بحیثیت مسلم قوم ہمارے سامنے دو نظام ہیں جن کے ذریعے
کاروبار زندگی چلایا جا رہا ہے ایک نظام رب کائنات نے پیغمبروں اور انبیاء
کے ذریعے ہمیں دیا جس کا نام اسلام ہے جس کے کلیات قرآن کریم میں موجود ہیں
اور جزیات سیر ت الانبیاء و مرسلین وخاتمہ النبین ولمرسلین محمد مصطفی احمد
مجتبی ﷺ موجود ہیں اور یہ جزیات ان ہستیوں کے سینوں میں بھی ہیں جن کے بارے
میں قرآن پاک میں کہا گیا کہ ہمارے خاص بندے جن کو وارث قرآن بنایا جن کو
علم لدنی عطا کیا مگر ہم مسلمان نے اﷲ کے نظام اور اﷲ کے بندوں سے دوری
اختیار کر کہ خود کو دنیاکے نظام میں جکڑ لیا ہے ہم جب حکمرانی کا تصو کرتے
ہیں تو زیادہ تر ہمارے سامنے جمہوریت کا خیال آتاہے اس دنیاوی نظام میں
کہیں پارلیمانی اور کہیں صدارتی جمہوریت نظر آتی ہے جیسے برطانیہ میں
پارلیمانی اور امریکہ میں صدارتی ، جہاں کسی حد تک جمہوری نظام پر شفاف عمل
بھی نظر آتا ہے ، عدل و انصاف بھی اور انسانی حقوق کی پاسداری بھی، لیکن
دنیا کے پچاس مسلم ممالک میں حقیقی جمہوریت نظر نہیں آتی، نہ عدل وانصاف
اور نہ ہی انسانی حقوق کی پاسداری کہیں نظر آتی ہے،کیونکہ مسلمانوں کے مزاج
میں ملوکیت سرایت کر گئی ہے ملوکیت میں حاکم بادشاہی مزاج ہوتا ہے اورعوام
رعایا ہوتی ہے یایوں سمجھ لیں مالک اور غلام کا رشتہ ہوتا ہے، اسی وجہ سے
جمہوریت کی شفافیت کہیں نظر نہیں آتی، ملوکیت کی کامیابی کا راز اس میں ہے
کہ رعایا کو طمع اور خوف سے اپنے دباؤ میں رکھا جائے اور اس ہی اصول پر
ہماری اسلامی ریاستیں قائم ہیں جبکہ یہ سب دین اسلام کے عین خلاف ہے کیونکہ
خطبہ حجتہ الوداع میں نبی کریم ﷺ نے جو چارٹرڈ دیا اس میں ہر معاملے میں
عدل و انصاف کو مد نظر رکھا اورگورے اور کالے کی تمیز نہ رکھی، امیر اور
غریب میں عزت ووقار کا رشتہ قائم رکھا جزا او ر سزا کا تصور صرف اسلام میں
ہے مگر آج بھی مسلم دنیا میں وہ لوگ ناپید ہیں جو اسلام کو سمجھتے ہوں اور
اس کو عملی طور پر نافذ العمل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں فرقہ واریت اور
تعصب نے ہم کو ایک قوم نہ رہنے دیا جبکہ بحیثیت امت ہم سب مسلمان نبی کریم
کے امتی ہیں لہذا جب تک فرقہ واریت اور تعصب کوختم نہ کیا جائے گا ہم ایک
منتشر ہجوم کی طرح رعایا ہی بنے رہیں گے، کم سے کم ہم دنیاوی جمہوریت سے ہی
مخلص ہوتے تو ہم بھی ترقی یافتہ قوم ہوتے لیکن کیا کریں آج جو بھی مسلم
جمہوریت کا نام لیکر اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں وہ خود بھی جمہوری مزاج نہیں
ہوتے اور اگر ہوتے تو ہمارے ہاں اقتدار موروثی نہ ہوتا خالص جمہوری ہوتا ،
نام جمہوریت کا لیتے ہیں حکمرانی میں شاہی مزاج ہیں پاکستان میں جتنی سیاسی
جموریت کا دعویٰ کرتی ہیں ان میں پیپلز پارٹی میں بھٹو کے بعد ان کی
صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نظر آتی ہیں اور اس کے بعد محترمہ کے
شوہر جو سینٹرل کمیٹی کے رکن بھی نہ تھے، پارٹی کی قیادت پر قبضہ کرلیتے
ہیں اور سینٹرل کمیٹی تمام جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے اور
پھر محترمہ کے نونہال کو پارٹی قیادت دے دی گئی اس ہی مسلم لیگ نے اپنی ہی
پارٹی کے صدر جو وزیراعظم تھے محمد خان جونیجو ، جو واقعی جمہوری مزاج تھے
جب انہوں نے اس وقت کے صدر اورپاک فوج کے سپہ سالار کوکہا کہ آپ شیروانی کو
اپنائیں یا وردی کو یعنی ایک وقت میں ایک منصب سنبھالیں تو اس بات پر وہ
ناراض ہوگئے اور وزیراعظم کو ہی فارغ کردیا اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ
مسلم لیگ نے بھی کوئی احتجاج نہیں کیا اور ابن الوقتی کا مظاہر ہ کیا طمع
میں آ کر مسلم لیگ کی قیادت میاں نواز شریف نے سنبھال لی اور پنجاب کی مسلم
لیگ کا صدر اپنے شہباز شریف کو بنا دیا پورے ملک میں کہیں احتجاج نہ ہوا ،
پھر جمعیت علماء اسلام کی قیادت مولانا مفتی محمودکے بعد ان کے فرزند
ارجمند مولانا اویس نورانی آگئے کسی نے احتجاج نہ کیا ان نام نہاد جمہوریت
کے دعویداروں نہ تو اسلام کے حامی نکلے اور جمہوریت کے ماننے والے ، جس کا
منفی نتیجہ ہمارے سامنے ہے جو پاکستان بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی پیچھے
ہے ملک میں کوئی بنیادی سہولت تک رعایا کومیسر نہیں ہے امریکہ کی لومبرگ نے
تحقیقی جائزے میں کراچی کو بدترین خستہ حال شہر قرار دیا ہے جبکہ یہ شہر
پاکستان کے شہروں میں سب سے زیادہ حسین ، شفاف اور سہولتوں سے آراستہ شہر
ہوا کرتا تھا، اس شہر کی تباہی میں ایم کیو ایم ، زرداری پارٹی اور فرقہ
وارایت کرنے والی پارٹیوں کا ہاتھ ہے ، ہماری عوام ملوکیت مزاج ہے جو کردار
کے بجائے شخصیت کے پجاری ہیں جب تک ان میں عدل و انصاف کا شعور نہیں ہوگا
اور شخصیت پرستی سے نکل کر کردار پرست نہ ہوں گے تب تک یہ رعایا لٹتی رہے
گی سسکتی رہے گی تڑپتی رہے گی اﷲ بھی ان کی مدد نہیں کرے گا جب تک صاحبان
کردار عادل منصف مزاج غیر متعصب لوگوں کو حکمرانی کا حق نہ دیں گے۔
|