مفتی جمیل احمد نعیمی۔ قابل احترام شخصیت
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
مفتی جمیل احمد نعیمی کی شخصیت کے حوالے سے کوئی دو ماہ قبل میں نے ایک تحریر مفتی محبوب الرسول قادری کو سہ ماہی جریدے ”انورِ رضا“ کے لیے ارسال کیا تھا۔یہ تحریر انورِ رضا کے مفتی جمیل احمد نعیمی نمبر میں شال ہے۔ یہ خاص شمارہ اکتوبرجلد 14، شمارہ2جوہر آباد، لاہور سے شائع ہوا۔ اب مفتی جمیل احمد نعیمی کے سانحہ ارتحال کی خبر آگئی۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند ہوں انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو، آمین۔ ذیل میں وہ تحریر دی جارہی ہے جو انورِ رضا کے مفتی جمیل احمد نعیمی نمبر میں شامل ہے
|
|
|
مفتی جمیل احمد نعیمی۔ قابل احترام شخصیت ٭ پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی یہ بات باعثِ مسرت ہے کہ سہہ ماہی جریدہ ”اَنوارِرِضا“نے شیخ الحدیث مفتی جمیل احمد نعیمی کی شخصیت، علمی، تدریسی،تصنیفی اور دینی خدمات پر مبنی خاص نمبر جاری کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ ایک خوش آئید اقدام ہے۔مفتی جمیل احمد نعیمی کی شخصیت اور ان کی خدمات اس بات کی متقاضی ہیں کہ ان پر مضامین، تصانیف اور دینی موضوعات پر شائع ہونے والے رسائل خاص نمبر شائع کریں۔ یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے ہر کام کا وقت مقرر ہے۔ جریدہ کا یہ خصوصی شمارہ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔بلا مبالغہ یہ ایک عظیم خدمت ہے جو جریدے کے مدیر اعلیٰ جناب ملک محبوب رسول قادری صاحب کی سربراہی میں عظیم شخصیت کو ان کی بے مثال خدمات اور جدوجہد کو خراج تحسین ہوگا۔ مجھے مدیر اعلیٰ کی جانب سے تعارفی خط جس میں مفتی جمیل احمد نعیمی کی شخصیت یا ان سے تعلق کی بنیاد پر کچھ لکھنے درخواست ہے، ادیبوں کے دوست اورمیرے مہرباں جناب شہزاد سلطانی نے پہنچایا اور تاکید کی کہ میں بس ایک دن میں مفتی جمیل احمد نعیمی قبلہ پر شائع کیے جانے والے خاص نمبر کے لیے کچھ لکھوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے جب وہ تعارفی خط پڑھا تو میں ماضی کی یادوں میں کھوگیا، ایک تسلسل کے ساتھ وہ واقعات اور حالات نظروں کے سامنے آگئے۔ میں اگر یہ کہوں کہ میں قبلہ مفتی جمیل احمد نعیمی کے ہمعصروں میں سے ہوں، ہم نے ملک کی وہ سیاست جو پاکستان میں 1977 ء کے انتخابات کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی، ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے خلاف شروع ہونے والی تحریکِ نظام مصطفی اور نو ستاروں کا وجود میں آجانا، علامہ شاہ احمد نوری صاحب کی قیادت میں ملک میں نظام مصطفی کے نفاذ کے لیے جدوجہد،یہ سب کچھ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا اور اس میں شریک بھی رہے۔