بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی و نسلّم علی رسولہ الکریم
وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ (المائدۃ:54/5)
اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے ۔
آیت مبارکہ کے اس جزء میں اہل ایمان کی ایک عظیم صفت کا بیان ہے کہ اللہ
تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی
پرواہ نہیں ہوتی۔ملحوظ رہے کہ یہ صفت یہ بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن
برائیوں کا چلن عام ہو جائے ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں
کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت
الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت کرنے
والوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) وہ مردِ مجاہد جس کی وضع قطع، چال ڈھال اور انداز
و اطوار، قول و اقرارسے کردارِ فاروقی کی مہک آتی تھی۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) وہ خطیب اعظم جس کا کلام مردہ تنوں میں روح پھو نک
دیا کرتا تھا، جس کے خطاب کا جوش و ولولہ ایسا تھا، جس کی تقریر کی گھن گرج
ایسی تھی کہ کفر کے ایوانوں میں زلزلہ کا سماں بن جایا کرتاتھا ۔جس کا مشرب
یہ حدیث پاک تھی : أَحُبُّ الْجِھَادِ إِلَی اللّٰہِ کَلِمَۃُ حَقٍّ
تُقَالُ لِاِمَامٍ جَائِرٍ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،رقم:(281/8,8080یعنی :اللہ
تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ جہاد ظالم بادشاہ کو حق بات کہنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ جہاد ظالم بادشاہ کو کسی نیکی کا حکم
دینا یا کسی برائی سے روکنا ہے یہ کام خواہ الفاظ سے کرے یا لکھ کر یا اس
کے علاوہ کسی اور طریقہ سے کرے۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کام کے پسندیدہ
ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں جہاد کرنے والا خوف بھی رکھتا ہے
اور امید بھی۔ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ غالب آئے گا یا مغلوب ہوگا مگر
ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کی وجہ سے وہ اپنی جان کو یقینی خطرے میں
ڈالتا ہے ، اسے اپنی ہلاکت کا خوف ہوتا ہے پس جہاد کی اس قسم میں چونکہ خوف
کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے اسے افضل الجہاد قرار دیا گیا۔
جو بجا طور پرشاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال کے اس شعر کا مصداق تھا :
آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بےباکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ قائد جو متحرک تھا ، جو ایسے فیصلے کرتا تھا جو
اس کی جماعت پر مثبت اثرات ڈالتے تھے، جس نے مختلف النوع افراد کی ایک عظیم
جماعت کو بطورِٹیم کو ایک مشترکہ مقصد (حضورﷺ کے دین کو تخت پر لانا ،تحفظِ
ناموس رسالت اورتحفظ ختمِ نبوت پر پہرہ دینا)کے لئے کام پرلگا دیا۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)ایک عظیم قائد جس کے عمل میں مثبت سوچ اور مثبت بات
کو بنیادی حیثیت حاصل تھی ۔ جس کی شخصیت کا جوہر ، اہم وصف اس کی بصیرت اس
کا ویژن تھی کہ بے بصیرت شخص تو آپ رہنمائی کا محتاج ہوتا ہے وہ کسی کا
رہبر کیسے بن سکتا ہے؟ بصیرت جس کا تعلق براہِ راست مثبت سوچ اور مثبت بات
