وزیر اعظم عمران خان نے یو ٹرن کو سٹریٹجی تبدیل کرنے کا
نام دے دیا ہے۔کیوں کہ مقابلے میں سٹریٹجی تبدیل کرنا پڑتی ہے ،اسی مقصد کے
لئے وزیر اعظم کو یو ٹرن لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔دوسرا وزیر اعظم کا کہنا ہے
کہ ان پر فوج کا کوئی دباؤ نہیں ہے ،فوج نے کبھی کسی کام سے انہیں نہیں
روکا،فوج مجھے کسی کام سے روک بھی نہیں سکتی کیوں کہ میں نہ تو چور ہوں اور
نہ ہی مجھے کرسی سے چمٹنے کا شوق ہے ۔
عمران خان کے پاکستان کی سیاست میں آنے سے نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملی
ہیں۔انہوں نے ایسے ایسے چہرے اقتدار کے ایوانوں میں متعارف ہی نہیں
کروائے،بلکہ انہیں وزیر اور مشیر بھی بنا ڈالا،جن کے متعلق گمان بھی نہیں
کیا جا سکتا تھا۔اس کا نتجہ یہ نکلا کہ جو ایشوز پہلے ایوانوں تک محدود
رہتے تھے،وہ اب گلی اور محلوں کی سطح پر اٹھائے جا رہے ہیں۔یہاں یہ سمجھنا
بالکل غلط ہو گا کہ عوام سیاسی شعور رکھتی ہے،بلکہ یہ کہا جائے کہ عوام میں
سیاسی شعور ارتقا کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے۔صرف شور اور احتجاج کو
سیاسی شعور نہیں کہا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاست دان عوام کو اپنے
جھوٹے وعدوں، دعوؤں سے بے وقوف بنا کر اقتدار کا حصول اور طول دیتے ہیں ۔
عمران خان بھی یو ٹرن کی وضاحت پر عجیب تشریح بیان کرتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں
کہ یوٹرن کے بغیر کوئی کامیاب لیڈر نہیں بن سکتا،تاریخ میں نپولین اور ہٹلر
کی ناکامیوں کو یوٹرن نہ لینے کی وجہ بتائی گئی۔عمران خان نے 1996ء میں
پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی ،اپنے 23سالہ سیاسی کیرئیر میں ان کے
کئی یو ٹرن ملتے ہیں۔پہلے عوام ان کے اس انداز پر توجہ نہیں دیتی تھی،کیوں
کہ پاکستانی عوام اندھی تقلید پر یقین رکھتی ہے،کسی بھی گفتگو کو دلائل اور
حقائق کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی پارٹی لیڈر شپ سے وابستگی کی نظر سے
دیکھا جاتا ہے۔حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ بات کو دلائل کی بنیاد پر پرکھا
جائے۔اگر بات وزیر اعظم عمران خان کے یو ٹرن کی ہے تو یہ کام بار بار
ہواہے۔یعنی جیسے میں قرضہ نہیں لوں گا،لیکن آئی ایم ایف سے قرضہ لیا۔پیٹرول
گیس ،بجلی سستی کروں گا،جب کہ ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا
گیا،میٹروبس نہیں بناؤ گا،لیکن پشاور میں میٹرو بنائی گئی۔ڈالر مہنگا نہیں
کروں گا،ڈالر نے اپنی اڑان آج تک بھری ہے۔ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دوں
گا،ٹیکس ایمنسٹی سکیم نافذ کی گئی ۔آزاد امیدواروں کو نہیں لوں گا،اقتدار
کے حصول کے لئے جنہیں سب سے بڑا ڈاکواور دہشت گرد کہتے رہے انہیں حکومت میں
حصہ دیا،جگری دوست جہانگیر ترین کے جہاز بھر بھر کے آزاد امیدواروں کو
پارٹی میں شامل کیا۔مختصر کابینہ بناؤ گا،وزیروں اور مشیروں کی لائین لگا
دی۔جس پر الزام ہو گا اسے عہدہ نہیں دوں گا،وغیر ہ ۔یعنی کس کس بات کا رونا
رویا جائے۔اب اس میں ان کے کیا اہدافتھے جن کو حاصل کرنے کے لئے یو ٹرن
ضروری تھا کہ ان عام وعدوں کو بھی نبھایا نہیں جا سکا۔حالاں کہ یہ چند وعدے
جن پر وزیر اعظم نے یوٹرن لئے یہ عوام اور ملک کی بہتری کے لئے تھے۔عمران
خان آج بھی اپنی یو ٹرن والی عادت پر پشیماں نہیں ہیں،بلکہ اس کا دفاع کرتے
نظر آتے ہیں ۔
فوج مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتی ۔یہ ایک حیرت انگیز بات ہے ۔جب کوئی خود
بار بار کہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور فوج میرے ساتھ کھڑی ہے۔
اس کا صاف مطلب ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ ہوتا ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کے
آئین کی رو سے فوج ایک بڑا ادارا ہے ۔جس کا کام ملکی دفاع ہے، ملک چلانا
نہیں ہے۔اگر جمہوری نظام درست حالت میں نہیں چل رہا ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ
مارشل لاء لگا دیا جائے۔جب وزیر اعظم خود کہے کہ فوج وزیر اعظم کی ہر بات
