دو طرفہ ہمدردی

تحریر: محمد ارسلان رحمانی
چند سال پہلے کی بات ہے جب ہم طالبعلم تھے، کلاس میں بیٹھے تھے، تیسرے پیریڈ کے استاد محترم کے آنے کا انتظار تھا، اتنے میں دور سے استاذ جی آتے دکھائی دیے، سب سہم کر اور اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے، اساتذہ تو سب ہی ہیرے تھے لیکن تیسرے پیریڈ کے استاد جی کا انداز ہی کچھ نرالہ تھا، ہنس مکھ طبیعت کے مالک، غصہ تو جیسے ان کے قریب قریب بھی نہیں بھٹکتا۔ آج استاد جی کے کلاس میں آنے، بیٹھنے اور پڑھانے کا انداز مختلف تھا۔ استاد جی کا موڈ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ کافی غصے میں دکھائی دے رہے تھے۔ طلبہ بھی اس بات کو سمجھ گئے، سبق پڑھانا ابھی شروع ہی کیا تھا کہ اچانک کتاب بند کردی۔ کلاس میں مکمل خاموش، طلبہ پریشان تھے۔ عجیب عجیب سوالات ذہن میں گردش کررہے تھے۔
 
میرے ساتھ بیٹھے ساتھی نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ شاید کسی طالبعلم نے کوئی غلطی کی ہے یا کسی نے بدتمیزی کی ہوگی۔ تبھی استاد جی کا موڈ آج کافی آؤٹ ہے، میں نے بھی اثبات میں سرہلادیا۔ استاد جی نے خاموشی توڑی، طلبہ سے گویا ہوئے، معزز طلبہ! آج دل بہت بے چین و افسردہ ہے، کچھ بولنے کو الفاظ نہیں، آج ایک بار پھر دین کو بدنام کیا گیا۔ آج چند جاہل و دین سے ناواقف لوگو کی وجہ سے پوری دنیا مولوی و مدرسہ کو لعن طعن کررہی۔

اب مجھے سمجھ آگیا تھا کہ معاملہ کیا ہے، دراصل آج صبح سویرے چند دین کے نام لیوا جاہلوں نے اپنی بھڑاس نکالنے کی لیے آرمی اسکول کے معصوم بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ معصوم و نہتے پھولوں پر اپنی مردانگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ پھول جو ابھی ٹھیک طرح کھلے بھی نہ تھے کے انہیں مسل دیا گیا۔

میں اپنے ہی خیالوں میں گم ہوگیا تھا،ساتھ والے ساتھی نے کہنی مارکر مجھے احساس دلایا کہ میں اس وقت کلاس روم میں ہوں، ایک بار پھر کان استاد جی کی طرف متوجہ ہوئے، استاد جی فرمارہے تھے ہمارا دین بالکل اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بچوں کو مارا جائے، میں نہیں مانتا کہ حملہ آور دین سے ذرہ بھی واقف تھے یقینا یہ لوگ دین کے نام پر استعمال کیے گئے۔

اسی بے چین و مضطرب طبیعت کے ساتھ استاد جی تو کلاس سے اٹھ کر چلے گئے لیکن میرے دل میں دگنا افسوس اٹھ رہا تھا۔ ایک تو اس بزدلانہ حملے پر اور دوسرا افسوس اس بات پر کہ ہمارا میڈیا و عوام آج کے واقعے پر خوب ہمدردی و افسوس کا اظہار کررہے، ہونا بھی چاہیے لیکن یہ ہمدردی یکطرفہ کیوں؟ آج پشاور کے ایک مدرسہ میں عین اس وقت جب معصوم طلبہ اپنے اور نبی ﷺ کی باتوں کے مذاکرے میں مصروف تھے۔ اسی حالت میں انہیں خون میں نہلادیا گیا۔

آخر ان کا کیا قصور تھا؟ باجوڑ مدرسہ میں شہید ہونے والے بھی تو کسی ماں کے بچے تھے،تعلیم القرآن میں ذبح کیے جانے والے بھی تو بچے تھے۔ لال مسجد میں گولیوں و بموں سے بھون دیے جانے والے بھی تو بچے تھے۔ جامعہ حفصہ میں پڑھنے والی حوا کی معصوم و نازک کلیاں بھی تو پاکستانی تھیں۔ جب اسکول کے بچوں پر بزدلانہ حملہ کیا گیا تھا تو اس وقت آنسو بہانے میں ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آج جب مدرسہ کے طلبہ کو خون میں نہلایا گیا تو آنسو بہانے میں میں اکیلا کیوں؟ ہمدردی و افسوس ہے دونوں کیساتھ،آپ بھی ضرور کریں، یکطرفہ نہیں، دوطرفہ۔۔۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1020611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.