کے ساتھ ہوتا ہے۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) وہ امیر المجاہدین جس نے اپنی تنظیم،تحریک بلکہ
امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ مشفق و مہربان قائد جو اپنے کارکنان کے لیے گھنے
سایہ دار درخت کی حیثیت رکھتا تھا۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) وہ عظیم رہنما جسے حضور ﷺ کی صفت لِنْتَ لَھُمْ سے
اللہ تعالی نے حصّہ عطا فرمایا تھا ،جو اپنے ویژن کو اپنے ساتھیوں اور
کارکنوں کے ساتھ شیئر کرنے کا طریقہ جانتا تھا ہے۔ جس نے بالخصوص اپنی
تحریک اور بالعموم امت مسلمہ کو اپنے عمل سے ، اپنے کردار سے یہ یقین
دلادیا کہ ان کے درمیان ایک ایسا قائد ہے جو جماعت کے مستقبل(پاکستان میں
نظامِ مصطفی کا نفاذ ) کے عظیم مشن کو لے کر ہر محاذ پر ہراوّل دستہ کا
کردار ادا کرہا ہے ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ انقلابی قائدجو اپنی جماعت میں عظیم ، مثبت
تبدیلی لے کر آیا ، دین سے دور رہنے والوں کو بالخصوص نوجوانوں کو حضورﷺ
کی محبت کا اسیر بنادیا۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) وہ انقلابی قائد جس کے پاس اپنی پارٹی کےبالکل
واضح اور روشن ویژن تھا اوراس نے وہ ویژن نہایت کامیابی سے اپنے کارکنان کے
رگ و پے میں بسا دیا ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) وہ عظیم دانشور جس کا شعور نہایت قوی تھا جسے
معلوم تاص کہ فیصلہ کیسے کرنا ہے ، پھر اس کیے گئے فیصلے پر کیسے ڈٹ جانا
ہے جسے خود بھی اللہ پاک کے فضل سے اپنے کیے گئے فیصلوں پر اعتماد تھا جس
کے فیصلوں پر اس کے تمام کارکنان کو بھی اعتماد تھا ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ وفا شعارعظیم قائد جس نے اپنی تحریک کے ہر کارکن
کو انفرادی سطح پر اس کی اہمیت کا احساس دلایا ہے اورہر ہر کارکن کو دین سے
،رسول اللہ ﷺ سے ، تحریک کے مقدس منشور سے وفاداری کا سبق پڑھایا ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ کامیاب ترین قائد جس نے اپنی کامیابیوں کا کریڈٹ
بھی اپنے کارکنوں کو دیا ، جس نے اپنی تحریک کے کارکنوں میں یہ احساس پیدا
کیا کہ اللہ پاک دین کی سربلندی کے لیے کی گئی ان کی سعی کوضائع نہیں کرے
گا ، دارین میں اللہ پاک ان کے اس کا صلہ عطا فرمائے گا اس تربیت و کردار
سازی کے نتیجے میں تحریک کے کارکنان کٹھن سے کٹھن چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے
لیے زیادہ عزم کے ساتھ تیاررہا کرتے (اور ان شاء اللہ رہیں گے )۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ ذمہ دار قائد ورہنما جسے خوداپنی ذمہ داریوں کا
بھی احساس و ادراک تھا جسے اپنے کارکنان کی ذمہ داریوں کا بھی علم تھا ،
جسے یہ ہنر آتا کہ وہ اپنے کام کے ذریعے ماتحتوں کوکام کس طرح سکھایا جاتا
ہے ۔وہ عظیم رہنما جس کے فیصلے سفلی احساسات، جذبات اور تعصبات کی عکاسی
نہیں کرتے تھے بلکہ جس کے فیصلوں کی بنیاد قرآن وحدیث پر تھی ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) جس کی ذات مکمل دیانتداری، بھروسہ مندی، منصف
مزاجی، مضبوط کردار اور اعلیٰ اخلاقی کردار سے عبارت تھی ،اللہ کے فضل سے
جو لاکھوں دلوں پر راج کرتا تھا(اور کرتا رہے گا)
خادم حسین (علیہ الرحمہ) جو بے غرض تھا ، حرص و لالچ کی آلودگی سے پاک و
صاف تھا ،جس نے کبھی اپنی جماعت اپنی تحریک کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول یا