سے واقف ہے ،بلکہ یہاں تک کہ ان کے فون تک سنتی ہے اور کس کس سے کیا کیا
باتیں کی جا رہی ہیں ،تو اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ کنٹرول کس کا ہے
۔یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں جہاں دیکھیں حاضر اور ریٹائرڈ فوجی نظر آ تے
ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے تمام اداروں میں قابل فرد کوئی
نہیں،صرف فوج ہی واحد ادارا ہے جہاں قابلیت موجود ہے۔کیوں کہ سی پیک جیسے
اہم پروجیکٹ پر ایک متنازعہ ریٹائرڈ فوجی آفیسر کی تعیناتی اس کا واضح ثبوت
ہے۔اگر یہ بات وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ عاصم سلیم باجوہ ہی ایک شخصیت ہے
جو اس قابل ہے، جسے سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین لگایا جا سکے۔تو پیچھے کیا
رہ جاتا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کو غدار اور وطن دشمن کہا
جانے لگتا ہے۔ہمارے معاشرے میں ادب ،تہذیب اور شائستگی دم توڑ کر رہ گئی
ہے،ہماری معیارِ تربیت نا قص ہو چکی ہے،والدین بھی بچوں کی تربیت پر کوئی
توجہ نہیں دے رہے۔جب غیر معیاری گفتگو کرنے والے سٹار بنے اور صاحب علم لوگ
سفید پوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں تو کیا کہا جا سکتا ہے ۔یاد رہے
یہی قوموں کے زوال کا وقت ہوتا ہے۔اس بنیادی بات کو لیڈرز کو سمجھنا ہوتا
ہے،معاشرے کو یوٹرن سیکھانے کی بجائے وعدہ وفا کرنے کا درس دینا ہوتا ہے
اور اداروں کا برابری کی بنیاد پر احترام نہ کرنا ،کسی لیڈر کی نشانی نہیں
ہوتی ،بلکہ مفاد پرستی اور ذاتی اہداف کے لئے ملک و قوم اور ملکی اداروں کو
داؤ پر لگا دینا انتہائی خطرناک بات ہے ۔عمران خان ماضی کی حکومتوں پر
الزام لگاتے ہیں کہ اداوروں کو استعمال کیا ،لیکن انہوں نے توخود بھی اسی
روش کو پکڑ رکھا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اپنے 40سالہ فیم کا بار بار ذکر کرتے ہیں ۔مانا کہ
انہیں کرسی کی طلب بھی نہیں ہے ،لیکن وہ جس عمل کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے
اس ہر حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں ۔اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر حریفوں کو
دھمکیاں دیتے ہیں ،فوج اور نیب کی پشت پناہی پر فخر کرتے ہیں ۔یہ رویہ
سیاست میں انتشار کا باعث بن رہا ہے۔اس پر عمران خان کو غور کرنے کی ضرورت
ہے۔اس میں کوئی شک نہیں وہ ملک کے لئے اچھے کام کرنا چاہتے ہیں،وہ سسٹم کو
بہتری کی طرف لانے کے خواہش مند بھی ہیں ،مگر اس کے لئے شورو غل کرنے کی
ضرورت نہیں،بلکہ قوانین کو بہتر بنا کر انتظامیہ سے عمل درآمد کروانے کی
ضرورت ہے۔اگر وہ سمجھتے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن سلیکٹڈ نہیں تھے ،تو
اپوزیشن بھی بھاری ووٹوں کے ساتھ منتخب ہوئی ہے ،ان سے اتنی بے رخی کی کیا
وجہ ہے ؟کیا صرف یہ غصہ ہے کہ مجھے اسمبلی میں پہلی تقریر نہیں کرنے دی گئی
،دل بڑا کریں۔عمران خان نے اپنے اقتدار میں جب بھی کسی نظام کو درست کرنے
کی کوشش کی،اس میں ناکامی ہوئی ۔ریاست سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔اگر کہا
جائے کہ مافیاز بہت طاقت ور ہیں،تو دوسری جانب کہنا چاہیے کہ ریاست کمزور
ہے ۔ان مسائل سے چھٹکارے کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔عوام کو
بھی چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں ۔ووٹ کو عزت دو کے نعرہ لگانے والوں سے
امیدیں لگانے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ انہوں نے ماضی میں حکمران بن کر
کیا کچھ نہیں کیا ۔انہیں کی غلطیاں آج عوام بھگت رہے ہے۔عمران خان کے وعدوں
پر آج بھی اعتماد کرنے والوں کو اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں
نے صرف انہیں اقتدار میں لانے والوں سے وعدہ وفا کیا ہے ۔ہر کوئی اپنی اپنی
سیاسی پارٹی کے متعلق رائے رکھنے کا حق رکھتا ہے ،مگر برداشت اور میانہ روی
کا دامن مت چھوڑیں اور حقائق کو دلائل کے ساتھ سمجھیں ۔یہ سیاسی رہنما تو
اپنے اہداف کے پیچھے ہیں،دیکھنا تو یہ ہے کہ آج عوام کہاں کھڑے ہے․․․!
|