس
ہے تو وہ بولے جی نہیں یعنی نہ تو ان کو رام بھکتوں کے ٹرین میں جل مرنے کا
دکھ ہے اور نہ اس کے بعد ہزاروں کی موت، لاکھوں کے بے گھر ہونے اور کروڈوں
کے نقصان پر افسوس ہے ۔ لیکن اگر افسوس ہے تو دورانِ فساد میڈیا کا ٹھیک سے
استعمال نہیں کرسکنے کا۔ یعنی جھوٹ کوسچ اور سچ کوجھوٹ بنا کر پیش کرنے میں
ناکامی کا ۔ وزیر اعظم بن جانے کے بعد انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے پر
خصوصی توجہ کی اور ایک ایک کرکے سارے چینلس کو ڈرانا، دھمکانا اورخریدنا
شروع کردیا ۔ ویسے زی اور اور ریپبلک کے لیے انہیں کچھ کرنا ہی نہیں پڑا ۔
وہ تو سڑے ہوئے پھل کی مانند ازخود ان کی گود میں آکر گرگئے۔
مودی یگ میں ذرائع ابلاغ کا غلط استعمال ویسے تو خوب ہوا مگر اس کا سب سے
بڑا انکشاف ۲۰۱۹ کی انتخابی مہم کے دوران کوبرا پوسٹ نے کیا ۔ کوبرا پوسٹ
کے یو ٹیوب چینل پر اسٹنگ آپریشن136 سے متعلق کل 50 ویڈیوزموجود ہیں، جن
میں میڈیا کی معروف شخصیات کے ساتھ سودے بازی ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس اسٹنگ
میں پیسے کے بدلے اپنے چینل یا اخبار کے ذریعہ ہندوتوا کا ایجنڈا فروغ دینے
یعنی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے پر رضامندی ظاہر کی گئی تھی۔ اس میں دینک
جاگرن، امر اجالا، ڈی این اے، پنجاب کیسری ،اسکوپ وہوپ، انڈیا ٹی وی، ریڈف،
یو این آئی ،ٹائمس آف انڈیا ، انڈیا ٹو ڈے، ہندوستان ٹائمس، زی نیوز،نیٹ
ورک 18، اسٹار انڈیا،اے بی پی نیوز، ریڈیو ون، ریڈ ایف ایم، لوک مت، اے بی
این آندھرا جیوتی، ٹی وی 5، دن ملار، بگ ایف ایم، کے نیوز، انڈیا وائس، دی
نیو انڈین ایکسپریس، ایم وی ٹی وی اور اوپین میگزین جیسے نامور اداروں کا
نام شامل تھا۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ سشانت کو خودکشی پر آمادہ کرنے والوں کو سزا دلانے کے
لیے بے چین رہنے والا اب خود وہی سزا بھگتنے پر مجبورہے۔ ایک زمانے میں بی
جے پی سشانت سنگھ راجپوت کے لیے پریشان تھی اب ارنب کے لیے بے چین ہے اور
اس کے تمام مرکزی رہنماوں کو اچانک پریس کی آزادی کا غم ستانے لگا ہے۔
دنیا بھر میں پریس کی آزادی کے حوالے سے جب180 ممالک کا جائزہ لیا گیا تو
ہندوستان کو 142 ویں مقام پر کھڑا پایا گیا اور یہ اعزاز اسی مودی سرکار
میں حاصل ہوا ہے پچھلے سال بھی وہ دو مقام نیچے اترا ہے۔ مودی حکومت کے
ذریعہ ستائے جانے والے صحافیوں فہرست ویسے تو بہت طویل ہے مگرپھر بھی کچھ
معروف نام کے سی وانگ کھیم، اوم شرما، ایم اے گنائی، اشون سینی ، وشال
آنند ، نیہا دکشت، سدھارتھ وردا راجن، پرشانت کنوجیا، پون چودھری، اے ایس
آر پنڈین، ، منیش پانڈے ، سبھاش رائے ، وجئے ونیت اور زبیر احمد ہیں۔ ونود
دوا کے خلاف بغاوت کا مقدمہ اور گوری لنکیش کا قتل اسی مودی راج میں ہوا ہے
۔ اس لیے ارنب کے لیے چیخ پکار کرنے سے قبل بی جے پی اپنے گریبان میں جھانک
کر دیکھ لینا چاہیے۔