اپنےخاندان کی بہبود کے لئے استعمال نہیں کیا ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) جس نے اپنی زندگی اللہ و رسول کے ساتھ وفاداری
کرتے ہوئے گزار دی ، جس نے اپنے ملک سے، اس کے آئین سے ، اپنی جماعت کے
لوگوں کے ساتھ وفاداری نبھائی ۔جب قائد خود اپنے منشورکے ساتھ ، اپنے ملک
وقوم کے ساتھ وفادار ہو تو اس وفاداری کا فیضان نیچے کارکنوں میں اترتا ہے
۔ خادم حسین (علیہ الرحمہ)کے کارکنان کی وفاداری و محبت ان کے ساتھ کیسی
تھی ، فیض آباد کے دھرنے اس امر کے شاہد ہیں کہ ریاستی دہشت گردی غنڈہ
گردی کے باوجود ان کے کسی کارکن نے انہیں پیٹھ نہیں دکھائی ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ عظیم قائد جس میں پہاڑوں کا سا حوصلہ تھا ، وقت
کے طاغوتی طاقتیں جس کے ہمت وحوصلہ کے آگے گھٹنوں کے بل گر گئیں ،جن کی
ذات میں ایسا عظیم حوصلہ ودیعت تھا کہ فیض آباد میں خوف و دہشت کی فضا میں
بھی اطمینان اور استحکام کے ساتھ انہوں نے تحریک کی قیادت کی ،اور مردِ
میدان کے طور پر ریاستی تشدد کا سامنا کیا ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) وہ عظیم مخلص قائد جس نے کبھی ذاتی نفع و نقصان کی
پرواہ نہیں بلکہ اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق کی سربلندی کے لئے
میدان میں آیا، ایسی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا کہ راہِ عزیمت کے مسافروں
کی یاد تازہ کردی ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ عظیم مردِمیدان جس کا گویا فلسفہ یہی تھا کہ اس
عارضی زندگی کو حیات جاودانی میں تبدیل کرنے کا واحد طریقہ یہی کہ حضور ﷺ
کی ناموس کے تحفظ کے لیے باطل ، بے دین طاغوتی قوتوں کا بے خوفی سے مقابلہ
کیا جائے،اوراس عظیم مقصد کے لیے دنیا میں (بظاہر) برباد و ہلاک ہوجانے کی
پرواہ نہ کی جائے ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ عظیم مدبِّر قائد جسے اللہ پاک نے معاملہ فہمی
کی صلاحیت عطا فرمائی ، درست موقعے پر درست بات کہنے کا ہنر عطا فرمایا ،جس
کی سیاست کے اصول قرآن و سنت کی تعلیمات پر مبنی تھے، جس کے نزدیک سیاست
کسی کو دھوکا دینے،کسی کی عزت اچھالنے منافقت سے کام لینے یا جھوٹ بولنے کا
نام نہیں تھا ، بلکہ ان کے نزدیک جو سیاست تھی وہ سیاست عبادت تھی ، انبیاء
کی سنت تھی ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ عظیم قائد جسے اللہ پاک نے کمال قوتِ فیصلہ عطا
فرمائی ،جسےاللہ تعالی نے زمینی حقائق کی جانچ پڑتال کر کے بروقت فیصلے
کرنے کی اہلیت عطا کی تھی ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ) کی ذات وہ تھی جو ظاہری معذوری و پیرانہ سالی کے
باوجود مشکل اور صبر آزما حالات میں اپنی جسمانی اور ذہنی قوتِوں کو مفلوج
نہیں ہونے دیا اور سخت ترین حالات میں بھی اپنے فرائض انجام دینے سے غافل
نہیں ہوئے ۔
خادم حسین (علیہ الرحمہ)وہ امیر المجاہدین جس کا مقصد اتنا عظیم تھاکہ اس
کے حصول کے لیے جتنی بھی رکاوٹیں راہ میں حائل تھیں، وہ ان سب سے ٹکرانے کی
قوت رکھتا تھا ، خادم حسین (علیہ الرحمہ)جو اپنے کام کو پایۂ تکمیل تک
پہنچانے سے پہلے دم لینے والانہیں تھا۔
المختصر خادم حسین (علیہ الرحمہ)کی زندگی کا خلاصہ اور نچوڑ امام اہل سنت
کا یہ ایک شعر تھا :
انہیں جاناانہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام للہ الحمد میں دنیا سےمسلمان گیا
|