مفتی جمیل احمد نعیمی کا ہم خیال طلباء کے ساتھ مل کر انجمن طلباء اسلام کی بنیاد رکھنا،یہ وہ زمانہ تھاجب ہم جامعہ کراچی کے طالب علم تھے۔ مفتی جمیل احمد نعیمی مذہبی زیادہ تھے، پھر وہ علامہ شاہ احمد نورانی کی اس ٹیم کے ہراول دستے کا اہم حصہ تھے جس نے تحریک نظام مصطفی میں اہم کردار ادا کیا۔ ہم جامعہ کراچی سے ماسٹر کر کے کالج میں استاد ہوگئے اور سرکاری ملازمت میں آگئے اس لیے عملی سیاست سے دور دور رہے لیکن ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ پچھلی صفوں میں ضرور ہوا کرتے تھے۔ میرے لکھنے کی عمر نصف صدی پر محیط ہے۔ چالیس کے قریب تصانیف و تالیفات اور ہزار سے زیادہ مضامین، جن میں سے 650 مضامین و کالم اردو کی معروف ویب سائٹ ’ہماری ویب‘ پر آن لائن موجود ہیں۔لکھنے کا آغاز تو 70 ء کی دہائی میں ہوچکا تھا لیکن پہلا مضمون بلکہ تسلسل کے ساتھ چار مضامین 1978 ء میں ”ترجمان ِ اہلسنت“ میں شائع ہوئے۔ جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ ۱۔عہد اسلامی کے کتب خانو ں کی تاریخ۔ماہنامہ تر جمانِ اہلسنت، کراچی۔جلد ۸ شمارہ (۱):صفحہ نمبر ۰۷۔۵۷،جنوری ۸۷۹۱ء ۲۔لائبریری دارلعلوم امجدیہ، کراچی۔ ماہنامہ ترجمانِ اہلسنت، کراچی۔ جلد ۱۱، شمارہ(۷):صفحہ نمبر ۰۷۔ ۵۷، مئی ۸۷۹۱ء ۳۔نعت رسول مقبول ﷺ۔ماہنامہ ترجمانِ اہلسنت، کراچی۔جلد ۹، شمارہ(۱):صفحہ نمبر ۰۷۔،جولائی ۸۷۹۱ء ۴۔”حضرت علی ابن ابی طالب“ رضی اللہ عنہ۔ماہنامہ ترجمان ِ اہلسنت۔ کراچی۔جلد۸، شمارہ(۲)، صفحہ نمبر ۱۳۔۴۳، اگست ۸۷۹۱ء یہ وہ زمانہ تھا جب اس جریدے کے مدیران اور منتظمین میں الحاج شمیم الدین، مولانا غلام دستگیر افغانی صاحب ہوا کرتے تھے۔ انہی دنوں دار العلوم امجدیہ بھی جانا ہواجس کے نتیجے میں اس وقت دارالعلوم کی لائبریری پر مضمون تحریر کیا۔ میرا قیام دستگیر سوسائیٹی میں دارالعلوم نعیمیہ کے قریب ہی تھا۔ مفتی جمیل احمد نعیمی صاحب کی محفل میں بیٹھنے، سننے کا شرف حاصل ہوا، البتہ قربت کے تعلقات نہ تھے، عزت واحترام کا رشتہ قائم رہا۔ وقت کے ساتھ مصروفیات بڑھتی گئیں، لکھنے کے موضوعات بھی وقت کے ساتھ بدلتے گئے، ادبی موضوعات کے ساتھ کالم نویسی کی جانب رجحان ہوگیا۔ کالموں کا مجموعہ ”رشحات قلم“ کے نام سے شائع ہوچکا، دوسرا مجموعہ ”کالم نگری“ جلد شائع ہونے والا ہے۔ شخصیات میرا محبوب ترین موضوع رہی ہیں۔ سو سے زیادہ شخصیات پر مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ سوانحی مضامین، شخصی خاکوں کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ آخر میں منددجہ بالا سطور کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ رسالے کے مدیر اعلیٰ کی سعی مشکور فرمائے اور انہیں ایک دینی و علمی کام سرانجام دینے پر جزائے خیر دے اوروہ اس سلسلے کو جاری و ساری رکھیں۔ رسالہ اَنورِرِضا کا یہ خصوصی شمارہ مفتی جمیل احمد نعیمی کی شخصیت اور علمی، تدریسی، تصنیفی و تالیفی اور دینی خدمات کے شایان شان ہو۔(19November 2020
|