مدھیہ پردیش میں ویاپم گھوٹالے کی تحقیق کرنے کی کوشش میں اپنی جان گنوانے
والوں میں صحافی اکشے سنگھ ۲۸ ویں گواہ تھے ۔ مارچ ۲۰۱۸ میں مدھیہ پردیش کے
ضلع بھنڈ میں ریت مافیا کو بے نقاب کرنے والے مقامی صحافی سندیپ شرما کو
ٹرک سے کچلکر ماردیا گیا ۔ ا ن کی ایمبولینس کو اسپتال لے جانے کے بجائے
سیدھے پوسٹ مارٹم ہاؤس لے جایا گیا ۔ ان کو کئی دنوں سے جان سے مارنے کی
دھمکی دی گئی تو انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور مدھیہ پردیش کے
وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو خط لکھکر اپنے تحفظ کی مانگ کی اس کے
باوجود قتل ہو گیا ۔ وزیراعلیٰ نے بعد میں سی بی آئی تفتیش کی سفارش تو کی
مگر حقوق انسانی کے قومی کمیشن نے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا کیونکہ
کسی صحافی کو مطا لبےکے بعدبھی تحفظ نہ دینا ریاستی حکومت کی لاپروائی تھی
۔ ان واقعات کو سامنے رکھیں تو ارنب کے ساتھ ہونے والا سلوک خاصہ مہذب لگتا
ہے۔اس موقع پر مہاراشٹر کے عوام کو بی جے پی کے رویہ پر حیرت ہے کیونکہ اس
کو سشانت کی خودکشی سے تو ہمدردی ہے مگر انوئے نایک سے نہیں ہے؟ اس تفریق و
امتیاز کی بھاری قیمت اسے انتخاب کے وقت چکانی پڑے گی۔ ارنب کو جیل بھیجنے
پر ماتم کرنے والوں کے جیل جانے پر کوئی ماتم نہیں کرے گا بلکہ سب خوشی
منائیں گے۔
دہلی کی عدالت کے فیصلے کی طرف لوٹیں تو اس نے بڑے واضح انداز میں خبر
رسانی کے موجودہ طریقے کو بدلنے کے نظام کے بارے میں نیوز چینلوں کو حکمت
عملی وضع کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے سوال کیا ہے کہ ’’ ہنرمند اور تعلیم
یافتہ دماغ بھی اس طرح کی غلط رپورٹنگ سے متاثر ہوتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں
کہ ہمیں اس کا حل کیسے نکالنا چاہیے؟‘‘بنچ نے یہ بھی کہا کہ وہ نیوز چینلوں
پر خبروں کو دکھانے سے نہیں روک ر ہے، لیکن صرف انھیں ذمہ دار صحافت کو
آگے بڑھانے کی تلقین کررہے ہیں ۔ دراصل پانی اب سر سے اونچا ہوچکا ہے اس
لیے عوام کو اس غنڈہ گردی کے خلاف عدالت سے رجوع کر نے پر مجبور ہونا پڑا
اور اسے چینلوالوں کوتنبیہ کرتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ اگر وہ پروگرام کوڈ پر
عمل نہیں کرتے ہیں تو عدالت کو اس میں دخل اندازی کرکے اسے ’نافذ‘ کروانا
ہوگا۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس ادارے کا کام عوام کے حقوق کی حفاظت
کرنا وہ اسے اپنے مفادات کی خاطر پامال کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر
عدالت کا کوڑا برس رہا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی عوامی ادارہ اپنے مقصد
کے خلاف کام کرنے لگے تو اس کو اس طرح کی رسوائی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ
ایک عظیم قومی بدبختی ہے ملک کا میڈیا فی الحال واچ ڈاگ (چوکیدار کتے) سے
لیپ ڈاگ (تلوے چاٹ کتے) میں تبدیل ہوچکا ہے ۔
|