جولائی 2014ءوہ ڈیڈ لائن ہے جب نیٹو کو
سےکورٹی ذمہ داریاں افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کے حوالے کرنی ہیں۔ جولائی
2011ءامریکا کے لیے زیادہ اہم بن گئی ہے، کیوں کہ اس ماہ افغانستان سے
واپسی کا عمل شروع ہوگا۔ افغانستان میں امریکا اور بین الاقوامی فوجوں کے
کمانڈر ایڈمرل مائک مولن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ 2010ءکے اختتام تک
شورش کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
فوجوں میں اضافے کے احکامات صدر اوباما نے پچھلے برس دسمبر میں دیے تھے۔
تاہم موسمِ گرما میں پُرتشدد کارروائیوں کو جنرل میک کرسٹل کی ریٹائرمنٹ کے
باعث کنٹرول نہیں کیا جاسکا۔ جنرل میک کرسٹل افغانستان میں امریکی اور
انٹرنیشنل سےکورٹی فورسز ایساف کے کمانڈر کررہے تھے اور بعدازں امریکی
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل پیٹریاس نے ان کا قندہار پلان ختم کردیا تھا۔
اب جب کہ قندہار کے علاقہ کو عسکریت پسندوں سے پاک کرنے کے لیے نئے امریکی
منصوبہ پر ایڈمرل مائک مولن عمل درآمد کرائیں گے، جو کہ میک کرسٹل کے
برخلاف مقامی ملیشیا کے ذریعے دشمن کے گرد گھیرا تنگ کرنے، طالبان سے
علیحدہ ہونے والے عناصر اور کرزئی حکومت کے مصالحتی اقدامات پر انحصار
کررہے ہیں۔ اس منصوبہ کی کامیابی کا اعلان انہوں نے 60 ملکوں کی حمایت سے
کیا، جس میں پاکستان اور ایران شامل ہیں۔ انہوں نے امریکی منصوبہ کا اعلان
کابل میں ایک اجلاس کے دوران کیا۔
تاہم امریکا تمام طالبان کو اپنی جانب نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ حقانی نیٹ ورک
سے کسی قدر بیزار ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے دورہ اسلام
آباد اور بعدازاں کابل کانفرنس میں بھی یہ واضح کرتے ہوئے پاکستان پر زور
دیا کہ وہ اس گروپ کے خلاف کارروائی کریں۔ امریکی مندوب کے خصوصی فنڈ سے
اہم شعبوں بہ شمول توانائی، تعلیم، صحت اور زراعت کی بہتری کے لیے 500 ملین
ڈالر (50کروڑ ڈالر) کی امداد کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے اپنی پوری کوشش
کی کہ ان کے میزبان یہ سمجھ لیں کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن اور
حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کتنا ضروری ہے۔
ایڈمرل مائک مولن جنہوں نے ہیلری کے دورہ پاکستان کے فوری بعد اسلام آباد
کا دورہ کیا تھا، پاکستان میں ٹاپ فوجی قیادت پر یہ واضح کیا کہ اُسے اپنے
ملک کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے امریکا اور اس کی فوجوں کے مفادات کو بھی
تحفظ دینا ہوگا۔ افغانستان میں استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کو نہایت
اہم قرار دیتے ہوئے انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجوں کے کسی
آپریشن کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا امریکا اپنے اسٹرٹیجک حلیف کی
خودمختاری کا احترام کرتا ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ نے اسلام آباد میں میڈیا کے ایک
منتخب گروپ سے خطاب کرتے وقت یہ کہہ کر خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی تھیں کہ
انہیں یقین ہے کہ اُسامہ بن لادن اسلام آباد میں ہے۔ ایڈمرل مائک مولن نے
ہیلری کے الفاظ تو نہیں دُہرائے تاہم لشکرِ طیبہ کے بارے میں بھارت کی
پرانی تشویش کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا کہ امریکا چاہتا ہے کہ
اس عسکریت پسند گروپ کے خلاف کارروائی کی جائے، کیوں کہ اس کے بارے میں صرف
بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں ہی تشویش نہیں بلکہ یہ معاملہ عالمی تشویش کا
باعث بن گیا ہے۔ کرزئی حکومت کی جانب سے طالبان سے مصالحت کے معاملے پر
انہوں نے اچھی اور بری روحوں کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی، ان کا کہنا تھا
کہ اچھے طالبان سے مصالحت کی جاسکتی ہے۔
آنے والے مہینوں میں تشدد میں اضافہ ہوگا اور انسانی جانوں کا اتلاف بڑھ
جائے گا، کیوں کہ امریکی فوجیوں افغانستان میں شورش کے خاتمے کے لیے اپنی
کارروائیوں میں تیزی لائیں گی۔ جنرل پیٹریاس پہلے گھیراؤ اور پھر چڑھائی کی
حکمتِ عملی کے بجائے مقامی ملیشیا کو پہلے ہمت افزائی اور اکسانے کے بعد
بعدازاں حمایت کی حکمتِ عملی کے ذریعے باغیوں سے نمٹنے کی تحریک شروع کریں
گے۔ ایڈمرل مولن کے ”ونگ مین“ ہالبروک جو افغانستان میںشہری امور کی امریکی
مہمات کے نگران ہیں اس سال کے آخر میں اپنے اہم فوجی اہداف حاصل کرلیں گے۔
اس امر کا اظہار انہوں نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان فلپ کرولی نے 24 جولائی کو صحافیوں کو بریفنگ دیتے
ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کو بالکل ختم نہیں کیا
جائے گا، بلکہ افغانستان کے لیے اس کے وعدے کئی کئی برسوں تک محیط ہیں۔
ادھر مائک مولن کے مطابق نیٹو سیکورٹی ذمہ داریاں 2011ءتک افغان نیشنل
سیکورٹی فورسز کے حوالے کرنے کا آغاز کرے گا اور یہ عمل اگلے تین برسوں میں
مکمل کرلیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ٹرانزیشن کا عمل زمینی
حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مکمل کیا جائے گا۔
قبل ازیں جنرل میک کرسٹل نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد افغانستان میں امریکی
کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغان فوجیوں اور قومی پولیس کی تعداد
میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک سال قبل افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کی تعداد
150,000 تھی جو کہ اب بڑھ کر 2,30,000 ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ 18
ماہ کے دوران ایک قابلِ ذکر کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اضافہ گزشتہ 7
سال کے دوران ہونے والے اضافے کے مساوی ہے۔
افشاں ہونے والی 92,000 دستاویزات اور حال ہی میں میڈیا میں شائع ہونے والی
رپورٹوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران
امریکی حکمتِ عملی کا انحصار بڑے پیمانے پر مخالفین کے قتل پر تھا۔
2004ءسے2009ءسے متعلقہ افشاں ہونے والی 92000 خفیہ دستاویزات پر تبصرہ کرتے
ہوئے نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریہ میں کہا ہے کہ یہ دستاویزات حالیہ برسوں
کے دوران پاکستان کی ڈبل ڈیلنگ کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ اس امر کی نشان دہی
کرتی ہیں کہ اہم امریکی حلیف (پاکستان) اپنے حلیفوں کو طالبان سے براہِ
راست ملنے کی اجازت دیتا ہے۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا تھا کہ اگر اوباما اسلام آباد کو طالبان سے تعلقات
منقطع کرے اور پاکستان میں انتہا پسندوں کے خلاف جارحانہ انداز میں لڑنے پر
راغب نہیں کرسکتے تو افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کی کوئی امید نہیں
رکھی جاسکتی۔ |