ﷲ نے اس پانچ یا چھ فٹ کے انسان کوفیصلے کا اختیار دیا ہے
کہ وہ انا اور خوداری کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتا ہے یا غلام بننا پسند
کرتا ہے۔حق کا علمبرداربنتا ہے یا بے ایمانی،جھوٹ،خود غرضی اور مفاد پرستی
کے بوجھ کو اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے۔کوئی بھی عمل یا فعل کسی بھی انسان
کی حقیقت جاننے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ــ’’اچھا ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے‘‘ ۔گذشتہ
دنوں سابق وزیر اعظم اور مجرم نوز شریف کی تقاریر پر پیمرا کی جانب سے
لگائی گئی پابندی کو چند سینئر اینکرز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج
کر کے عوام کے سامنے سب عیاں کر دیا۔’’مسیحا کے روپ میں شفا بانٹنے آئے تھے
کچھ صیاد‘‘۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دال روٹی سیاسی قائدین کے مرہون منت ہوتی
ہے آپ کویاد ہو گا جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ابتدا میں ہی عمران خان نے
میڈیا ہاؤسز کی سرکاری سرپرستی چھوڑ دی تھی تب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے
سارے بکاؤ مال نئے وزیر اعظم پر چڑھ دوڑے کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے ان کے
منہ کو ’’مال مفت دل بے رحم‘‘ کا چسکہ لگا رکھا تھا مگرجب مفت مال بند ہوا
تواس کے غم میں نام ور اینکرز سمیت کالم نگار بھی شام غریباں میں شامل ہو
گئے مگردُوسری جانب قربان جائیں! عمران خان پرکہ وہ اپنے مضبوط کردار اور
اعلیٰ ظرفی کی بدولت نہایت مہارت سے ان اُجرت زدہ اور بکے ہوئے جوکروں کے
پھینکے ہوئے جال سے نہ صرف خود کو بچاتا رہا بلکہ مختلف اوقات میں اینکرز
سے ملاقاتوں کے دوران اُن کے مسخ شدہ اوربنجر زدہ چہرے عوام کے سامنے عمدگی
سے آشکار بھی کر دئیے۔ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو’’ داستان ایمان فروشوں کی‘‘
شائد یاد ہو یا شائدکچھ کے ذہنوں سے محو ہو گئی ہو مگر اینکرز کی ہائی کورٹ
میں رٹ اس کا تازہ تازہ نمونہ ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ سے بد قسمتی رہی ہے کہ
ہمارا نام نہاد پڑھا لکھا اور دانشور طبقہ اس ملک و قوم کے ساتھ کبھی بھی
مخلص نہیں رہا ہے ۔وقت بدلتا رہا ،پیمانے بدلتے رہے ۔مہ کدہ تو وہی رہا مگر
مے کش بدلتے رہے۔ چہرے ضرور نئے آئے مگر سوچ وہی پُرانی رہی۔بس یہی ہمارا
نصیب رہا اور یہی ہمارے رہنما ٹھہرے۔ان نام نہاد مفکروں اور صحافت کے
پردھانوں کوذاتی مفادات اور ذاتی پسند سے آگے دیکھنے کا کبھی شوق بھی نہیں
رہا اور نہ ہی ان کی سوچ کبھی اپنی ذات کے محور سے آگے گئی۔’’بات تو سچ ہے
مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مُلک اس وقت معاشی
بحرانی کیفیت اور حالت جنگ سے باہر آرہا ہے اس موقع پر ہر ذمہ دار شہری کا
حق بنتا ہے کہ وہ ذاتیات کے خول سے باہر نکل کر ملکی بقا و سلامتی کو مد
نظر رکھے ۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس نازک صورتحال میں ایسی سیاسی
قیادت موجود ہے جو اپنی ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں کو پہلے ہی عالمی
برادری میں منوا چکی ہے اس وقت وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ملکی
صنعتیں بحالی کی طرف جا رہی ہیں،خارجی دنیا میں پاکستان کی نیک نامی میں
خاطر خواہ اضافہ ہو اہے ،صوبہ گلگت بلتستان میں پر امن الیکشن کا نعقاد
ہوا،معاشرے میں مکمل مذہبی ہم آہنگی ہے،بیرونی ادارے پاکستان کو ایک محفوظ
سیاحتی ملک قرار دے رہے ہیں اور پاکستانی روپیہ دن بدن مضبوط ہو رہا ہے ۔اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سب ٹھیک چل رہا ہے تو پھر ان نام نہاد سینئر
اینکرز نے نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کے خلاف عدالت جانے کی ضرورت کیوں
محسوس کی ؟یہ لوگ اُس وقت عدالت کیوں نہیں گئے جب پیمرا نے الطاف حسین کی
تقاریرپر پابندی لگائی تھی؟۔ہمارے معاشرے میں روزانہ کی بنیادپر انسانی
حقوق کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں مگران اینکرز کی جانب سے ٹی وی شوز میں
بیٹھ کر بھاشن دینے کے علاوہ کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا جاتا تب انصاف کی
فراہمی کے لیے کوئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتا؟۔ اُس وقت ان کی
اخلاقیات،حمیت،غیرت کہاں سو جاتی ہے ؟۔بات صرف اتنی سی ہے کہ پہلی قسط
’’سیاسی میر جعفر اُور میر صادق‘‘ کے بعد دوسری قسط ’’میڈیا کے میر جعفر
اُور میر صادق‘‘ حاضر ہے۔ان جوکروں کی جانب سے دائر کی جانے والی رٹ پرسوال
یہ ہے کہ کیا کسی مجرم کو ملکی اداروں پر تنقید کی اجازت دی جاسکتی ہے؟کیا
دنیا کے کسی ملک میں مجرم کو سر عام پریس کانفرسوں کی اجازت ہے؟کیا مجرم کو
معزز عدالتوں پر بہتان تراشی کے لیے کھلا چھوڑا جاتا ہے؟ کیا سلامتی کے
اداروں پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں؟تحقیقی اداروں کے خلاف بد زبانی کی
جاتی ہے؟۔جب ایسا ممکن نہیں تو پھر کیوں پاکستان میں اشرافیہ کے لیے قانون
اور ہو ؟۔قانون کی نظر میں سب برابر ہیں چاہے کوئی امیر ہو یا غریب ہو۔ یاد
رکھیں! ان صحافتی مسخروں کا ایجنڈا انسانی حقوق کی بحالی ہرگز نہیں اُن کو
صرف اپنے ما لیاتی مائی باپ اور غیر ملکی آقاؤں کے ایجنڈے پر عمل کرنا ہے
سب جانتے ہیں کہ رٹ دائر کرنے کے لیے کہاں ملاقات ہوئی اور کہاں سے ہدایت
آئی۔ اﷲ کا شکر ہے کہ اس رٹ کی وجہ سے عوام کی اکثریت نے ان ماسک پہنے
بہروپیوں کو پہچان لیا اور جان گئے ہیں کہ ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھے یہ
’’رنگ باز‘‘ دراصل ’’روپے پیسے‘‘ کے یار ہیں۔ ان کا تو یہ حال ہے ’’جس نے
ماری آنکھ،اُس کی گاڑی میں بیٹھ گئے‘‘۔ وزیر اعظم عمران خان سے درخواست ہے
کہ وہ پوری دل جمعی کے ساتھ اپنے کام سرانجام دیں عوام کو اُن پر اعتماد ہے
اور عوامی طاقت اُن کے ساتھ ہے۔ اُن کو اپنی پوری توجہ موجودہ مسائل کو حل
کرنے پر لگانی چاہیے اور یاد رہے کہ حکومت کواپنی عمدہ کارکردگی عوام تک
پہنچانے کے لیے ان’’ میڈیا کے میر جعفروں اور میر صادقوں ‘‘کی ہرگز ضرورت
نہیں ہے۔
|